بلال فرقانی
سرینگر//لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے کہا ہے کہ مرحلہ وار طریقے پر مزید سیاحتی مقامات کو کھولنے کا فیصلہ کیا جارہا ہے اور سیاحتی شعبے کو امر ناتھ یاترا سے ایک مضبوط بنیاد فراہم ہوگی۔لیکن زمینی سطح پر انتظامیہ کی ناقص حکمت عملی کی وجہ سے پہلگام میں اب گھوڑوں کے ٹاپوں کی آواز نہیں آتی، یوسمرگ کے سبزہ زار خاموش اور اہرہ بل کا آبشار منتظر ہے، دودھ پتھری کسی کی راہ تک رہی ہے، تھجواس کے گلیشیروں کو کسی کے آنے کا انتظار ہے اور بنگس کی وادی میں چہچہاہٹ نہیںہے۔کشمیر کی سیاحت ہر گرمیوں میں نئی دھن چھیڑتی ہے ، کبھی مختلف کنبوں کی اجتماعی پکنک، کبھی سکولی بچوں کی قافلہ در قافلہ آمد، شہر و دیہات کے محلوں و بستیوں کا مختلف علاقوں کی طرف رخ اور نوجوانوں، رشتہ داروں اور ہمسائیوں کے گروپوں کی سیر و تفریح وادی کی ایک شناخت بن گئے ہیں۔22اپریل کو پہلگام حملے کے بعد لگنے والی بندشوں نے کشمیر کی مقامی سیاحت کو تقریباً ختم کردیا ہے۔یہ محض سیاحتی مقامات کی بندش نہیں، بلکہ وادی کے دل کی دھڑکنوں کا بند ہو جانا ہے۔ یہ پہاڑ، ندی،وادیاں، اور سبزہ زار صرف زمین کے ٹکڑے نہیں، یہ کشمیری عوام کے وجود کا حصہ ہیں جہاں روزگار، ثقافت، خاندانی میل جول، اور روحانی سکون سب کچھ سانس لیتا ہے۔
وادی میں سیاحتی مقامات کی بندش نے نہ صرف بیرونی سیاحت کو متاثر کیا ہے بلکہ مقامی تفریحی کو بھی مفلوج کر دیا ہے۔ ہر سال گرمیوں کے ایام کے دوران گھریلو سطح، سکولوں، کالجوں، محلوں، بستیوں، رشتہ داروں،ہمسائیوں اور نوجوانوں کے گروپ اجتماعی پکنک کا انعقاد کرتے ہیں، جن میں بچے، خواتین، بزرگ اور نوجوان بڑی تعداد میں شرکت کرتے ہیں۔ ہفتہ اور اتوار کو تو خاص طور پر ہزاروں افراد ویری ناگ سے لیکر بنگس وادی تک سینکڑوں مقامات کی سیر و تفریح اور کیمپنگ کیلئے نکلتے تھے۔سیاحت سے جڑے لوگوں کا کہنا ہے کہ موسم گرما میں60سے90 فیصد مقامی لوگ ان صحت افزا مقامات کی سیر وتفریح کو جاتے ہیں،جس سے سیاحتی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا ہے اور یہ خوبصورت مقامات مزید خوبصورت دکھائی دیتے ہیں،لیکن بندشوں کی وجہ سے کشمیر کے سبھی خوبصورت مقامات کی خوبصورتی ماند پڑ گئی ہے۔انتظامیہ کی جانب سے 29 مئی کو 48 مقامات کو بند کر دیا گیا، جن میں سے صرف 16 کو 14 جون تک کھولا جا سکا، جبکہ 32 کلیدی مقامات ہنوز بند ہیں۔ ان بندشوں نے نہ صرف سیاحت بلکہ وادی کی ثقافت، روزگار، مقامی سیاحتی سرگرمیوں اور معیشت کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ہر سال گرمیوں کے دوران، وادی کی سماجی زندگی مخصوص رنگوں سے بھر جاتی تھی۔ لیکن امسال گاڑیوں میں سکولی بچوں کی گنگناتی آوازیں سنائی نہیں دیتی کیونکہ مقامی سیاحت بند کردی گئی ہے۔اس بار بچوں نے سکول کی چھٹیوں میں صرف موبائل دیکھ کر وقت گزارا۔ٹریڈرس فیڈریشن کے ذمہ داران کا کہنا ہے کہ سیاحت کے شعبے کی گاڑی چلانے کیلئے مقامی سیاحت بہت اہم رول ادا کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مقامی سیاحت سے ہر ایک سیاحتی مقام پر رونق رہتی ہے جو دوسروں کو بھی آنے کیلئے مائل کرتے ہیں۔لیکن انتظامیہ نے مقامی سیاحت پر بھی قدغن لگاکر سیاحت کی تیز رفتاری کو مزید سست کرنے کا فریضہ انجام دیا۔سیاحتی سرگرمیاں صرف معیشت نہیں بلکہ ثقافت، میل جول، اور ذہنی سکون کا ذریعہ بھی ہوتی ہیں۔ وادی میں مقامی اجتماعی سیر و تفریح، پکنک، کیمپنگ اور قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہونا روایتی طور پر صدیوں سے جاری ہے۔2024 میں جموں و کشمیر میں 35 لاکھ سے زائد سیاح آئے تھے، جن میں بڑی تعداد غیر ملکی اور ملکی دونوں کی تھی۔ اس سال پہلگام واقعے کے بعد 90 فیصد بکنگ منسوخ ہو چکی ہے، جس کا براہ راست اثر ہوٹل انڈسٹری، ہاؤس بوٹ مالکان، ٹور گائیڈز، دستکاروں، ریئل اسٹیٹ، اور ٹرانسپورٹ سیکٹر پر پڑا ہے۔سیاحت سے وابستہ ایک اندازے کے مطابق 4لاکھ کے قریب افراد مکمل یا جزوی طور پر بے روزگار ہو چکے ہیں۔ ماہرین کے مطابق مقامی سیاحت کو بند کرکے جموں و کشمیر سے باہر کوئی مثبت پیغام نہیں گیا ہے بلکہ اس سے منفی تاثر پیدا ہوا ہے۔ مقامی تاجر، سیاحتی انجمنیں، اور عوام مسلسل مطالبہ کر رہے ہیں کہ کم از کم مقامی سیاحوں کو ان بند علاقوں تک محدود رسائی دی جائے تاکہ کچھ حد تک زندگی کی رفتار دکھائی دے سکے۔