میرواعظ عمر فاروق کی اس بات سے اختلاف کی بہت کم گنجائش ہے کہ ریاست کی خصوصی پوزیشن کا تحفظ کرنے میں قومی دھارے کی سیاسی جماعتیں ناکام ہوئی ہیں بلکہ اس کو زک پہنچانے میں انہی کا ہاتھ رہا ہے ۔جو جماعتیں اس الزام کو مسترد کرکے خود کو بری الزمہ قرار دے رہی ہیں، ان میں نیشنل کانفرنس بھی شامل ہے جس کے پاس سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اس نے ہمیشہ بڑے زور و شور سے اٹانومی کی بات کی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس نے اسمبلی میں اٹانومی کی قرارداد پاس کرائی جسے مرکزی حکومت نے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا ۔ لیکن یہ جواز اسے بری الزمہ قرار نہیں دے سکتا کیونکہ اگر مرکز نے قرار داد کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا تو اس نے بھی اس موضوع کوہی اس کے بعد ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا جبکہ وہ مسلسل کوششیں کرسکتی تھی یا کئی جرات مندانہ قدم بھی اٹھا سکتی تھی ۔
نیشنل کانفرنس کے بانی شیخ محمد عبداللہ تھے جنہیں کشمیری عوام کا اٹوٹ اعتماد حاصل تھا اور جن کا سیاسی قد کافی بلند تھا ۔وہ حق خود ارادیت کے آسماں سے نیچے اتر کر ریاست کی اندرونی خود مختاری کی زمین حاصل کرسکتے تھے لیکن وہ ایسا بھی نہ کرسکے ۔ یہی وہ صدمہ تھا جو ان کی موت کے بعد بندوق کی صورت میں ظاہر ہوا ۔کانگریس سب سے زیادہ خصوصی پوزیشن کو ختم کرنے کی ذمہ دار ہے ۔جس غلام محمد صادق نے کانگریس کوریاست کی سیاست اوراقتدار میں لایا ،اسی نے وزیر اعظم کو وزیر اعلیٰ بنانے اور صدر ریاست کو گورنر بنانے کی حامی بھری ۔پی ڈی پی سیلف رول کا نعرہ دیکر اٹھی تھی لیکن اس نے اس جماعت کے ساتھ اتحاد کیا جو ریاست کی خصوصی حیثیت کی اعلانیہ دشمن ہے ۔ایجنڈا آف الائنس اس پارٹی کے بنیادی ایجنڈے کو نہ تبدیل کرسکتا تھا اور نہ ہی کیا ۔بداعتمادی کی کوکھ سے پیدا ہونے والی حریت قیادت کا خصوصی حیثیت سے کوئی سروکار ہی نہیں تھا کیونکہ وہ روز اول سے آئین ہند کو تسلیم کرنے سے انکار کررہی ہے ۔
یہ حالات اس بات کی گواہی دینے کے لئے کافی ہیں کہ آج جو قوتیںیک زبان ہوکر خصوصی حیثیت کے تحفظ کا جھنڈا اٹھائے ہوئے ہیں انہوں نے نہ صرف اس کو کھوکھلا ہوتے ہوئے دیکھا بلکہ اسے کھوکھلا کرنے میں اپنا بھی کچھ حصہ ادا کیا ۔جب تک اس حیثیت کو جسے آئین ہند کی دفعہ 370کی آئینی ضمانت حاصل تھی کھوکھلا نہیں کیا گیا تب تک سب خاموش رہے لیکن جب دفعہ 35اے پر آفت آنے لگی تو سب کے سب جیسے بھونچال کے جھٹکے محسوس کرکے گہری نیند سے اچانک جاگ اٹھے حالانکہ اس دفعہ کو بھی آئین ہند کی ضمانت حاصل ہے لیکن اصل میں یہ ریاست کے آئین کا حصہ ہے جس میں کسی بھی ترمیم کا اختیار صرف اور صرف ریاست کی آئین ساز اسمبلی کو ہی حاصل ہے۔علیحدگی پسند قوت جو اس وقت ریاست کی بالادست سیاسی قوت سمجھی جاتی ہیں نہ آئین ہند کو مانتی ہے اور نہ ہی ریاست کے آئین کو لیکن اس نے آئین ہند کی ضمانتوں کے تحفظ کیلئے ایک جواز تلاش کردیا اور دفعہ 35اے کو تنازعہ کشمیر سے جوڑ کر اس کے تحفظ کیلئے میدان میں اتر آئی ہیں۔ چنانچہ یہ سوال پیدا ہونا فطری امر ہے کہ کیا واقعی دفعہ 35اے اور دفعہ 370کا مسئلہ کشمیر سے کوئی تعلق ہے ۔