سرینگر //سرینگر جموں شاہراہ پر واقع قصبہ پانیور زعفران کا زرخیر علاقہ مانا جاتا ہے ۔اورپوری دنیا میں کشمیر زعفران اگانے والے تین بہترین جگہوں میں شمار ہوتا ہے ۔پانپور اور لتہ پورہ کے درمیان اراضی پر زعفران اگانے کی تاریخ 2500سال پرانی ہے ۔لیکن حالیہ برسوں میں زعفران کی کاشت کیلئے نہ صرف زمین سکڑ رہی ہے بلکہ جن لوگوں کا ذریعہ معاش زعفران پر تھا وہ بھی پیداواری صلاحیت کم ہونے کی وجہ سے انتہائی پریشان کن صورتحال سے دوچارہیں ۔ محکمہ ایگریکلچر کا کہنا ہے کہ مرکزی حکومت کی امدادسے جاری زعفران قوی مشن اگلے سال مارچ میں اختتام پذیر ہورہا ہے ،تاہم وہ نشانے حاصل نہیں ہوئے ہیں جو حاصل کرنے تھے۔زعفران کی تین اقسام ہوتی ہیں، لچھا ، مونگرا اور زردا ۔کشمیر کے علاوہ پوری دنیا میں زعفران صرف ایران اور سپین میں پایا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس بات کی دلیل دی جاتی ہے کہ کشمیر میں زعفران اگانے کی روایت ایرانی حکمرانوں نے ہی معرض وجود میں لائی ہے ۔ زعفران کی پیداوار کا 70فیصد حصہ ایران سے آتاہے لیکن معیار میںکشمیری زعفران ایرانی زعفران سے بہت اعلیٰ درجہ کا مانا جاتا ہے۔ محکمہ اگریکلچر کے اعدادو شمار کے مطابق1996میں 5707ہیکٹر اراضی پر زعفران اگایا جاتا تھا لیکن 2009-10میں 3715ہیکٹر تک سکڑ کر رہ گئی ۔نہ صرف ان 15برسوں میں اراضی میں کمی آگئی بلکہ زعفران کی پیداواری صلاحیت بھی کم ہو گئی جو پہلے فی ہیکٹر میں 3.13کلو گرام تھی جو اب کم ہو کر 2.50کلو گرام ہی رہ گئی ہے۔کھریو ، پانپور اور چاڈورہ میں کل ایسے 36دیہات ہیں جہاں زعفران کے پھول اُگائے جاتے ہیں ۔اس وقت وادی کے ضلع پلوامہ، بڈگام اور سرینگر میں 3715ہیکٹر اراضی پر زعفران پایا جاتا ہے اور فی ہیکٹر زعفران کی پیداوار 4.5 کلو گرام تک پہنچ گئی ہے ۔جو پہلے 1.8کلو گرام تھی ۔1980میں 4466ہیکٹر پر زعفران کی اراضی پھیلی ہوئی تھی جہاں سے سالانہ 98کونٹل زعفران حاصل ہوتا تھا۔1995میں پانپور کے اس زرخیر علاقے سے زعفران کی اب تک کی ریکارڈ پیداوار ہوئی جو 136 کونٹل تھی ۔زعفران کی پیداوار ی صلاحیت بڑھانے کیلئے 2010-11میں سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے نیشنل قومی مشن کا ایک پروگرام تشکیل دیا جس کے تحت ریاست کو 375کروڑ کی رقم واگزار کی گئی جس کے تحت زعفران کی اراضی کو جدید سائنسی طریقوں پر تیار کر کے زعفران کے بیچ بونے سے لیکر اس کی بین الاقوامی مارکیٹ تک رسائی ممکن بنانے کا ہدف تھا ۔ماہرین کے مطابق زعفران کی پیداوار کشمیر میں اس وجہ سے کم ہوئی ہے کیونکہ جس موسم میں زعفران کی گنٹھیوں کو پانی کی ضرورت ہوتی ہے اُس موسم میں بارش نہیں پڑتی اس لئے ڈرپ اری گیشن اور سپرنکل اری گیشن سسٹم کو متعارف کرانے کا فیصلہ کیا گیا ۔زعفران مشن کے تحت صرف (Drip irrigation and sprinkle irrigation system )ہی نہیں بلکہ بیج کا بدلائو (new seeds) بھی اسی مشن کا حصہ تھا ۔اس کے علاوہ دسوپانیور میں spice park))کا قیام عمل میں لایا جانا تھا جہاں نہ صرف زعفران کی پیکنگ ہونی تھی بلکہ ریاست اور ملک سے باہر زعفران بھیجنے کا انتظام بھی کیا جاتا ۔ڈائریکٹر ایگریکلچر الطاف اندرابی نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ 2350ہیکٹر اراضی کو زعفران مشن کے تحت لایا گیا اور اسکے نتائج بھی سامنے آنے شروع ہوگئے ہیں ۔اُن کا کہنا تھا کہ زعفران مشن پہلے 3سال کا تھا ،پھر اُس میں 2برس کی توسیع کی گئی اور 2015میں ایک بار پھر 2سال کی توسیع دینے کا فیصلہ کیا گیا ۔انہوں نے کہا کہ مارچ 2018تک زعفران قومی مشن کی ڈیڈ لائن کی مقرر کی گئی ہے ۔انہوں نے کہا کہ سپائس پارک جو دسو پانپور میں بنائی گئی ہے وہ تقریباًً 90فیصد تیار ہے۔الطاف اندرابی کا کہنا تھا کہ ان سات برسوں میں محکمہ زراعت کے 2سو ملازمین کام پر لگے تھے اور مشن کے تحت قریب15000کسانوں کو فائدہ پہنچایا گیا ۔ ادھر ذرائع کا کہنا ہے کہ جدید ڈرپ اور سپرینکل اری گیشن سسٹم کو متعارف کرنے کا کام میکنیکل اری گیشن محکمہ کو سونپا گیا تھا ۔تاہم قبل از وقت رقومات واگذار کرنے کے باوجود میکنیکل اری گیشن محکمہ نے ابھی تک اُن ذمہ داریوں کو مکمل نہیں کیا ہے جو اُسے کرنی تھی ۔ ذرائع نے بتایا کہ مذکورہ محکمہ زعفران مشن کے حوالے سے انتہائی سست رفتاری سے کام کر رہا ہے ورنہ 7برسوں کے دوران یہ کام مکمل کیا گیا ہوتا۔