کچھ دنوں سے ٹی وی پر بہت فخر سے خبریں دی جا رہی ہیں کہ امرتسر کے improvemrnt trustکی طرف سے واگہہ بارڈر کے نزدیک360 فٹ لمبا ترنگا پرچم لگایا گیاہے۔ اس پر تین کروڑ پچاس ہزار کا خرچہ آیا اور اس کی روزانہ دیکھ بھال پر بھی لاکھوں کا خرچہ آ رہا ہے کیونکہ 24گھنٹے اس کی ہتھیاربند حفاظت کی جائے گی۔بتایا جاتا ہے کہ یہ بھارت میں سب سے بلند وبالا قومی پرچم ہوگالیکن میرے حساب سے شاید یہ دنیا کا ہی سب سے اونچا جھنڈا ہو کیونکہ ہم نے اب تک امریکہ، روس، جاپان اور یورپ جیسے امیر ملکوں میں اس طرح کے بلند پرچموں کے بارے میں نہیں سنا ہے۔شاید اُن ملکوں کے پاس اس کی ضرورت محسو نہیں کی جاتی یا اتنا پیسہ نہیں یا ان کے اندر ہمارے جتنا دیش بھگتی کا جذبہ نہیں ہے۔اس سے پہلے اسی طرح کے بلند پرچم دلّی کے کناٹ پلیس اور سرینگر کے ہوائی اڈّے پر لگائے گئے لیکن سب سے لمبا پرچم جھارکھنڈ کی راجدھانی رانچی میں 300 فٹ کی اونچائی پر تھا۔ اب اُس کا ریکارڈ توڑ کر پنجاب سرکار نے امرتسر میں 360 فٹ کا پرچم لہرایا۔چنڈی گڑھ کی بھاجپا ایم پی اُدھر بھی ایسا ہی پرچم لگانے کا ارادہ ظاہر کر رہی ہیں۔ وہ کتنا بلند وبالا ہوگا پتہ نہیں لیکن اگر ایسا ہی پرچموں کے نام پر مقابلہ آرائی چلتی ر ہی تو نہیں کہاجا سکتا کہ اس سلسلے کا اختتام کیا ہوگا۔
جب میں نے اخبار میں پڑھا کہ یہ کام improvement trust نے کیا تو لگتا تھا کہ اس کے ہاتھ سے شہر کی improvement کے باقی سب کام مکمل ہو گئے ہوںگے اور جو پیسہ ان مدات سے بچ گیا وہ اس پرچم پر لگا دیا، لیکن سچ میں ایسا نہیں ہے۔شہر کا بس اڈہ سارا سال کیچڑ سے بھرا رہتا ہے، شہر میں جگہ جگہ نالیاں ٹوٹی پڑی ہیں اور ان کا گنداپانی گلیوں بازاروں میں جمع ہوتا رہتا ہے،اسکولوں اور ہسپتالوں کے فرش کٹے پھٹے ہیں۔ غرض ایسے بہت سے کام ہیںجو فنڈ کی کمی کی وجہ سے پورے نہیں کئے جا رہے۔ اس تلخ تصویر کو سامنے رکھ کر سوال اٹھتا ہے کہ یہ کام کر نے کی بجائے پھرساڑھے تین کروڑ کی خطیر رقم لگا کر قومی پرچم لگانے کی آخر کیا ضرورت تھی؟ جواب یہ ملتا ہے کہ اس سے لوگوں کے اندر دیش بھگتی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ سوال پھر ذہن میں کلبلاتا ہے تو کیا 10یا2 1فٹ لمبائی والے قومی جھنڈے سے ایسا جذبہ نہیں پیدا ہو سکتا؟نیز اگر بالفرض اس فلک بوس پرچم سے بھی یہ ضروری جذبہ پیدا نہ ہوا تو کیا اس کی لمبائی کیا اور بڑھائی جائے گی؟
