عظمیٰ نیوز سروس
سرینگر/ / امریکہ کی جانب سے 27 اگست سے بھارتی برآمدات پر 50 فیصد ٹیرف عائد کرنے کے فیصلے نے وادی کشمیر کی ہنڈی کرافٹس صنعت کو سخت دھچکا پہنچایا ہے۔ یہ وہی صنعت ہے جو وادی میں چار لاکھ سے زیادہ دستکاروں کا روزگار سنبھالے ہوئے ہے۔ نیوز ایجنسی ٹی ای این کے مطابق نئے تجارتی اقدامات کے بعد امریکی منڈی کو برآمدات تقریباً ناممکن بن گئی ہیں، جس کے نتیجے میں تاجروں کے پاس تیار مال کے ڈھیر جمع ہو گئے ہیں اور روزگار میں کٹوتی شروع کر دی گئی ہے۔ اس صورتحال نے سینکڑوں خاندانوں کی روزی روٹی پر خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔پشمینہ کمبل، شالیں، کڑھائی والے فرنیچر کور اور قالین، جو روایتی طور پر امریکہ کو خزاں اور سردیوں کی فروخت کے لیے بھیجے جاتے تھے، اس وقت سب سے زیادہ متاثرہیں۔ برآمد کنندگان کا کہنا ہے کہ ٹیرف کے نفاذ کے بعد موجودہ سیزن کی کھیپ بھیجنا ممکن نہ رہا، جس سے پورا کاروباری چکر ضائع ہو گیا۔ چونکہ یہ مصنوعات زیادہ تر سردیوں میں فروخت ہوتی ہیں، اسلئے اس رکاوٹ نے نقصان کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔امریکی منڈی طویل عرصے سے کشمیری ہنڈی کرافٹس کی بڑی خریدار رہی ہے اور گزشتہ مالی سال 2023-24 میں جموں و کشمیر کی کل برآمدات کا تقریباً 30 فیصد (1116 کروڑ روپے) امریکہ کو گیا تھا۔ کئی برآمد کنندگان کے لیے امریکی آرڈر ہی ان کے سالانہ کاروبار کی بنیاد تھے۔ اب جب کہ وہاں سے آرڈرز رک گئے ہیں تو صنعت متبادل منڈیوں کی تلاش میں ہے، لیکن دنیا کی چند ہی منڈیاں ایسی ہیں جہاں ریشمی قالین اور ہاتھ سے کڑھے ہوئے شالوں جیسی مہنگی مصنوعات کی طلب ہو۔یہ بحران ایسے وقت آیا ہے جب ہنڈی کرافٹس شعبہ ابھی تک کووڈ19 کے اثرات سے پوری طرح باہر نہیں نکل پایا تھا۔ دہلی میں منعقدہ تجارتی نمائشوں میں گئے تاجروں نے بتایا کہ امریکی خریداروں کی دلچسپی بالکل ختم ہو چکی ہے، جس کی وجہ سے گوداموں میں مال جمع ہوتا جا رہا ہے۔ صنعت کاروں کا کہنا ہے کہ اگر یہ جمود برقرار رہا تو نہ صرف مزید روزگار ختم ہوں گے بلکہ کشمیری دستکاری کے اس ورثے کو بھی نقصان پہنچے گا جو صدیوں سے مشکلات کے باوجود زندہ ہے۔سرینگر سمیت مختلف مراکز میں تاجروں نے حالیہ مہینوں میں نئے آرڈروں میں نمایاں کمی کی شکایت کی ہے۔ قالین باف، پیپر مشے کاریگر اور زنجیری کڑھائی کے ماہرین سب سے زیادہ متاثر ہیں، اور اکثر ورکشاپ آدھی سے بھی کم صلاحیت پر چل رہی ہیں۔
اس سست روی نے صنعت کو فوری برآمدی مراعات کی مانگ پر مجبور کیا ہے۔ نمائندہ اداروں نے حکومت سے سود میں چھوٹ، جی ایس ٹی میں کمی اور خصوصی مالیاتی پیکج فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ صنعت اس جھٹکے کو سہہ سکے۔مغربی ممالک میں تہواروں کا سیزن قریب ہے لیکن صورتحال میں بہتری کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔ برآمد کنندگان کو خدشہ ہے کہ اگر متبادل منڈیاں تلاش نہ کی گئیں یا حکومت نے فوری مدد فراہم نہ کی تو یہ نقصان مستقل طور پر اس شعبے کو متاثر کر سکتا ہے، جو ایک طرف معیشت کا سہارا ہے اور دوسری طرف وادی کی ثقافتی پہچان بھی۔