نریندر مودی کا بھارت کے وزیر اعظم بننے سے قبل جموں و کشمیر کا ہر باشعورباشندہ نئے بھارتی وزیراعظم کا کشمیر کے تئیں کھلے عام سخت لہجہ اختیار کرنے کے خدشات کا اظہار کررہاتھالیکن ملکی قیادت کی زما مِ کار ہاتھ میں لے کر نریندر مو دی کی طرف سے ا یسا دیکھنے کونہیں ملا بلکہ لو گوں کی توقعات کے برعکس بھارتی وزیر اعظم نے اس باب میں ایک معنی خیزخا موشی اختیار کرلی۔ بھارتی وزیر اعظم کی روشِ عدم گفتارکے علی الرغم ریاست میں قائم مخلوط سرکار میں شامل بھاجپا لیڈروں اور وزراء کی طرف سے مختلف مو اقع پر کئی ایسے تیکھے بیانات سامنے آئے جن میں انہوں نے واشگاف الفاظ میں خلاصہ کیا کہ ان کی حکو مت بھارتی آئین کی دفعہ370 کوحذف کر نے کی نہ صرف وعدہ بند ہے بلکہ اسے ریاست سے مکمل طور حرف ِ غلط کی طرح مٹانے کے عمل میں مصروف ہے۔ وقتاً فوقتاً کشمیری لیڈروں اور وزراء کی طرف سے بظاہر تنقید اور سرزنش کے بعد صوبہ جموں سے تعلق رکھنے والے ان منہ پھٹ بھا جپا لیڈروں کو مصلحتاً چپ ہی سادھ لینا پڑی لیکن جوں ہی مرکزی حکو مت کو ریاستی حکومت کے تائید و تعاون سے ریاست میں مصنو عات و خدمات ٹیکس (GST) کو نافذ العمل کروا نے میں کامیابی حا صل ہو ئی تو ریاستی اور ملکی بھا جپا لیڈر شپ اور اس کی ہم خیال فرقہ پرست قوتوں کو کشمیر کے حوالے سے حو صلوں کو مہمیز لگ گئی اور وہ اپنے ایجنڈے کو ریاست پر تھوپنے میں جری ہوتے جارہے ہیں ۔ نتیجتاً سنگھ پریوار کے چند گماشتوں نے ریاست جموںو کشمیر کو حا صل خصوصی آئینی پوزیشن پر کاری ضرب لگا نے کے لئے بھارتی سپریم کورٹ کی جانب رجو ع کیاتاکہ کشمیر کی خصوصی پوزیشن کو تحلیل کر نے کا جومشن سیاسی محاذ پر عملانا غیر ممکن ہے ،ا سے عدلیہ کے ذریعے جوں توں پایہ ٔ تکمیل پہنچایا جائے ۔ اس سلسلے میں آر ایس ایس سے منسلک ذیلی سنگھٹن نے عدالت عظمیٰ میں بھارتی آئین میں جمو ں و کشمیر کو حا صل خصوصی درجہ کو ختم کر کے اسے بھارت کی دیگر ریاستوں کے درجہ پر لا نے کی ایک عرضی پیش کی گئی ہے ۔ بہر کیف ان اس سطور میں دفعہ370 سے متعلق چند بنیادی حقائق و کوائف کو نما یاں کر نے کی سعی کی گئی ہے تاکہ عوام الناس کو بھارتی آئین کی اس دفعہ کی تفہیم میں آسانی ہو اور بین السطور یہ بھی واضح ہو کہ سنگھ پریوار اس دفعہ کے پیچھے کس بدنیتی کے ساتھ پڑی ہے ۔
دفعہ370 کیوں؟
اس سے قبل کہ ہم دفعہ370 سے متعلق اجمالی جا نکاری حا صل کریں، ہمیںاس بات سے بخو بی واقف ہو نا چا ہیے کہ آخر ش دفعہ370؍کو کیونکربڑی مہارت کے ساتھ بھارتی آئین میں شامل کیا گیا ۔ حالانکہ مہا راجہ ہری سنگھ نے اپنے کسی بھی ممبر کو بھارتی دستور ساز اسمبلی میں شرکت کے لئے نا مز د نہیں کیا تھا۔ مہاراجہ نے بھارت کے ساتھ اپنے مشروط ومحدود دستاویز ِالحاق میں اس بات کو واضح کیا تھا کہ:’’ دستاویز میںدرج کو ئی بھی چیز اس پر متصور نہیں ہوگی کہ میں کسی بھی مستقبل کے بھارتی آئین کو تسلیم کر نے کا وعدہ بند ہوں گا یا میری مرضی اس چیز کی پابند ہو گی کہ میں مستقبل کے کسی بھارتی آئین کے تحت حکو مت ہند کے ساتھ کسی معاہدے میں شامل ہو جاؤں۔ ۔‘‘ (شق نمبر 7)۔
