ریاست کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے ’’گریٹر کشمیر‘‘ کو اپنے ایک انٹرویو میں جو 18 ستمبر 2018ء کے روز شائع ہوا ، یہ انکشاف کیا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی نے اُن کو یہ یقیندہانی کرائی کہ دفعہ 35اے جو سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے کی سنوائی لارجر بینچ کو ریفر ہو گی اور اُس کے بعد یہ سرد خانے میں چلی جائے گی۔سرد خانے میں جانے کا مطلب یہ لیا جا سکتا ہے کہ اُسکے بعد اِس پہ جرح و بحث کا امکان نہیں رہے گا اور یہ آئی گئی بات رہ جائے گی۔محاوراتی زباں میں کہا جا سکتا ہے کہ نہ ہی بھانس رہے گا نہ ہی بھانسری بجے گی۔جموں و کشمیر ریاست کی سابقہ وزیر اعلی کا یہ بیاں حیراں کن ہے اور اُس پہ متعدد سوالات اٹھ سکتے ہیںلیکن کوئی بھی سوال کرنے سے پہلے یا اِس بیاں کے قانونی و سیاسی تجزیے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ مودی سے وابستہ اِس بیاں کا مدعا و مفہوم کیا ہے۔محبوبہ مفتی نے جو بیاں مودی سے وابستہ کیا ہے اُسکا مدعا و مفہوم یہ ہے کہ جتنے جج دفعہ 35-A کی سماعت پچھلی کئی سنوائیوں کے دوراں کر رہے تھے اُنکی تعداد میں اضافہ کیا جائے گاجسے قانونی لغت میں لارجر بینچ کہتے ہیں ۔لارجر بینچ میں آئینی معاملات پہ تب ہی غور و فکر ہوتا ہے جب زماں گذشتہ میں کسی عدالتی عرضداشت پر جج صاحبان کے ایک مخصوص بنچ نے ایسا فیصلہ صادر کیا ہو جس پہ زمانہ بعد میں نظر ثانی کی ضرورت پیش آئے۔ ایسے آئینی معاملات میں بنچ کو یعنی جج صاحبان کی مجموعی تعداد کو بڑھانا پڑھتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ دفعہ 35-Aکے ضمن میں لارجر بنچ کی تشکیل جس کی جانب نریندر مودی بقول محبوبہ مفتی اشارہ کر رہے ہیں، کیوں ضروری بن جاتی ہے؟
دفعہ 35-Aسے وابستہ آئینی معاملات پہ بھارتی سپریم کورٹ میں پہلے بھی عرض داشتوں پہ بحث ہوئی ہے اور عدالتی فیصلے بھی صادر ہوئے ہیں۔1955ء میں لکھن پال بنام جموں و کشمیر سرکار اور 1968ء میں سمپت پرکاش بنام جموں و کشمیر سرکار میں ریاست جموں و کشمیر کے آئینی اختیارات کو چلینج کیا گیاجس میں عدالت عالیہ نے ریاست جموں و کشمیر کے آئینی اختیارات کے حق میں فیصلہ دیا اور لکھن پال اور سمپت پرکاش کی عرضداشتوں کو مسترد کیا گیا۔ دفعہ 35-Aسے وابستہ آئینی معاملات کو پرکھا جائے تو یہ عیاں ہوتا ہے کہ آئین ہند کی اِس دفعہ کا اطلاق ریاست جموں و کشمیر پر دفعہ 370کی شق (1) کے وسیلے ہوا۔ دفعہ 370کی شق (1)کے بموجب ریاست جموں و کشمیر سرکارکی سفارش پہ صدر جمہوریہ ہند بھارتی آئین ہند کی کسی بھی دفعہ کا اطلاق ریاست جموں و کشمیر پہ ایک صدارتی حکم کے وسیلے سے کر سکتے ہیں جس میں وہ ترمیمات بھی شامل رہ سکتی ہیں جن کی سفارش ریاستی سرکار نے کی ہو۔دفعہ 35-Aکسی آئینی دفعہ یا شق سے مطابقت نہیں رکھتی بلکہ ایک نئی آئینی دفعہ ہے جسے ریاستی سرکارکی سفارش پہ آئین ہند میں شامل کیا گیا۔ دفعہ 35-Aاُس صدارتی حکمنامے کا حصہ ہے جو 14مئی 1954ء کو صادر ہوا۔ اِسی صدارتی حکمنامے میں 35(c)کی شق بھی شامل ہے جس میں ریاستی سرکار کو کسی شخص کو حراست میں رکھنے کا اختیار بھی شامل ہے۔ سمپت پرکاش نے ریاستی سرکار کے اِس حق کو چلینج کیا تھا جسے 14مئی 1954ء کے صدارتی حکم پر بھی حرف آتا تھا۔فاضل ججوں نے ایک پنچ رکنی بینچ میں صدارتی حکم کو آئینی معیار پہ صیح مانتے ہوئے سمپت پرکاش کی عرضداشت کو مسترد کیا۔
