سمت بھارگو
راجوری //راجوری کے تھنہ منڈی علاقے میں اْس وقت رقت آمیز مناظر دیکھنے کو ملے جب دو سگی بہنیں، جو گزشتہ 43 برس سے یہاں مقیم تھیں، پاکستان واپسی کے لئے روانہ ہونے لگیں۔ یہ وہ لمحہ تھا جس نے ہر دیکھنے والے کی آنکھوں کو نم کر دیا اور دلوں کو ہلا کر رکھ دیا۔یہ دونوں بہنیں، ضمیر فاطمہ (65) اور صغیر فاطمہ (60)، شاہدرہ شریف گاؤں میں اپنے شوہروں کے ساتھ پرسکون زندگی گزار رہی تھیں۔ ان کے شوہر آپس میں کزن بھائی ہیں۔ 1982 میں جب ان کے والد اور چچا پاکستان سے واپس آئے تو یہ دونوں بہنیں اور ان کی والدہ بھی ساتھ آئیں۔ اْس وقت پاکستان میں ان کے قریبی رشتہ دار ختم ہو چکے تھے۔ والدہ کے انتقال کے بعد دونوں بہنوں کی شادیاں یہاں ہو گئیں، اور انہوں نے یہاں اپنی نئی زندگی شروع کی۔اب 43 برس بعد، انہیں قانونی تقاضوں کے تحت واپس پاکستان بھیجا جا رہا ہے، جہاں نہ کوئی اپنوں کی شکل پہچانتا ہے، نہ کوئی آواز ان کا نام پکارتی ہے۔ بڑی بہن ضمیر فاطمہ کے دو بیٹے ہیں، جن میں سے ایک بیٹی کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے۔ چھوٹی بہن صغیر فاطمہ کے شوہر، بچے، اور رشتہ دار سب یہی چاہتے ہیں کہ انہیں جانے نہ دیا جائے۔اہلِ خانہ نے حکومت سے بھرپور اپیل کی ہے کہ ان دونوں خواتین کو پاکستان واپس نہ بھیجا جائے، کیونکہ وہاں ان کے لئے نہ سر چھپانے کی جگہ ہے، نہ کوئی سہارے والا۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر انہیں بھیج دیا گیا تو ان کی زندگی کا مقصد، سکون اور تحفظ سب ختم ہو جائے گا۔محلہ داروں، رشتہ داروں، اور مقامی لوگوں نے بھی ان کی حمایت میں آواز بلند کی ہے۔ سبھی کا ماننا ہے کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ان خواتین کو بھارت میں رہنے کی اجازت دی جائے، کیونکہ یہ ان کا اصل گھر، اصل خاندان اور اصل شناخت ہے۔یہ صرف دو بہنوں کی کہانی نہیں، بلکہ ایک ایسا المیہ ہے جو سرحدوں سے بالاتر ہے — جہاں انسانیت قانون سے سوال کر رہی ہے۔