مہاراجہ کی طرف سے بھارتی دستور ساز اسمبلی کے لئے کسی ممبر کو نا مزد کر نے سے صاف انکار اور ساتھ ہی غیر مبہم الفاظ میں اس بات کا اظہار کہ دستاویز الحاق ریاست جمو ں و کشمیر کوبھارتی آئین کے دائرے میں لانے کے لئے کوئی اجازت نامہ کی حیثیت نہیں رکھتا ،ا س سے حکو مت ہندکو جموں و کشمیر کے لئے قانون سازی اور آئین مرتب کرنے کے اختیارات حاصل ہو نے کی راہ میں اڑچنیںپیدا ہو ئی تھیں اور حکو مت ہند آئینی اور قانو نی اعتبار سے جموں و کشمیر کو نہ ہی بھارتی آئین کے دائرے میں لانے اور نہ ہی ا س کے لئے قانو ن سازی کر نے کی پو زیشن میں تھی۔ مہاراجہ کی جانشین نیشنل کا نفرنس ،جسے اقتدار حا صل کرنے کا نشہ اور دہلی کی طرف فطری میلان کا جادو سر چڑ ھ کر بول رہا تھا، نے شیخ عبداللہ ، مو لانا مسعودی، مرزا محمد افضل بیگ اور موتی رام بیگرا کو نتائج کی کوئی پرواہ کئے بغیر بلا جھجک بھارتی دستور ساز اسمبلی کے لئے از خود نا مزد کر دیا۔ نیشنل کا نفرنس نے جو ں ہی بھارتی دستور ساز اسمبلی کے لئے ر یاست کی طرف سے مذکورہ ممبروں کی نامزدگی کاا قدام کیا تو مہاراجہ کی جانب سے ریاست کا بھارت کے ساتھ رشتہ پر قائم کیا گیا موقف از خود کمزور ہو کر رہا ۔ حکومت ہند نے نیشنل کانفرنس کے بھارتی دستور ساز اسمبلی کے لئے اپنے ممبروں کی نامزدگی کے اقدام کو جموں و کشمیر میں بھارتی آئین کے لئے ریاست کی طرف سے رضا مندی متباور کر لیاا ور اس کے لئے حکو مت ہند کو ایک ضمانتی آلہ مطلوب تھا جو اس نے بڑی مہارت اور فن کاری کے ساتھ کی دفعہ370کی صورت میں اپنے دفاع میں مہیا کر دیا۔ بھارت کے ماہر قانون و آئین سری این گو پالا سوامی آئینگر نے بھارتی دستور ساز اسمبلی میں مسودہ آئین بل پیش کر نے کے موقعہ پر مسودہ کے دفعہ306A (جو اب بھارتی آئین میں دفعہ 370کے نام سے مو سوم ہے )کو متعارف کر تے ہوئے مذکورہ دفعہ کو آئین میں شامل کر نے کی وجوہ و دلائل کو تفصیلاً بیان کرتے ہو ئے کہا کہ جموں و کشمیر کے حالات چونکہ منفرد اور خصوصیت کے حا مل ہیں ، اس لئے صورت حا ل کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے ساتھ خصوصی سلو ک روا رکھا جائے۔ سری این گو پالا سوامی آئینگر نے جن خصوصی حالات کا تذکرہ کیا ہے وہ کچھ اس طرح سے تھے۔
1۔ یہ کہ وہاں ریاست جمو ں و کشمیر کے حدود کے اندر جنگ جاری تھی۔
2۔ یہ کہ وہاں اس سال کے آغا ز میں جنگ بندی کا معاہدہ طے ہوا ہے اور وہ جنگ بندی ہنوز جاری ہے۔
3۔ یہ کہ ریاست جمو ں وکشمیر کے حا لات ہنوز غیر یقینی اور ناگفتہ بنے ہوئے ہیں جنہیں معمول پر آنا ابھی تشنہ ٔ تکمیل ہے۔
4۔ یہ کہ ریاست کا کچھ علاقہ ہنوز دشمنوں اور با غیوں کے کنٹرول میں ہے۔
5۔ یہ کہ ہمارا ملک جموں و کشمیر کے تنازعہ کے حو الہ سے اقوام متحدہ کے ساتھ ُ ُالجھا ہوا ہے اور یہ کہنا ممکن نہیں ہے کہ ہم اس اُلجھاؤ سے کب اور کس وقت آزاد ہو جائیں گے۔
6۔ یہ کہ حکو مت ہند ریاست جموں و کشمیر کے لو گوں کے ساتھ کئی ایک لحاظ سے وعدہ بند ہے جن میں ایک یہ وعدہ بھی شامل ہے کہ ہم وہاں کے لوگوں کو یہ ضمانت دے چکے ہیں کہ انہیں استصواب رائے کا موقع فراہم کیا جائے گا، جس کے ذریعے وہ اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ آیا وہ بھارت کے ساتھ ہی رہیں گے یا اس سے علحٰیدگی اختیار کریں گے۔