ایک سوال یہ بھی بنتا ہے کہ پرچم کا پروجیکٹ بنانے والو ں کے لئے دیش بھگتی کا پیمانہ کیا ہے ؟ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ اس پرچم کو دیکھ کر لوگ سبھی دیش واسیوں کو مذہب، رنگ نسل ،زبان ، خیال، ذات، رُتبہ اور افکار کے فرق بھلا کربرابر ی کا درجہ دیںگے؟کیا لوگ آزادی ٔ فکر و خیال کا احترام کریںگے؟ کیا عوام اور حکام فرقہ پرستی سے توبہ کریںگے؟ کیا وہ رشوت خوری ، منافع خوری، دھوکہ دہی سے باز رہیںگے؟کیا وہ اپنے مخالف فکر وفلسفے کا وجود بر داشت کریںگے؟ نہیں ، نہیں، قطعی نہیں۔ان کے لئے حسب دستور دیش بھگتی کا جذبہ اس بات تک محدود رہے گاکہ اُدھر واگہہ بارڈر کے دردیوار دو ہمسایہ ملک کی بیہودہ نعرہ بازیوں سے ہلتے رہیں،ادھر جو دیش واسی ’’بھارت ماتا کی جے‘‘ کا بے مطلب نعرہ لگانے سے بوجوہ انکار کریں، گائے کا پیشاب پینے سے پر ہیز کریں اور آزادیِ ضمیر و خیال کی بات کرے، ان کو دیش چھوڑ کر پار چلے جانے کا الٹی میٹم دیا جائے۔ حد یہ کہ اگر کوئی دوسرے ملک یاہمسایہ ملک کے ساتھ دوستی کی وکالت کرے اور جنگ کی بجائے امن اور دوستی کی بات کرے، اس کو دیش کا غدار جتلایاجائے۔اگر کوئی جسمانی طور ناخیزبندہ فلم کے بعدقومی ترانے کے وقت اُٹھ کھڑا نہ ہو سکے تو اس کی مار پٹائی کر دی جائے۔ان ساون کے ا ندھوں کی دیش بھگتی انہی چیزوں تک محدود ہے۔
اس سے بڑ ھ کر ان کے لئے دیش بھگتی کے معنی یہ ہو سکتے ہیں کہ اگر کوئی نئی فلم لوگوں کے درمیان محبت کا پیغام دیتی ہو، عقل و انصاف کی بات کرتی ہو ، عورتوں کے حقوق کی بات کرتی ہو وغیرہ وغیرہ تو دیش بھگتی کے دیوانے اس فلم کے پوسٹر پھاڑنے اور سنیما گھروں کی توڑ پھوڑ کرکے اپنی حب الوطنی کی دھاک بٹھا دیتے ہیں ۔ ملک کے سرکاری سینسر بورڈ کی منظوری یا اجازت کا ان پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔جو تہوار ان کو پسند نہیں اس کو منانے والوں پرحملہ کرنا ،مار دھاڑ کرنا، ان کے رنگ میں بھنگ ڈالناان کی دیش بھگتی کا معیار ہے،گویا ان کی نام نہاد دیش بھگتی کو لوگوں کے چنے ہوئے نمایندوں کی طرف سے بنائے گئے قوانین کا احترام بھی نہیں ہے۔
کہتے ہیں کہ واگہہ بارڈر کا لمبا پرچم ہریانہ کے وزیر صحت نے ابھی دیکھا بھی نہیں تھا کہ اُن میں دیش بھگتی کا جذبہ اتنا امڈ آیا کہ اس نے دلی یونیورسٹی کی معصوم طالبہ گرمہر کور کے حق بات کی حمایت کرنے والوں کو دیش کے باہر پھینکنے کا فتویٰ سنا دیا ۔پتہ نہیں کہاں پھینکیںگے وزیر صاحب ان لوگوں کو؟ سمندر میں یا کھائی میں؟اس بات کا پتہ بھی وزیر صاحب کو ہی ہوگا کہ ملک میں جلاوطنی کا کوئی قانون بھی ہے یا نہیں؟ ذرا ان سے پوچھئے آخر کیا غلط کہا ہے گرمہر کور نے؟ اُس نے صرف جنگ کی مذمت کر کے کہا کہ میرے پتا کو کرگل میں پاکستان نے نہیں جنگ نے مارا ۔ ساری دنیا جنگ وجدل کی مذمت کر رہی ہے لیکن کر سی کا نشہ دیکھئے کہ کچھ لوگ جنگ بھگتی کو ہی دیش بھگتی مان رہے ہیں۔پتہ چلا ہے کہ پاکستان نے سرحد کے اتنے نزدیک اور اتنا اُونچا جھنڈا لہرانےپر اپنا اعتراض یہ کہہ کر درج کیا کہ ممکن ہے اس پر کیمرے نصب ہو ں جن سے ہمارے ملک کی جاسوسی ہو سکتی ہے۔ بھارتی افسروں نے اس اعتراض کو درکنار کیا۔کچھ بھی ہو سرحد کے نزدیک اتنا اونچا پرچم لگا نے سے خواہ مخواہ شکوک وشبہات پیدا کر دئے گئے ہیں ۔ ہم نے یہ بے تکی بات بھی سنی کہ اس پروجیکٹ کو انجام دینے والوں کا خیال ہے کہ چونکہ ترنگا پاکستان کے علاقے سے کافی دور سے نظر آتا ہے اس لئے اسے دیکھ کر پاکستانیوں کے دل دہل جائیںگے۔ دل دہلنے کا تو پتہ نہیں لیکن اگر ضد میں پاکستان نے اپنی طرف 400فٹ بلندسبز ہلالی پرچم لہرایا تو کیا ہم اپنے جھنڈے کو 460فٹ اونچاکر دیںگے؟ ایسا مقابلہ کہاں تک چلتا جائے ، قیاس لگانا بھی مشکل ہے۔ سنجیدگی اور سمجھ داری سے دیکھا جائے تو یہ قومی پرچم کا کوئی احترام نہیں بلکہ اس کا مذاق بنانے کے مترادف ہے۔قومی پرچم کے احترام ومحبت میں اور بھی بہت کچھ کیا جاسکتا جو نہیں کیا جا رہا۔ بہرحال اپنے قومی پرچم کی محبت میں سب سے پہلے غیر سرکاری جلسوں، احتجاجی مظاہروں اور مارچوں میں پیارے پیارے پرچم کے استحصال کو بند کیا جانا چاہیے۔ کہیں کہیں قومی پرچم ہاتھ میں لے کر قانون توڑے جاتے ہیں اور ہنسا اور تشدد کا تانڈو ناچ کیا جا رہا ہے۔ پچھلے سال ہریانہ میں احتجاجی مظاہرین نے جی ٹی روڈ پر جب ڈھابے جلائے اور جبر ی زنا کئے تو ان کے ہاتھوں میںبھی قومی پرچم ہی تھے۔ یہ ساری بے ہودہ حرکات بند ہونی چاہیے۔15؍اگست اور 26؍جنوری کو ملک کے ہر چوک چوراہے میں ترنگا جھنڈا نہیں لہرایا جاتا اور نہ ہی لہرانے کی ضرورت ہے۔ہمارے کچھ نام نہاد دیش بھگت ایسے بھی ہیں جن کو سارے دیش میں اور کوئی چوک نظر نہیں آتا صرف کشمیر کی گرمائی راجدھانی سرینگر کے لال چوک کی ٹینشن سر چڑھ کربولتی ہے۔ وہ اپنے ووٹ بنک کو رجھانے کے لئے ہاتھوں میں ترنگا لے کر کولکاتہ کی گرمی سے سرینگر کی برفیلی سردی کی طرف مارچ کرتے ہیں، ہر احتجاجی کے پاس ترنگا ہوتا ہے اورلوگوں نے یہ بھی دیکھا کہ کس طرح ریلوے سٹیشنوں کے فرش پر یہ پرچم رُلتے جاتے ہیں اور پھر جموں کشمیر کے بارڈر پر جب امن عامہ کے مفاد میںپولیس ان ’’دیش بھگتوں ‘‘ کو بسوں سے اُتارتی ، تو پرچموں کے پھٹے ٹکڑے زمین پر بکھرے پائے جاتے جسے ٹی وی چنلوں نے دکھاکر’’ احترام ِ پرچم‘‘ کی نقاب کشائیاں کیں۔ یہ ترنگے کا احترام نہیں بلکہ اس کی بے حرمتی نہیں۔اصل دیش بھگتی اس طرح کے تماشوں میں پنہاں نہیں، نہ ہی یہ غصے، نفرت اور فرقہ پرستی کے خون آشام ڈراموں میں مضمر ہے۔ دیش بھگتی کے معنی صرف اس کی علامتوں، اس کے پرچم اور قومی ترانوں کا احترام نہیں،ملک وقوم کے باشندوں کا احترام بھی ہے، ان کے ساتھ بے حساب محبت بھی ہے۔ میرے نزدیک قومی پرچموں کی بلندی اورا ونچائی کی دوڑ دیش بھگتی کا کوئی اظہار نہیں بلکہ ایک دکھاواہے۔ ممکنہ طور یہ خود غرضی ہے یا یا دیش بھگتوںکی کج فہمی یا حقیقی دیش بھگتوں کی بدنصیبی!!!
……………………..
رابطہ 098783 75903