جموں //ریاست میں 21,315 پرائمری اور مڈل سکولوں میں سے 3039 سکول آج بھی کرایہ کی عمارتوں میں چل رہے ہیںجبکہ ریاست جموں وکشمیر میں کسی بھی مدرسہ یا پھر مذہبی تعلیمی ادارے کی رجسٹریشن نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی علماء کرام اور مولویوں کی تعداد کے بارے میںا عدادوشمار جمع کئے گئے ہیں ۔ حالیہ بجٹ اجلاس کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ ریاست میں 21315 مڈل اور پرائمری سکولوں میں سے 3039 سکول کرایہ کی عمارات میں چل رہے ہیںاور کرایہ پر لی گئی سب سے زیادہ عمارات ضلع بڈگام میں ہیں جہاں اُن کی تعداد 444بتائی جا رہی ہے ۔ لداخ میں صرف تین سکول کرایہ کی عمارتوں میں چل رہے ہیں ۔ا عدادوشمارکے مطابق اننت ناگ میں 165 ،بڈگام میں 444،بانڈی پورہ میں 323 ،بارہمولہ میں 275،ڈوڈہ میں 100، گاندربل میں 33،جموں میں 47 ،کرگل میں 50، کٹھوعہ میں 93 ،کشتواڑ میں 184،کولگام میں 74، کپوارہ میں 268 ،لیہہ میں 3،پلوامہ میں 143،پونچھ میں 71 ،راجوری میں 227،رام بن میں 133،ریاسی میں 114 ،سانبہ میں 14 ،شوپیاں میں 10 ،سرینگر میں 259،اودھمپور میں 9سکول کرایہ کی عمارتوں میں کا م کر رہے ہیں ۔ پچھلے تین برسوں کے دوران 654پرائمری ، 63مڈل سکول اور 4379اضافی کلاس رومز کی تعمیر کشمیر وادی میں مکمل کی گئی ہے ۔ جموں وکشمیر میں کسی بھی مدرسہ یا پھر مذہبی تعلیمی ادارے کی رجسٹریشن نہیں ہوئی ہے اور اس حوالہ سے حکومت کے پاس کوئی بھی اعدادوشمار نہیں اور نہ ہی اس سلسلے میں آج تک کوئی سروے کی گئی ہے۔ مدارس میں معیاری تعلیم کی فراہمی کیلئے مرکزی سرکار کی طرف سےSPQEMنام سے ایک اسکیم چلائی جارہی ہے تاہم سرکار کی جانب سے پچھلے تین برسوں کے دوران کسی بھی مدرسہ یامذہبی تعلیمی اداروں کو فنڈس نہیں دئے گئے ہیں اور نہ ہی کوئی مدرسہ یا پھر مکتب رجسٹرڈ ہے ۔ ان مدارس کو مرکزی اسکیم SPQEMکے تحت ’’گرانٹ ان ایڈ‘‘کے اہل بنانے کیلئے محکمہ تعلیم نے جموں اور سرینگر کے ڈائریکٹر سکول ایجوکیشن سے کہا ہے کہ وہ ان مدارس کی مجاز آرگنائزیشن بنائیں جیسے مرکزی وریاستی وقف بورڈ یا (نیشنل انسٹی چیوٹ آف اوپن اسکولننگ)کے ساتھ اندراج (رجسٹریشن)کو یقینی بنائیں تاکہ انہیں مالی امداد فراہم کی جائے۔ ریاست جموں وکشمیر کے مدارس میں زیر تعلیم طلبہ کے سخت انتہا پسندی کا کوئی بھی معاملہ ابھی تک سامنے نہیں آیاہے۔