ماضی کے عدالتی فیصلے کو مد نظر رکھتے ہوئے جو پانچ جج صاحباں کی رائے پہ مشتمل تھا نظر ثانی کے لئے پانچ سے زیادہ جج صاحباں کو بینچ تشکیل دینا ہو گا جس کا موجودہ سماعتوں کے دوراں بھی چیف جسٹس آف انڈیا نے عندیہ دیا ہے اور محبوبہ مفتی کے اُس بیاں میں بھی اُسکا ذکر ہوا ہے جو اُنہوں نے نریندرا مودی سے منصوب کیا ۔قانونی ماہرین کی رائے میں جب بھی دوبارہ کیس کی سنوائی ہو جو کہ جنوری 2019ء میں قرار پائی ہے تو موجودہ بینچ کو یا تو اُن متعدد عرضداشتوں کو مسترد کرنا پڑے گا جن میں 35-Aکو چلینج کیا گیا ہے یا نظر ثانی کیلئے ایک لارجر بینچ تشکیل دینا ہو گا جو کہ اِس اہم دفعہ کے آئینی پہلوؤں کو پرکھتے ہوئے فیصلہ صادر کر دے ۔دیکھا جائے تو یہ خالص عدالتی معاملات ہیں جن پہ جج صاحباں ہی فیصلے لے سکتے ہیں اور عدالتی معاملات انتظامیہ کے تابع نہیں ہوتے۔ نریندرا مودی بھارتی انتظامیہ کی اعلی ترین سیاسی منصب پہ فائز ہیں اور بھارتی کابینہ بھی اُنہی کی رہبری میں کام کر رہی ہے لیکن عدلیہ پہ انتظامیہ کا کوئی کنٹرول نہیں۔ایک جمہوری نظام میں انتظامیہ اور عدلیہ کا دائرہ اختیار جداگانہ ہو تا ہے۔اِس جمہوری اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے بھارتی وزیر اعظم کا یہ کہنا کہ ایک لارجر بینچ کی تشکیل ہو گی اور 35-Aسے منصوب مقدمہ سرد خانے کی نظر ہو جائے گا ایک دور کی کوڑی لانے کے متراوف ہے چونکہ قانون اساسی کی رو سے یہ وزیر اعظم کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔اگر واقعی وزیراعظم نریندر مودی نے وہ بات کہی ہے جو محبوبہ مفتی نے اُن سے منسوب کی ہے، تو یہ بھارتی عدالتی عالیہ کے دائرہ اختیار سے ایک ایسا تجاوز ہو گا جس کی کوئی آئینی اساس نہیں۔ یہ تو صریحاََ عدالتی امور پہ انتظامیہ کی مداخلت ہو گی جس سے عدالتی فیصلوں پہ شک کی گنجائش رہ جائے گی۔
ایک وسیع تر تناظرمیں دیکھا جائے تو عدالتوں میں فاضل جج صاحباں اُسی سماج میں رہتے ہیں جہاں عام انسانوں کی گذر بسر ہوتی ہے اور سماج میں پنپتے ہوئے خیالات سے جج صاحباں کا متاثر ہونا ایک فطری عمل ہے گر چہ یہ نظریہ بھی صحیح ہے کہ عدالتی فیصلوں کا پیمانہ فقط و فقط انصاف ہونا چاہیے صرفنظر از اینکہ سماجی فکر و نظر کیا ہے۔پانچ سال پہلے 2013ء میں جب افضل گورو کی پھانسی کا حکم بھارتی عدالت عالیہ نے صادر کیا تو اُس میں یہ جملہ معنی خیز تھا کہ قومی ضمیر کی آواز (Collective Conscience) کو مد نظر رکھا گیا ہے۔ اِس سے یہی عندیہ لیا جا سکتا ہے کہ جج صاحباں کا قومی طرز فکر سے متاثر ہونا فطری ہے بنابریں دیکھا جائے تو بھارت میں شروع سے ہی کچھ سیاسی حلقے ریاست جموں و کشمیر کو دی ہوئی مخصوص آئینی ضمانتوں کی مخالفت کرتے رہے ہیں ۔بیسوی صدی کے پچاس کے دَہے میں اِس طرز فکر نے ایک ودھان،ایک پردھان اور ایک نشان کا در پیش رکھا اور اُس کی خوب تشہیر ہوئی۔