7۔ یہ کہ دستاویز دستور ساز اسمبلی کے ذریعے سے اظہار کی گئی لو گوں کی خواہش کے مطابق ریاست کا آئین مرتب ہو گا اور اس کے ساتھ ساتھ لو گوں کی خو اہش کے مطابق ہی ریاست پر مرکزی سرکارکے دایرۂ اختیارکا تعین ہو گا ۔بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلہ میں( کیس سمپت پرکاش بمقابل ریاست جمو ں وکشمیر ، 10اکتوبر1968،1970) میں یہ بات واضح کی ہے کہ یہ شرائط اور حیثیت ہنوز جوں کی توں مو جود اور جاری ہیں۔
سری این گو پالا سوامی آئینگر کی بیان کردہ دفعہ ۳۷۰ کے پس منظر اور پیش منظر ، صورت حا ل و شرائط اور بعد میں سپریم کورٹ کی تائید میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہو ئی ہے بلکہ چند واقعات کے وقوع پذیر ہونے سے ان کے اندر مزید اضافہ واقع ہوا ہے جن میں یہ نکات قابل ذکر ہیں :
۱۔ بھارت شملہ سمجھوتہ اور لا ہور اعلامیہ طے کر کے پاکستان کے ساتھ مسئلہ کشمیر کا حل دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے سے ڈھونڈ نکالنے کا وعدہ بند ہے۔
۲۔ چین نے ریاست جموں و کشمیر کے ایک بڑے علاقہ کو اپنے کنٹرول میں لیا ہوا ہے۔
۳۔ ریاست میں 1990ء سے عسکری تحریک چل پڑی ہے جو ابھی تک جاری ہے۔
دفعہ370 عارضی عبوری کیوں ؟
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ دفعہ370 کوبھارتی آئین کے عارضی دفعات میں شامل رکھا گیا تھا ۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کو بھارتی یونین میں شامل ہو نے کے قریب خیال کیا گیا تھا بلکہ وجہ یہ ہے کہ جموں وکشمیر اقوام متحدہ کے ایجنڈا میں مو جود ہے اور تصفیہ طلب مسائل کی فہرست میں شامل ہے اور بھارت کو جموں وکشمیر کے صرف ایک خطہ پر کنٹرول حا صل تھا۔ مسئلہ کی پوزیشن میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور جموں و کشمیر کا حتمی فیصلہ ابھی ہو نا باقی ہے اور بھارتی آئین اپنے دفعہ 253کے ذریعے سے اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہے۔ بھارتی آئین کی دفعہ253 بین الاقوامی معاہدوں کے اطلاق کے لئے قانون سازی کے حوالہ سے تمام اختیارات مرکز اور ریاستوں کے مابین قانون سازی کی تقسیم کی کسی قید کے بغیر مرکزی حکو مت کوبہم پہنچا تی ہے۔ مرکزی حکو مت کو یہ اختیار حا صل ہے کہ وہ ان معاملات پر قانون سازی کر سکتی ہے جو بصورت دیگر ریاستی فہرست میں شامل ہوں لیکن جمو ں وکشمیر کے حو الہ سے دفعہ253؍واضح کرتی ہے کہ’’ (جموں و کشمیر کے آئین کے اطلاق)1954حکم نا مہ ، آئین کے آغاز سے ، حکومت ہندکوئی بھی فیصلہ لینے کی مجاز نہیں ہو گی جس سے ریاست جموں وکشمیر کو حا صل خصوصی پوزیشن متاثر ہوتی ہو، الایہ کہ اسے ریاستی حکو مت کی( بوساطت اسمبلی) رضامندی حاصل ہو۔اس دفعہ کے ذریعے سے بھارتی آئین یہ تسلیم کر تا ہے کہ :
1۔ ریاست جمو ں وکشمیر کا حتمی فیصلہ ہو نا ہنوز با قی ہے
2 ۔ یہ فیصلہ بین الاقوامی معاہدے کے ذریعے سے برآمد ہو سکتا ہے
3۔ اگر اس حو الہ سے ایسا کو ئی بین الاقوامی معاہدہ طے پاتا ہے تو اس صورت میں حکو مت ہند کے لئے لازمی ہے کہ ریاستی حکو مت کی رضا مندی حا صل کرے۔
