عوامی اتحادپارٹی کواجازت نہ ملی
سرینگر//5اگست2019کوجموں کشمیرکاخصوصی درجہ ختم کئے جانے اورریاست کودومرکزی زیرانتظام علاقوں میں تقسیم کئے جانے کے چھ برس مکمل ہونے پرنیشنل کانفرنس اورکانگریس کے احتجاجی مارچ کوپولیس نے ناکام بنایاجبکہ عوامی اتحادپارٹی کوحکام نے احتجاج کی اجازت نہیں دی ۔ نیشنل کانفرنس کے اہتمام سے سرینگر اور جموں سمیت تمام ضلع صدر دفاتر پر 5اگست2019کے فیصلوں کیخلاف احتجاج کیا گیا۔ پولیس اور سیکورٹی فورسز کی بھاری جمعیت نے سرینگر میں نیشنل کانفرنس کی احتجاجی ریلی کو اُس وقت آگے جانے سے روکا جب مظاہرین لالچوک کی طرف پیش قدمی کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ پارٹی کے بیشتر لیڈران کو گھروں میں نظربندی رکھا گیا تھا اور انہیں پارٹی ہیڈکواٹر آکر اپنا احتجاج درج کرنے سے روکا گیا۔ایک بیان کے مطابق نیشنل کانفرنس کے صوبائی صدرکشمیر ایڈوکیٹ شوکت احمد میر کی قیادت میں نکالی گئی احتجاجی ریلی میں سینئر پارٹی لیڈران ، ممبرانِ اسمبلی ، عہدیداران اور کارکنان نے شرکت کی۔ احتجاجی ریلی میں شامل مظاہرین نے اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈ اُٹھا رکھے تھے، جن پر ’’جموں و کشمیر کی خصوصی پوزیشن کی بحالی‘‘، ’’جموں و کشمیر کے عوام کے آئینی اور جمہوری حقوق کی بحالی‘‘،’’دفعہ370اور 35اے کی بحالی‘‘ اور ’’ریاستی درجے کی بحالی‘‘ جیسے نعرے تحریر کئے گئے تھے۔ احتجاجی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے پارٹی لیڈران نے کہاکہ سپریم کورٹ نے 1959، 1968اور 2018میں 3بار دفعہ370اور 35اے کو ناقابل تنسیخ دفعات قرار دیا ہے اور کہاکہ ان دفعات نے آئین ہند میں اپنا مستقل مقام حاصل کر لیاہے۔ لیکن بدقسمتی سے بھاجپا نے پارلیمنٹ میں اپنی بے جا اکثریت کا غلط فائدہ اُٹھاتے ہوئے ان د فعات کو منسوخ کرکے جموں و کشمیر کو آئینی اور جمہوری حقوق سے محروم کردیا۔یہ فیصلے جموں و کشمیر کے لوگوں کے لئے ناقابل قبول ہیں۔ دفعہ 370 کی منسوخی کے چھ سال پورے ہونے پر جموں و کشمیر پردیش کانگریس کمیٹی کی جانب سے سرینگر میں پرامن احتجاج کی کوشش کو پولیس نے ناکام بنا دیا۔ پارٹی کارکنوں کو دفتر سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی گئی، جب کہ وادی کے دیگر اضلاع میں بھی کئی کانگریس رہنماوں کو گھروں میں نظر بند کیا گیا۔اس موقع پر کانگریس کے ریاستی صدر طارق حمید قرہ نے نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ آج جمہوریت کا گلا گھونٹ دیا گیا۔ ہمیں پرامن احتجاج کرنے کی اجازت نہیں دی گئی، حالانکہ جمہوریت میں ہر شہری کو اپنی آواز بلند کرنے کا حق حاصل ہے۔انہوں نے کہا کہ پارٹی نے اعلان کیا تھا کہ 5 اگست کو ریاست کے تمام 20 اضلاع میں خاموش احتجاجی مظاہرے کیے جائیں گے تاکہ حکومت کی توجہ جموں و کشمیر کے عوام کے آئینی اور جمہوری حقوق کی جانب مبذول کرائی جائے، لیکن اسے بھی روک دیا گیا۔طارق قرہ نے کہا کہ پانچ اگست 2019 جموں و کشمیر کی تاریخ کا ایک ایسا سیاہ دن ہے، جس نے یہاں کے ایک کروڑ چالیس لاکھ لوگوں کے آئینی اور جمہوری حقوق کو پامال کیا۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے صرف پرامن احتجاج کا ارادہ ظاہر کیا تھا، لیکن ہمیں اپنے آئینی حق سے بھی محروم کیا جا رہا ہے۔ یہ جمہوریت کا کھلا قتل ہے۔ ہم تمام ہندوستان کی سیول سوسائٹی، انسانی حقوق کی تنظیموں اور باشعور عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ جموں و کشمیر کے عوام پر ہونے والے ان مظالم کو دیکھیں اور ان کے حق میں آواز بلند کریں۔ایک بیان کے مطابق عوامی اتحادپارٹی نے اس دن کو’ سیاسی بے دخلی‘ کے طورمنانے کیلئے ایک احتجاجی مارچ کاپروگرام بنایاتھا،تاہم پارٹی کے سینئررہنمااورممبراسمبلی لنگیٹ شیخ خورشید کوحکام نے اس کی اجازت نہیں دی۔شیخ خورشید نے سوشل میڈیا پرایک پوسٹ میںکہا،’’ 5 اگست 2019 کے فیصلوں کے چھ سال مکمل ہونے کے موقع پر، مجھے انتظامیہ نے ناحق روک دیا،مجھے میری ناپسندیدگی کا اظہار کرنے کیلئے اپنی رہائش گاہ سے باہر جانے کی اجازت بھی نہیں دی گئی یہ حکمرانی نہیں ہے، یہ جبر کا معاملہ ہے۔پارٹی نے کہا کہ ان کاماننا ہے کہ عوام کی آواز کو خاموش نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی خاموش کیا جائے گا۔