سرینگر//40سال قبل شیخ محمد عبداللہ کے بنائے گئے بٹہ مالو بس اسٹینڈ کے آس پاس علاقے کی مرکزیت ختم کرنے کے پیچھے کئی سوالات نے جنم لیا ہے نہ صرف اس مرکز ی علاقے سے ہزاروں افراد کے چولہے جل رہے ہیں بلکہ سینکڑوں تعلیم یافتہ بے روزگاروں کیلئے روزگاربھی یہاں سے فراہم ہو رہا ہے لیکن متاثرین اور حکومت کے درمیان جاری رسہ کشی کی وجہ سے سینکڑوں گاڑی مالکان، دکاندار،مزدور اور چھاپڑی فروش سڑک پر آگئے ہیں ۔ایک ماہ سے بٹہ مالو بس اسٹینڈ بند پڑا ہے جس کے نتیجے میں 1200دکانیں مقفل ہیں اور 900بڑی گاڑیاں بیکار بیٹھی ہیں ۔سرکاری دستاویزات (جو کشمیر عظمیٰ کے پاس موجود ہیں )میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ سرینگر میونسپل کارپوریشن نے 2004میں بٹہ مالو برج مارکیٹ کے پیچھے 4منزلہ جو شاپنک کمپلکس تعمیر کیا تھا، وہ 13برسوں سے بند پڑا ہے حالانکہ108دکانداروں سے ڈیڑھ لاکھ روپے فی کس حاصل بھی کیا جا چکا ہے ،دوسری جانب بٹہ مالو بس اڈے میں سرینگر ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے 64دکانوں پر مشتمل جو وسیع العریض 2منزلہ عمارت تعمیر کی تھی وہ بھی مکمل طور پر دکانداروں کے حوالے نہیں کی گئی ہے ،حالانکہ دکانداروں سے 2011-12میں 15سے 17لاکھ روپے لئے گئے ہیں ۔بٹہ مالو میں جوائنٹ کارڈی نیشن کمیٹی سے وابستہ 51 بازارکمیٹیاں ہیں جن میں ٹرانسپورٹر ، ریڈہ فروش ، دکاندار ، چھاپڑی فروش اور ہول سیل ڈیلرشامل ہیں جن کی کل تعداد 8500ہے اور بس اسٹینڈ میں چھوٹی بڑی گاڑیوں کی تعداد 3190ہے۔کمیٹی کے جنرل سیکریٹری امتیاز احمد کا کہنا ہے کہ اگر حکومت دکانداروں اور گاڑی مالکان کیلئے پارمپورہ میں مطلوبہ انفراسٹریکچر بناتی ہے تو ایک دن میں کسی بھی عذر کے بغیر وہ پارمپورہ منتقل ہو جائیں گے ۔پچھلے ایک ماہ سے بس سٹینڈ میں موجود 900گاڑیاں اور 1200دکاندرار ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں ۔کیونکہ اڈے کے باہر ہر ایک راستہ پر بڑے بڑے کھڈ کھودے گئے ہیں تاکہ اڈے میں نہ کوئی گاڑی اندر جا سکے اور نہ ہی باہر آسکے اس طرح غیر شعوری طور پر بٹہ مالو کے دکانداروں اور ٹرانسپورٹروں کو دیوالیہ بنانے کی کوشش ہو رہی ہے،جن دکانداروں اور گاڑی مالکان کے ذمہ مختلف بنکوں کا قرضہ ہے۔ ہر گاڑی کا ہر روز کا نقصان 960 لگایا گیا ہے جبکہ ایک دکاندارکا نقصان یومیہ 1500 روپے ہو رہا ہے ۔ 2004میں سرینگر میونسپل کارپوریشن نے برج بازار بٹہ مالو میں بازار کمیٹیوں سے وابستہ دکانداروں کو مستقل طور پر جگہ فراہم کرنے کیلئے کروڑوں روپے کی چار منزلہ ایک شاپنگ کمپلیکس، جو 108کمروں پر مشتمل ہے، تعمیر کیا۔13برس گزر گئے لیکن دکانداروں کو مالکانہ حقوق نہیں دئے گئے ہیں ۔اس کی وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ فی کس ڈیڑھ لاکھ روپے حاصل کرنے کے بعد میونسپل کارپوریشن نے 108دکانداروں کے بدلے 600دکانداروں سے رقومات لیں ۔امتیاز احمد کے مطابق اس طویل عرصہ کے دوران دکانوں کی الاٹمنٹ میں سب سے بڑی اڑچن یہی ہے اور پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر 13برس قبل دکانداروں کیلئے بنائے گئے شاپنگ کمپلیکس میں انہیں مالکانہ حقوق نہیں دئے گئے ہیں تو پارمپورہ میں جو تعمیرات ابھی شروع ہی نہیں کی گئیں ہیں انہیں حاصل کرنے کیلئے کتنی عمر درکار ہو گی ۔اُن کا مزید کہنا تھا کہ پانچ برس قبل بس اڈے میں ایس ڈی اے نے 64دکان تعمیر کرائے لیکن فی کس 17لاکھ روپے لینے کے باوجود بھی ابھی تک دکانداروں کو الاٹمنٹ نہیں دی گئی ہے ۔کارڈی نیشن کمیٹی کے مطابق بس اڈے سے منسلک مارکیٹ اور ٹرانسپورٹروں کی 60فیصد آمدن کم ہو گئی ہے ۔سینکڑوں دکاندار ، جو تعلیم یافتہ بے روزگار ہیں اورجنہوں نے بینکوں سے قرضہ لیکر اپنا کاروبار شروع کیا تھا، دیوالیہ ہونے کے قریب ہیں ۔ کارڈی نیشن کمیٹی نے کہا ہے کہ معاملہ صرف بس اڈے کا نہیں بلکہ یہ سرینگر شہر کا سب سے بڑا بازار بھی ہے جہاں نہ صرف ٹرانسپورٹ شعبہ سے وابستہ سینکڑوں لوگ مزدوری کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں بلکہ قریب دس لاکھ لوگ اڈے اور اس کے آس پاس مزدوری اورکاروبار کرنے سے مستفید ہو رہے ہیں ۔تانگہ والے سے لیکر میکنک تک ، ہول سیل ڈیلر سے لیکر چھاپڑی فروش تک بٹہ مالو کا یہ علاقہ زندگی کا مرکز ہے ۔اگر ہزاروں لوگوں کو یہاں سے بے دخل کر کے اُن کی زندگیاں چھین لی جاتی ہیں تو پھر حکومتی اقدامات کی کون سی اہمیت رہتی ہے ۔ واضح رہے کہ جنرل بس سٹینڈ بٹہ مالو کا افتتاح آج سے 40برس قبل 1979میں شیخ محمد عبداللہ کے ہاتھوں ہوا تھا جبکہ اُس سے قبل غلام محمد بخشی کے دور میں اسکے ایک چھوٹے سے حصے سے شمالی کشمیر کیلئے گاڑیاں نکلتی تھیں۔ 1977میں جب شیخ محمد عبداللہ کی سرکار آئی تو انہوں نے بٹہ مالو میں خالی پڑی وسیع اراضی کو وادی کے مرکزی بس اسٹینڈ میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسکے بعد یہاں بہت بڑی تین منزلہ عمارت تعمیر کی گئی جس پر اب بھی افتتاحی کتبہ لگا ہوا ہے۔