چونکہ مسئلہ کشمیر ابھی تک حل طلب ہے، اس لئے دفعہ370؍مسلسل بھارتی آئین میں ایک عارضی دفعہ کی حیثیت رکھتا ہے اور جموں وکشمیر کے حتمی فیصلہ تک اس کی یہ عارضی حیثیت بدستور جاری رہے گی۔ حکومت ہند کا بھارتی آئین کی دفعہ253 سے فرار ممکن نہیں ہے کیو نکہ ریاست جموں وکشمیر کے کل رقبہ کا ساٹھ فیصد علاقہ اس کے کنٹرول سے باہر پاکستان اور چین کے پاس مو جو د ہے۔دفعہ253 ؍سے بھارت کے فرار کا مطلب یہ ہو گا کہ پاکستان اور چین کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے علاقہ سے بھارت دستبرداری کا اعلان کر رہا ہے ۔ بھارتی آئین کی دفعہ370؍سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ جموں و کشمیر کا بھارتی یونین کے ساتھ رشتہ کا انتظام آئین کی دفعہ 238 ؍کے تحت نہیں آسکتا ہے۔ دفعہ 238 ؍بھارتی یونین کی پارٹ بی ریاستوں سے متعلق ہے یعنی ان راجواڑوں سے متعلق جو بھارت کے ساتھ مدغم ہو چکی ہیں۔ اب چو نکہ یہ راجواڑے بھارتی یو نین میں ضم ہو چکے ہیں اور اس طرح سے دفعہ238؍اب منسوخ ہو کر رہ گیا ہے۔ جموں و کشمیر کا اس کے حد اختیار سے باہر رکھنا اس بر ملا حقیقت کی نشاندہی کر تا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کی حیثیت ملک کی دیگر راجواڑوں سے مکمل طور مختلف المعنی ہے۔ دفعہ 370؍سے یہ امر بھی واضح ہو جاتا ہے کہ مرکز کا ریاست کے لئے قانون سازی کا اختیار صرف ان معاملات تک محدود رہے گا جن کی نشاندہی ’’دستاویز الحاق‘‘ میں درج ہے ا ور ان معاملات میں جن کی پیشگی ریاستی حکومت سے ( بوساطت اسمبلی ) رضامندی حا صل کی گئی ہو ۔آئینی حکم نا موں کا وجوب ریاستی قانو ن سازی اسمبلی کی تائید پر منحصر ہو گا، جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بھارتی صدر کے آئینی حکم نا مہ کی اجرائی کے لئے پیشگی ریاستی دستور ساز اسمبلی کی رضامندی حا صل کر نا ہو گی۔ ریاست کی دستور ساز اسمبلی کا وجود 26؍جنوری1957ء کے بعد اب با قی نہیں رہا ہے۔26؍جنوری1957ء کے بعد جو بھی آئینی حکم نا مے صادر کئے جا چکے ہیں ، ان کے لئے لازماً ریاستی اسمبلی سے توثیق حا صل کی گئی ہے۔ اگرچہ بھارتی سپریم کورٹ نے سمپت پرکاش اور محمد مقبول دامنوبمقابل ریاست جموں و کشمیر ،1972ء،کیس میں ان آئینی حکم نا موں کو حق بجا نب قرار دے دیا ہے لیکن پھر بھی ان آئینی حکم نا موں کی قانونی جو ازیت پر کئی طرح کے سوالات جواب طلب ہیں۔آئینی حکم ناموں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے اس زما نے میں صادر کئے گئے ہیں جب ابھی بھارتی آئین کے بنیادی خاکہ کے طرز پر کوئی اتفاق رائے سامنے نہیں آیا تھا۔
اگر نیشنل کانفرنس اپنے اٹو نو می کے مطا لبہ پر سنجیدہ اور یکسو ہو تی تو وہ ریاستی اسمبلی اور قانون سازیہ میں پاس کی گئی اٹونومی قراردادکو حکومت ہند کو روانہ کرنے کے بجا ئے 1957سے لے کر 1967ء تک بھارتی صدر کی طرف سے صادر کئے گئے حکم نا موں کی آئینی جوازیت کو بجا طور چلینج کر تی لیکن نیشنل کا نفرنس کی طرف سے اس حوالے سے سوچی سمجھی عدم دلچسپی کا مظا ہرہ روز اول سے دیکھاگیاہے اور مستقبل میں بھی اس پارٹی سے ایسا کچھ کر گزرنے کی توقع نہیں کی جا رہی ہے۔
(انگر یزی سے ترجمہ)
رابطہ : شعبہ ٔ قانون، سنٹرل یونیورسٹی کشمیر