آئین کی دفعہ35-A، جسکی وساطت سے پشتینی باشندگی کے حقوق اور انکے مضمرات کےلئے ریاستی قانون سازیہ کے حق قانون سازی کو تحفظ فراہم ہوتا ہے، کے معاملے پر ہر گز رنے والے دن کے ساتھ ماحول گرم ہو رہا ہے اور تمام نظرئیات کی سیاسی جماعتیں اس کو درپیش خطرات کی مختلف جہات پر رائے زنی کرنے میں مصروف ہے۔ ظاہر بات ہے کہ حکمران اتحاد میں شامل پی ڈی پی اور بی جے پی کے درمیان ریاست کی خصوصی پوزیشن کے حوالے سے اختلافات نہ صرف موجود ہیں بلکہ کسی نہ کسی طور پر وہ کھل کر بھی سامنے آرہے ہیں۔دفعہ35-Aکے خلاف عدالت عظمیٰ میں دائر درخواست پر سماعت کے دوران یہ بات واضح ہو گئی کہ مرکزی حکومت کی جانب سے اسکے دفاع میں وہ کوششیں نہیں ہو رہی ہیں، جو اسکی ذمہ داری بنتی تھی۔ خاص کر جموں وکشمیر ، جس کے متعلق یہ دفعہ ہے، کے اندر مرکز میں حکمران جماعت پی ڈی پی کے ساتھ برسراقتدار ہے ، لہٰذا سپریم کورٹ میں اسکا دفاع کرنا بی جے پی کا فرض بنتا تھا ۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ اس کے برعکس پارٹی کے کچھ قائدین نے نہ صرف کھل کر اس دفعہ کی مخالفت کی بلکہ ریاست کو حاصل خصوصی تشخص کو ہی مسئلہ کشمیر کی اصل وجہ قرار دیا۔ اسکے بین بین اپوزیشن پارٹی نیشنل کانفرنس اور مزاحمتی خیمہ سے تعلق رکھنے والی جماعتوں نے بھی اس حوالے سے بیانات جاری کئے، جن میں سید علی گیلانی اور سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کے بیانات قابل ذکر ہیں۔ لیکن عمر عبداللہ نے اس معاملے میں حریت قائد پر یہ کہہ کر چوٹ کی کہ انہیں دفعہ35-سے کیا لینا دینا حالانکہ یہ حقیقت ہے کہ اس دفعہ کے خاتمہ سے ریاست کے اندر آبادیاتی تناسب کے بگڑنے کا بھر پور خطرہ ہے، جس سے ’’رائے شماری‘‘ کہ جسکا مطالبہ حریت کر رہی ہے، اثر انداز ہونے کا اندیشہ ہے۔ دوسری جانب مرکزی وزیر جتیندر سنگھ نے عمر عبداللہ پر یہ کہکر چوٹ کی ہے کہ وہ منتخبہ انداز اختیار کرکے دفعہ35-Aپر بیان بازی کررہے ہیں، جبکہ وہ ریاست میں غیر ملکی مہاجرین کی آباد کاری پر خاموشی بنائے بیٹھے ہیں۔ اس طرح وزیر موصوف نے کہا ہے کہ عمر عبداللہ کے دور حکومت میں روہنگیا اور برمی مہاجرین کو ریاست میں آباد کیا گیا ہے، لہٰذا اس پر بھی بحث ہونی چاہئے۔ اس امر سے صاف ظاہر ہو رہ اہے کہ اس طرح خلط مبحث پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، کیونکہ یہ مہاجرین مرکزی حکومت کی جانب سے اقوام متحدہ کے کمشن برائے مہاجرین کے ساتھ معاہدے کے توسط سے مقیم ہیں اور اس سے قبل پچا س کی دہائی میں تبت پر چین کے قبضہ کے وقت تبتی مہاجرین بھی یہاں عارضی طور پر آباد کئے گئے۔ لہٰذا اصولی طور پر دیکھا جائے تو 1947میں مغربی پاکستان سے آئے مہاجرین، جو جموں صوبہ میں مقیم ہیں بھی کسی نہ کسی طور اسی فہرست میں شامل ہیں، لہٰذا اس معاملے کو دفعہ35-Aکے ساتھ جوڑنا اصل مسئلے سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔عوامی حلقوں کی جانب سے پہلے ہی ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ کہیں اس معاملے پر بیان بازیوں کا الجھائو اصل مقصدسے دوری کا سبب نہ بن جائے۔ ریاست کے سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کے قائدین پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس اہم مسئلے پر مضبوط راے عامہ ہموار کرنے کی بھر پورکوشش کریں، نہ کہ بیان بازیوں سے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی دوڑ میں منزل سے دور ہو جائیں۔ اگر ایسا ہوتا تو یہ ایک بہت بڑی بدنصیبی ہوگی۔