اِس نعرے کی ابتدا گر چہ جموں کے ایک مخصوص سیاسی حلقے پرجا پریشد سے ہوئی لیکن اِس نعرے کی تشہیر بھارت میں بھی ہوئی اور ہندو مہا سبھا اور جن سنگھ جیسی جماعتوں نے اِسے خوب اچھالا۔ بھارت میں دائیں بازو کی انتہا پسند جماعتوں کا یہ نظریہ رہا کہ ریاست جموں و کشمیر کیلئے علحیدہ قانون اساسی ،علحیدہ وزیر اعظم و علحیدہ پرچم نہیں ہونا چاہیے بلکہ بھارت کے طول و عرض میں ایک ودھان(ایک ہی قانون اساسی) ایک پردھان (ایک ہی پردھان منتری۔۔۔وزیر اعظم) ایک نشان ( ایک ہی پرچم) ہونا چاہیے۔اِن جماعتوں کیلئے یہ امر کوئی معنی نہیں رکھتا کہ ریاست جموں و کشمیر بھارت میں مدغم نہیں ہوئی ہے بلکہ مسلہ کشمیر کے دائمی تصفیہ تک ایک عارضی و با شرائط الحاق میں موقتی طور پہ بندھی ہوئی ہے۔ اِن نعروں کی نظر 1953ء میں شیخ محمد عبداللہ کی وزارت ہوئی اور بھارت کی دائیں بازو کی انتہا پسند جماعتیں اِن نعروں پہ سیاسی طور پہ پلتی رہیں۔
2014ء میں دائیں بازو کی وہ جماعتیں اقتدار میں آئیں جن کو کشمیر کی مخصوص سیاسی شناخت سے خدا واسطے کا بیر ہے لیکن آئینی پیچیدگیاں اُن کے مذموم ارادوں کے آڑے آئیں اور ایسے میں اِن جماعتوں سے وابستہ کچھ فرنٹ لائن تنظیموں نے 35-Aکو عدالتی چلینجوں سے روبرو کیا۔یہ سلسلہ آج تک چلا آ رہا ہے۔عدالتی چلینجوں سے نبٹنے کیلئے جب سپریم کورٹ نے حکومتی موقف سننے کیلئے دہلی کی فیڈرل سرکار اور ریاستی سرکار کو طلب کیا تو دہلی سرکار کا موقف ریاستی سرکار کے ساتھ ہم آہنگ نہیں تھا۔دہلی سرکار کوئی بھی موقف اپنانے سے گریزاں تھی۔ 35-Aریاستی آئین کی دفعہ نہیں بلکہ بھارتی آئین کی دفعہ ہے لہذا اُس کا دفاع فیڈرل سرکار پہ فرض ہے البتہ فرائض منصبی سے صرفنظر کرتے ہوئے ایک مبہم رویہ اپنایا گیا جہاں 35-A کو ایک حساس موضوع قرار دیتے ہوئے ایک لارجر ڈبیٹ یعنی وسیع بحث و مباحثے کی بات کی گئی ۔یہ ابتدائی سماعتوں کی بات ہے جب بھاجپا ریاستی سطح پہ پی ڈی پی کے ساتھ ایک کولیشن سرکار میں بندھی ہوئی تھی۔بھاجپا جہاں کولیشن سرکار کو بچانا چاہتی تھی وہی اپنے قدیمی موقف کی نگہباں بھی بنی رہی جس میں ریاست جموں و کشمیر کے آئینی تحفظات کو سرے سے ختم کرنے کا منصوبہ شامل رہا ہے۔عدالت عالیہ میں ایک سنوائی کے دوراں یہ بھی کہا گیا کہ جموں و کشمیر میں فیڈرل سرکار نے ایک رابطہ کار دنیشور شرما بھیجا ہے جو وہاں کے مختلف جماعتوں سے رابطے میں ہے ۔ اِس سے اگر چہ مسلہ اگلی پیشی تک ٹل گیا لیکن یہ بات صاف نہیں ہوئی کہ رابطہ کاری اور عدالتی کاروائی کا اپسی سمبندھ کیا ہے؟
دہلی سرکار کے رویے میں منصبی فرائض نبھانے کے بجائے جہاں بھارتی آئین میں شامل 35-Aکا دفاع الزامی تھا بھاجپا کی وہ سیاست در پیش رہی جس میں جموں و کشمیر کے آئینی تحفظات کو سرے سے ختم کرنے کا منصوبہ شامل رہا ہے۔اِس سیاست کا ریشہ آر آر ایس کے نظریات سے وابستہ ہے۔ماہ رواں کے دوراں زعفرانی جماعتوں کی بالاترین تنظیم آر آر ایس کا ایک کنونشن دہلی میں منعقد ہوا جس میں تنظیم کے چیف موہن بھاگوت نے سریحاََ 35-A اور دفعہ 370کی مخالفت کی۔