بانہال// 2010 میں ریاست جموں وکشمیر کے 15 اضلاع سے کل 1052 امیدواروں میں سے محکمہ پولیس میں 231 امیدوار بطور کانسٹبل، وائر لیس آپریٹر بھرتی کئے گئے ۔ریاستی پولیس بورڈ کی نگرانی میںجسمانی ، تحریری اور زبانی امتحانات پاس کرنے کے بعدمنتخب کئے گئے اعلیٰ تعلیم یافتہ ان نوجوانوں نے 7 سال تک ریاست کے اکناف و اطراف میں اپنا فرض ادا کیا لیکن انہیں اسی سال کے اوائل میں نوکری سے یہ کہہ کر برخاست کر دیا گیا ہے کہ بھرتی کا یہ عمل ضلع سطح کے بجائے ریاستی سطح پر ہونا چاہئے تھا۔ 13 ماہ تک وجے پور اور کٹھوعہ کے پولیس تربیتی مراکز میں ہتھیاروں اور تکنیکی تربیت کے بعد ریاست جموں وکشمیر کے مختلف علاقوں میں ریاستی پولیس کی مختلف ونگوں میں سات سال تک اپنا فرض انجام دینے والے ان 231 امیدواروں کیلئے جاری یہ حکمنامہ انتہائی دشوار گزار ثابت ہورہا ہے۔ ضلع اور ریاستی کیڈرکی بھرتی کے عمل کی چپقلش اور پولیس کے اس فیصلے کی وجہ سے وادی کشمیر کے 90 جبکہ صوبہ جموں کے 141 پولیس اہلکار جنوری 2017 سے بے روز گار ہوکر رہ گئے ہیں جس کے نتیجہ میں ان کے گھروں کاچولہا بجھ گیا ہے۔ کئی اضلاع میں ان سابقہ پولیس وائرلیس آپریٹروں کو اپنی حفاظت کو لیکر بھی خدشات کا سامنا ہے اور7 سالہ ملازمت سے برخاستگی کے بعد انہیں دوسری جگہوں پر روزگار کی کشمکش کرنا بھی مشکل ہوگیا ہے ۔ پولیس ، آئی آر پی اور آرمڈ پولیس میں نوکری کرنے کے بعد محکمہ سے نکال باہر کئے گئے ان بدنصیب امیدواروں میں سے ضلع سرینگر سے 23 ، اننت ناگ سے 36، کولگام سے 16 ، پلوامہ سے 01 ، شوپیان سے 14 ، جموں سے50 ، پونچھ سے 09، راجوری سے 01، ، ڈوڈہ سے 07، رام بن سے 08 ،کشتواڑ سے 01 ،ادہمپور سے 21 ، ریاسی سے 09 ، سانبہ سے 16 اور ضلع کٹھوعہ سے 19 امیدوار شامل ہیں۔ نوکریوں سے بلا کسی خطا کے محروم کئے گئے ان پولیس اہلکاروں کے ایک وفد نے کشمیر عظمی کو بتایا کہ ان میں سے بیشتر اچھے تعلیم یافتہ ہیں اور بعض نوکری کیلئے مقرر عمر کی حد بھی پار کر چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا اور ہمارے بچوں کا مستقبل پولیس کے اعلی حکام اور ریاست جموں وکشمیر کی حکومت کے عہداروں کے ہاتھ میں ہے کیونکہ اس پورے معاملے میں نہ ان سے کوئی غلطی سرزد ہوئی ہے اورنہ ہی ان کی پولیس نوکری کسی فراڈ اور رشوت خوری کے بل بوتے پر حاصل کی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ریاستی پولیس کی طرف سے اپنے ہی منتخب طریقے سے کی گئی بھرتی کو ختم کئے جانے کے معاملے نے انہیں بلی کا بکرا بنا دیا ہے اور جس کا براہ راست اثر ہمارے بچوں اور گھروں پر پڑا ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ پولیس کی پراسیکویشن ونگ کی عدم دلچسپی اور عدالتی احکامات کو نہ عملانے کی وجہ سے ان کا اور ا±ن کے بال بچوں کا مستقبل داو پر لگا ہوا ہے اور اب تک کانسٹبلوں کی بھرتی ضلع سطح پر کی گئی ہے اور ریاستی سطح کا مدعا بنا کر ان کے مستقبل سے کھلواڑ کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا 19 جنوری 2017 کو نوکریوں سے نکلانے کے فیصلے کے خلاف انہوں نے ریاستی ہائی کورٹ میں نہ صرف انہیں برخاست کرنے کے پولیس حکم نامے پر سٹے دیا بلکہ حکومت کو حکم دیا کہ وہ فوری طور باہر کئے گئے تمام 231 اہلکاروں کو اپنی اپنی جگہوں پر واپس تعینات کرکے ان کی تنخواہیں واگذار کرے لیکن پولیس نے عدالتی احکامات پر عمل نہ کیا۔ انہوں نے کہا جون میں بھی سرینگر ونگ سے ہمیں بحال کرنے کے حکم سمیت جنوری سے اب تک جاری کئے تمام تین عدالتی احکامات پر محکمہ پولیس نے کوئی عملدرامد نہیں کیا گیا ہے۔ انہوں نے ریاستی وزیر اعلی محبوبہ مفتی ، گورنر نریندر ناتھ ووہرا اور ڈائریکٹر جنرل آف پولیس ڈاکٹر شیش پال وید سے اپیل کی ہے کہ وہ ان کے مسائل حل کرنے میں کلیدی رول ادا کریں۔