حالانکہ اس سے پہلے حریت قیادت کے ذہنوں میں کبھی یہ بات نہیں تھی اور نہ شاید اب بھی ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں تنازعہ کشمیر دو ملکوں کے درمیان ریاستی عوام کے حق خود ارادیت کا مسئلہ ہے جنہیں یہ فیصلہ کرنے کی آزادی اور سہولت حاصل ہو کہ وہ دونوں میں سے کسی ایک ملک کے ساتھ اپنا مستقبل وابستہ کریں ۔لیکن جو تنازعہ خود ہند سرکار اقوام متحدہ میں لیکر گئی اس کا مسودہ اس عارضی الحاق پر مبنی تھا جو ریاست کے حکمراں مہاراجہ ہری سنگھ اور حکومت ہند کے درمیان اس وقت طے پایا جب اس نے قبائلی حملے کے خلاف حکومت ہند سے مدد کی اپیل کی۔حکومت ہند نے ہی عارضی الحاق کو رائے شماری کے تابع قراردیا ۔ پنڈت جواہر لعل نہرو ریاستی عوام کی رائے کے سب سے بڑے وکیل تھے اور خود انہوں نے کشمیر میں عوام کے بھرے مجموں میں اس کا اقرار اور وعدہ کیا ۔اس طرح ریاست کی خصوصی حیثیت اور تنازعہ کشمیر آپس میں گھل مل گئے ۔
ان ٹھوس حقائق کے پیش نظر اس دلیل میں کوئی وزن نہیں کہ چونکہ خصوصی حیثیت آئین ہند کی ضمانت ہے ،اسلئے اس کے تحفظ کی جدوجہد تنازعہ کشمیر سے فرار کے مترادف ہے اور یہ بات بھی اپنی جگہ اٹل ہے کہ آئین ہند کی ان دفعات کے ساتھ چھیڑ چھاڑ مسئلہ کشمیر کی بین الاقوامی حیثیت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ہے ۔اقوام متحدہ نے اس بات کی ضمانت بھی دی ہے کہ ریاست جموں وکشمیر میں انتخابات اور اسمبلی کاقیام اور حکومت کا انتظام عارضی انتظامات ہیں جو مسئلہ کشمیر کی بین الاقوامی حیثیت پر اثر انداز نہیں ہوسکتے ۔علیحد گی پسند قیادت کے ارکان جب بلواسطہ یا بلاواسطہ طور پر انتخابات میں شرکت کرتے تھے تو وہ یہی جواز پیش کرتے تھے لیکن وہ مکمل سوچ اور پورے یقین کے ساتھ اس کے قائل نہیں تھے ۔ اگر ہوتے تو انتخابات میں شمولیت کو گناہ عظیم قرار نہیں دیتے ۔ کئی اندیشوں کے پیش نظر انہوں نے خود کو انتخابات سے الگ کردیا۔
اب جبکہ وہ آئین ہند کی ضمانتوں کے تحفظ کیلئے آر پار کی لڑائی لڑنے پر آمادہ ہیں اور ان آئینی ضمانتوں کو مسئلہ کشمیرکا حصہ قرار دے رہے ہیں تو یہ دلیل بھی خود بخودغلط ثابت ہوئی کہ انتخابات لڑنے اور اسمبلی میں جانے سے مسئلہ کشمیر پر کوئی اثر پڑسکتا ہے جبکہ ریاستی اسمبلی اور اس کا اپنا آئین بھی مسئلہ کشمیر کا ہی حصہ ہے اور پھر اس آئین اور آئین ہند کا حلف اٹھانا بھی مسئلہ کشمیر پر اثر انداز نہیں ہوسکتا کیونکہ دونوں میں مسئلہ کشمیر موجود ہے ۔آئینی دفعات کا تحفظ صرف ریاستی اسمبلی ہی موثر طور پر کرسکتی ہے لیکن اسے ان لوگوں کی جاگیر بنایا گیا ہے جو اٹوٹ انگ کا نعرہ دیتے ہیں اور اپنے لئے مین سٹریم کا لفظ پسند کرتے ہیں ۔اٹوٹ انگ کا موقف رکھنے والوں کیلئے حکومت ہندکی تابعداری پہلا اور آخری فرض ہے اس لئے وہ ریاست کی خصوصی حیثیت پر آنے والی آفتوں کا دفاع کرنے کیلئے عملی طور پر کچھ نہیں کرسکتے اور جو کرسکتے ہیں وہ موقف کے تضاد میں مبتلا ہیں ۔ ایک طرف وہ آئین ہند کی ضمانتوں کو مسئلہ کشمیر کا حصہ قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف ریاستی اسمبلی کو اٹوٹ انگ کا حصہ سمجھ کر اس کے وجود کو مسئلہ کشمیر کی موت سمجھتے ہیں ۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جہاں مین سٹریم کا موقف اور اس کا عمل مکمل تاریخ کی جانکاری اور مکمل سوچ کا نتیجہ نہیں ہے وہیں پر مزاحمتی قیادت کا موقف بھی تضادات کی گٹھری ہے ۔ گو کہ یہ تضادات خود بخود پیدا نہیں ہوئے ہیں بلکہ ان کو تاریخ کے ان واقعات نے پیدا کیا جنہوں نے ہر دور کی قیادت کو بے بس بنا کر رکھدیا تھا۔
