سرینگر//جموں میں70سال قبل ریاستی تاریخ کے بدترین قتل عام کی چبھن ابھی بھی لوگوں کے سینوں میں محسوس ہو رہی ہے اور انتہا پسند و جنونیوں کے مسلمانان ریاست کے خون سے ہاتھ رنگنے کے منظر کئی کے اذہان میں ابھی بھی نقش ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے سرکاری ریکارڈ کے مطابق،بحوالہ اجلاس نمبر 534، مارچ 6، 1951 : ’’تقسیم کے دوران بھارت میں خوفناک قتل عام کے بعد مہاراجہ نے اس طرح کی کارروائی کی‘‘۔10اکتوبر 1947کو لندن سے شائع ہونے والے ٹائمز آف لندن کے خصوصی نامہ نگار نے تحریر کیا ’’باقی شدہ ڈوگرہ علاقے میں، 2لاکھ37ہزار مسلمانوں کو منظم طریقے سے ڈوگرہ ریاست کی تمام افواج نے قتل کیا،اور یہ سلسلہ تب تک جاری رہا جب تک نہ وہ پاکستان فرار ہو گئے۔ہوریس الیگزینڈر کلنگ نے جنوری1948میں سپیکٹیٹر میں تحریر کیا ہے ’’اس قتل عام کوریاستی اتھارٹی کی خاموش رضامندی‘‘ تھی اور اموت کی تعداد2لاکھ قرار دی ہے۔ 10اگست ، 1948، کوٹائمز (لندن) کی طرف سے ’’خصوصی نامہ نگار‘‘ کی طرف سے رپورٹ مرتب کی گئی جس میں، ایک سول سروس کے اہلکار،کی رپورٹ شائع کی گئی،جس میں لکھا گیا کہ2لاکھ37ہزار مسلمانوں کو منظم طریقے سے ختم کیا گیا تھا ، جب تک کہ وہ سرحد کے ساتھ پاکستان فرار ہونے میں کامیاب نہیں ہوئے، مہاراجہ کی سربراہی والی ڈوگرہ ریاست کے تمام فورسز نے ہندوؤں اور سکھوں کی مدد سے انکا تعاقب کیا۔رپورٹ کے مطابق یہ سب کچھ اکتوبر1947میں پہلے قبائلی حملے سے5روز قبل اور مہاراجہ کی طرف سے الحاق کرنے سے9 روز پہلے ہوا۔ 1941 اور 1961 کے درمیان، جموں کے مسلمانوں کی آبادی 61 فیصد سے 38 فیصدہو کر رہ گئی۔ شیخ محمد عبداللہ نے لکھا’’ہر گاؤں اور شہرجہاں سے ’’ہری سنگھ‘‘ گزراآتش زنی، لوٹ مار اور مسلمانوں کے قتل کا ننگا ناچ کیا گیا ۔جموں صوبے میں مسلمانوں کا قتل عام ان کی ناک کے نیچے ہفتوں تک بلا روک ٹوک جاری رہا۔ ’’جموں میں مسلمان‘‘ نام کے ایک مضمون میں، ظفر چودھری لکھتے ہیں،’’خطے ،جس میں بمشکل ہی کوئی خاندان تھاجوبچ گیا۔1947میںنومبر5اور6 کو قریب 100گاڑیوں میں مسلمان خواتین اور بچوں کو بھرا گیا،اور انہیں کھٹوعہ کے جنگلاتی علاقے میں لیا گیا۔ہندو شدت پسندوں اور انتہا پسند گروپوں کے علاوہ ہتھیار بند غنڈوں نے دہشت مچائی اور قتل عام شروع کیا،جس کے دوران ہزاروں افراد کو موت کے گھاٹ اتارا گیا،خواتین کی عصمت ریزی کی گئی،اور انکے زیورات کو لوٹ لیا گیا۔تاریخ دانوں کے مطابق میراں صاحب اور رنبیر سنگھ پورہ میں خون ریزی کا ایک اور واقعہ پیش آیا جس دوران 25ہزار مسلمانوں کے ایک بڑے اجتماع میں، مشین گن سے گولیاں چلا کر انہیں قتل کیا گیا۔تاریخ دانوں کے مطابق 1947 میں پاکستان کی طرف ہجرت کے دوران، تقریبا3لاکھ افراد کومارا گیا۔لندن ٹائمز کے خصوصی نامہ نگار نے10اکتوبر1947کو لکھا ’’ مہاراجہ نے اپنی نگرانی میں2لاکھ37ہزار مسلمانوں کو جموں میں فوجی کارروائی کے دوران ہلاک کروایا۔ سٹیٹس مین کے ایڈیٹرایان اسٹیفن نے، اپنی کتاب ’’چاند کے سینگ ‘‘میں لکھا ہے کہ موسم خزاں میں 1947 کے آخر تک2لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو قتل کیا گیا۔مورخین کا کہنا ہے کہ1947میںجموں میں ہوئے قتل عام کی وجہ سے مسلم اکثریتی والے اضلاع،سکھ اور ہند اکثریتی والے علاقے بن گئے،اور مسلمان اقلیت میں تبدیل ہوئے۔جموں ضلع میں1941 میں4لاکھ28ہزار719کی آبادی میں مسلمانوں کی تعداد ایک لاکھ58ہزار630تھی،جو مجموعی آبادی کی37فیصد شرح تھی،تاہم1961میں جموں میں مسلمانوںکی آبادی صرف51ہزار693سمٹ کر رہ گئی،اور اس دوران کل آبادی کی تعداد5لاکھ16ہزار932تک پہنچ گئی۔ تاریخ دانوں کے مطابق جموں و کشمیر کے وزیر اعظم، مہر چند مہاجن جب جموں پہنچے،اور وہاں کے محل میں اس سے ملاقات کرنے والے ہندوؤں کے ایک وفد کو بتایا’’ اب جبکہ اقتدار عوام کو منتقل کیا جا رہا ہے،تو وہ برتری کا مطالبہ کریں، وفد میں شامل نیشنل کانفرنس سے وابستہ ایک شخص نے جب پوچھا کہ آبادی کے تناسب میں بہت زیادہ فرق نہیں، وہ کس طرح برابری کا مطالبہ کر سکتے ہیں ،رام نگر قدرتی ریزر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ،جہاں مسلمانوں کی کچھ لاشیں اب بھی بے گور وکفن تھی ، انہوں نے کہا کہ، ’’آبادی کا تناسب تبدیل بھی کر سکتے ہیں‘‘۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے سرکاری ریکارڈ کے مطابق،بحوالہ اجلاس نمبر 534، مارچ 6، 1951 : ’’تقسیم کے دوران بھارت میں خوفناک قتل عام کے بعد مہاراجہ نے اس طرح کی کارروائی کی۔10اکتوبر 1947کو لندن سے شائع ہونے والے ٹائمز آف لندن کے خصوصی نامہ نگار نے تحریر کیا ’’باقی شدہ ڈوگرہ علاقے میں، 2لاکھ37ہزار مسلمانوں کو منظم طریقے سے ڈوگرہ ریاست کی تمام افواج نے قتل کیا،اور یہ سلسلہ تب تک جاری رہا جب تک نہ وہ پاکستان فرار ہو گئے۔