بھاجپا آر ایس ایس کا سیاسی فرنٹ ہے اور بھارتی وزیر اعظم آر ایس ایس کے قدیمی کار سیوکوں میں شمار ہوتے ہیں۔سپریم کورٹ میں 35-A کے دفاع کے بجائے مبہم رویہ اپنانا اُسی سوچ کی پیدوار ہے جس کا ذکر موہن بھاگوت نے دہلی کنونشن میں کیا۔ رہی یہ بات کہ نریندرا مودی نے محبوبہ مفتی کو یہ یقیں دہانی کروائی کہ دفعہ 35-A لارجر بینچ کو ریفر ہونے کے بعد سرد خانے میں چلی جائیگی اُسکے تجزیے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ نریندرا مودی نے یہ ذکر محبوبہ مفتی کو خوش کرنے کیلئے کیا ہو گا نہیں تو بھارتی وزیر اعظم سے یہ توقعہ رکھنا کہ وہ عدالتی کاروائی کے بارے میں اپنی جانب سے کچھ کہیں بعید نظر آتا ہے چونکہ یہ عدالتی کاروائی پہ اثر انداز ہونے کے متراوف ہو گا جس کا متحمل وزیر اعظم نہیں ہو سکتا۔ہاںجیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوا یہ صیح ہے کہ عدالت میں جج صاحباں کا ملک کے مجموعی سیاسی پس منظر سے متاثر ہونا بعید نہیں اور عدالتی فیصلوں کا یہ پہلو افضل گورو کے کیس میں عیاں رہا۔آج تک اِس فیصلے کی گونج سنائی دے رہی ہے جس نے خدشات کو جنم دیا ہے اور یہی سبب ہے کہ دفعہ 35-Aکے ضمن میں عدالتی کاروائی ایک لٹکتی ہوئی تلوار بن چکی ہے اور عوام الناس میں اِس کے تئیں ایک بے اطمینانی کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ بے اطمینانی کی اِس کیفیت کو محبوبہ مفتی کی رہبری میں گذشتہ سرکار کے ناقص اعمال نے فروغ دیاجس میں 35-Aکی عدالتی سماعتوں کے دوراں اِس اہم دفاع کا ضعیف دفاع بھی شامل رہاثانیاََ موجودہ ریاستی سرکار گورنر کی گرفت میں ہے جو بہر حال مرکزی سرکار کا نمائندہ ہے ۔
دہلی کی فیڈرل سرکار کے تیور دیکھ کے ریاستی سرکار کا دفاع بھی بجھا بجھا سا رہااور اُس میں وہ جاں نظر نہیں آئی جو اِس اہم دفعہ کے دفاع میں ہونی چاہیے تھی۔ایک پیشی کے دوراں عدالت عالیہ کے جج صاحباں نے حیرت کا اظہار کیا کہ ریاستی دفاع صرف ڈیڑھ صفحے کے کاغذ پہ پھیلا ہوا ہے حالانکہ دفاع کتنا تفصیلی ہونا چاہیے اِس ضمن میں اظہار نظر سے گریز کیا گیا۔ یہ ناقص دفاع ایک ایسی صورت حال کے مقابل تھا جہاں چلینج کرنے والی تنظیموں نے سیکڑوں صفحوں پہ اپنی عرضداشتیں پھیلائی ہوئی تھیں ۔آخری پیشی جو گورنر راج کے دوراں ہوئی ریاستی دفاع فیڈرل سرکار کے ایڈشنل سولسٹر جنرل توشار مہتا کو سونپا گیا جنہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور کہہ بیٹھے کہ دفعہ 35-Aجنسیات میں تفریق کی قائل ہے یعنی کسی زن کو غیر ریاستی باشندے سے شادی کرنے کی صورت میں موروثی جائداد کے حصول میں وہ حقوق میسر نہیں جو ایک مرد کو ہیں حالانکہ ایک سابقہ عدالتی فیصلے یہ عیاں ہے کہ موروثی جائداد کا حصول کا حق خواتین کیلئے غیر ریاستی باشندے سے شادی کرنے کی صورت میںمحفوظ ہے البتہ یہ حق اُن کی آل اولاد کو منتقل نہیں ہو سکتا۔کہا جا سکتا ہے کہ ایسے وکیل سے ریاست بے وکیل ہی رہتی تو بہتر ہوتا۔جنوری میں اگلی پیشی سے پہلے ہی ایک مجموعی و ہمہ گیر دفاع کی صورت کیلئے سول سوسائیٹی کو ایک موثر حکمت عملی اپنانی ہو گی!
Feedback on: [email protected]