۔ 50فیصد کو عینک کی ضرورت، پرائیویٹ سکولوں میں سو فیصد آن لائن پڑھانے کا رجحان
پرویز احمد
سرینگر //کووڈ 19وائرس کے دو برسوں کے دوران سکولی بچوں کو آن لائن ٹیوشن پڑھانے سے وادی کشمیر میں ایک نئی وباء نے جنم لیا ہے۔ وادی کے نفسیاتی شعبہ کے ماہر معالجین کا کہنا ہے کہ 2020اور 2021کے بعد شہر ، قصبہ جات اور دیہات میں60فیصد بچے موبائل سمارٹ فون کے عادی ہوگئے ہیں اور اس شرح میں متواتر طور پر اضافہ ہورہا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ 2021کے سالانہ اسٹیٹس آف ایجوکیشن رپورٹ (ASER) کے مطابق بھارت میں سکولی بچوں کی جانب سے موبائل فون استعمال کر نے کی شرح 80فیصد تک پہنچ گئی ہے ، جو کوویڈ سے پہلے 40فیصد سے کم تھی۔ایک ایجوکیشنل سروے میں کہا گیا ہے کہ محض 10فیصد بچے موبائل فون کو تعلیمی مقاصد کیلئے استعمال کررہے ہیں جبکہ 90فیصد اسے تفریح مقاصد بشمول فلموں اور دیگر غیر ضروری مقاصد کیلئے استعمال کرنے کے عادی بن چکے ہیں۔ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وبائی امراض کے دوران مالی رکاوٹوں سے قطع نظر، لوگ اب بھی اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے سمارٹ فونز دینے پر مجبور ہیں جس کی وجہ سے بچوں کے لئے منفی ذہنی اثرارت بھی مرتب ہورہے ہیں۔وادی کے ہر ایک سکول میں ہر ایک کلاس کیلئے آن لائن ہوم ورک بھیجنے کا ایک رجحان پیدا ہوگیا ہے اور ہر ایک سکول دن میں سکولی بچوں کو کام کاج کے اوقات میں ہوم ورک دینے کیلئے ہر ایک کلاس گروپ میں شام کے اوقات میں ہوم ورک بھیجتے ہیں ۔اس نئے رجحان کے منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں جس نے ایک وبائی شکل اختیار کی ہے۔سرینگر اور دیگر قصبہ جات میں سکول جانے والے 3 سے 18سالہ 60فیصد بچے موبائل استعمال کرنے کے عادی ہوگئے ہے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ موبائیل فون استعمال کرنے والے بچوں میں سے 50فیصد کو عینک کی ضرورت پڑتی ہے جبکہ صرف 25فیصد بچوں کا ہی وزن معمول کے مطابق ہوتا ہے۔ کشمیر صوبے میں موبائیل فون کے بڑھتے استعمال میں اضافہ کے ساتھ ہی وادی میں اب بچوں میں اس کے مضر اثرات سامنے آنے لگے ہیں۔ گورنمنٹ میڈیکل کالج سرینگر کے محققین کی جانب سے سرینگر اور دیگر قصبہ جات کے بچوں پر کی گئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان میں سے 60فیصد سمارٹ فونوں کا استعمال کررہے ہیں۔ تحقیق کے دوران کشمیری بچوں میں وٹامن Bکی کمی سامنے آئی ہے جن میں چہروں کا رنگ پیلا پڑنا اور جلد خشک ہونا شامل ہے۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ صرف 25فیصد بچوں کا ہی وزن قابو میں ہے اور ان کی بی ایم آئی معمول کے مطابق ہے۔ تحقیق کرنے والے ایک گروپ کا کہنا ہے کہ بچوں کو چھوٹی عمر میں ہی آن لائن ہوم ورک دینے سے انکی آنکھیں بہت کمزور ہونے لگی ہیں اور کئی بچے اب موبائل فون پر متواتر طور نظر نہیں رکھ پارہے ہیں اور انکی آنکھوں میں سوزش اور دھندلا پن ہونے لگا ہے۔والدین کی جانب سے اس صورتحال کو انتہائی تباہ کن قرار دیا جارہا ہے۔کئی والدین نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ وادی کے سرکاری سکولوں میں زیر تعلیم بچوں کو موبائل فون استعمال نہ کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے اور ان سکولوں میں دن کے اوقات میں ہی ہوم ورک کیلئے بچوں کو تیار کیا جاتا ہے۔ لیکن اسکے برعکس ہر ایک پرائیویٹ سکول میں آن لائن ٹیوشن پڑھانے کی ایک دوڑ لگی ہے اور آج تک کوئی بھی سکول بچوں کی آنکھوں کو بچانے اور 2020اور 2021سے قبل کی پوزیشن اختیار کرنے کیلئے راضی نہیں ہے۔پرائیویٹ سکولوں کے منتظمین کی جانب سے بچوں سے صرف ہزاروں روپے کی فیس بٹورنے کا دھندہ کرنے پر وقت صرف کیا جاتا ہے لیکن بچوں کی بہتر نشوونما کیلئے آن لائن پڑھانے کی وباء کو ختم کرنے کی کوئی ذرا بھی بھی کوشش نہیں کی جاتی ہے جو کسی المیہ سے کم نہیں ہے۔