نیشنل کانفرنس کا جنم ایک بھرپور نظرئیے کے ساتھ ہوا تھا ۔وہ غلط تھا یا صحیح اس پر بحث ہوسکتی ہے لیکن اس پر بحث کی کوئی گنجائش نہیں کہ ہوا کی لہروں کے مخالف سمت کا یہ موقف اُس وقت کی قیادت کے بھر پور اعتماد کا نتیجہ تھا۔9اگست 1953ء کو نیشنل کا نفرنس کی صف اول کی قیادت کو جیلوں میں بند کرکے اسے اپنے موقف اورنظریات کے ساتھ تہس نہس کرکے رکھ دیا گیا ۔اس کے بعد گیارہ سال تک جو نیشنل کانفرنس برسر اقتدار رہی وہ اٹوٹ انگ کی علمبردار کانفرنس تھی ۔گیارہ سال کے بعد اسے بھی فنا کردیا گیا اوراس کی جگہ کانگریس کو اقتدار و اختیار کا مالک بنادیا گیا ۔جب شیخ محمد عبداللہ نے ستر کی دہائی میں اسے دوبارہ زندہ کیا تو خود شیخ محمد عبداللہ کا موقف اور نظریہ بدل چکا تھا بلکہ نظریہ باقی ہی نہیں رہا تھا ۔اس کے بعد نیشنل کانفرنس بھی مین سٹریم کی ایک جماعت کہلائی جو اٹوٹ انگ کی ہی علمبردار رہی اور اب بھی ہے ۔شیخ محمد عبداللہ نے اقتدار سنبھالنے کے بعد کبھی اندرونی خودمختاری کی بات نہیں کی ۔ جب ان کے فرزند فاروق عبداللہ سے اقتدار چھین لیاگیا تو اس کی زبان پر اندرونی خود مختاری کا لفظ آیا ۔اس کے بعد روایت ہی یہ رہی کہ جب بھی اقتدار پر حرف آتا تھا اٹانومی کی یاد آتی تھی ۔یہ وقتی سیاسی حربے تھے جن کا موقف اور نظرئیے سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔
موجودہ مزاحمتی قیادت نے مسلم متحدہ محاذ کے بطن سے جنم لیا اور متحدہ محاذ کا جنم نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے انتخابی اتحاد کے مقابلے میں مختلف جماعتوں کے اتحاد کا ہی نتیجہ تھا۔جس طرح شیخ محمد عبداللہ اقتدار سے بے دخل ہونے کے بعد حق خود ارادیت کے علمبردار بن گئے،اسی طرح ریکارڈ توڑ دھاندلیوں سے مسلم متحدہ محاذ کو شکست دیکر اسے بھی حق خود ارادیت کے محاذ پر پہنچایا گیا ۔ پہلے بھی مرکزی حکومت کی طلسم سازیوں اور وقت کے جبر نے یہ تبدیلیاں پیدا کی تھی اور اب بھی مرکز کی جابرانہ روش ہی دونوں سیاسی قوتوں کو ایک جگہ اکٹھا کررہی ہے ۔ اندر کی گہرائیوں میں کہیں نہ کہیں یہ بات محسوس بھی کی جارہی ہیں اور کھل بھی رہی ہے اور اسی کے نتیجے میں موقفوں اورنظریات کے حلئے بدل رہے ہیں اور ایک نیا سیاسی بیانیہ جنم لے رہا ہے ۔علیحدگی پسند انپے نظریات کے ساتھ انتخابی سیاست کے قریب آرہے ہیں اور قومی دھارا والے علیحدگی پسند نظرئیے کے نزدیک آرہے ہیں ۔یہ ابھی آغاز ہے جو آگے چل کر نظریاتی مفاہمت کا ذریعہ بھی بن سکتاہے ۔اسے دفعہ 35اے پر منڈلانے والے خطرات کا ہی معجزہ کہا جاسکتا ہے کہ نہ صرف متضاد سیاسی نظریات کا ملن ہونے جارہا ہے بلکہ ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار صوبوں کے ساتھ نسلی ، لسانی اور مذہبی اکائیاں بھی اپنے آپ کو تبدیل کرکے ایک دوسرے کے قریب آرہی ہیں ۔
( بشکریہ ہفت روزہ نوائے جہلم سرینگر)