۔29 ؍مئی : آسیہ اور نیلوفر کی پکار!

Kashmir Uzma News Desk
19 Min Read
پچھلے ستر سال سے جموں کشمیر کی سیاسی تاریخ کا ہر باب ظلم و ستم، خوف و دہشت، قتل و غارت، انسانی اقدار کی پامالی ، آہ وبکا ، چیخ وپکار ، دلخراش واقعات اور جگر سوز مناظر سے بھرا پڑا ہے۔ان عرصے میں کہیں جرم بے گناہی میں لوگوں کو پیوند خاک بنایا گیا، کہیں بے کسوں کو دارو رسن پر چڑھایا گیا، کہیں اسکولی بیگ اٹھائے بچوں کا چراغ زندگی گل کر دیا گیا، کہیں حقوق کی بازیابی کے لئے آواز اٹھانے پر لوگ پس دیوار زندان کر دئے گئے،کہیں بستوں کی تاراج کیا گیا، کہیں عوام کا قافیۂ حیات تنگ کیا گیا، کہیں جنگی حربے کے طور پر بنت حوا کی ناموس کو کچلا گیا ،کہیں فرضی جھڑپوں سے زمین خون سے لالہ زار کی گئی، کہیں بوڑھے باپ نے اپنے جواں بیٹے کا جواں لاشہ اپنے کپکپاتے کندھوں پر اٹھایا، کہیں ماں نے اپنے کلیجے کے ٹکڑے کو لحد میں اُترتے دیکھا،کہیں لاپتہ بھائی کا راستہ تکتے تکتے بہن کی آنکھیں پتھرا گئیں، کہیں بھائی اپنی بہن کی آہیں اور چیخیں سن کر ماہی ٔ بے آب ہوا، کہیں ڈل اور ولر نے سینہ کوبیاں کیں کہیں جہلم ماتم بداماں ہوا۔۔۔ غرض کشمیری قوم نے اس طویل عرصے میں اَن گنت ظلم کے نہ تھمنے والے دورابتلاء کے گہرے زخم سہے اور حق یہ ہے کہ اس دوران کشمیری قوم کو دبانے کے لئے جبر کے نت نئے ہتھکنڈے اور ظلم کے زیادہ  اذیت ناک حربے برابر آزمائے گئے ۔ یہ کشمیری قوم کا مزاحمتی جذبہ ہی ہے جس نے بادِ مخالف کی آندھیوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ تاریخ کشمیر گواہ ہے کہ غلامی کی سیاہ رات کا سینہ چاک کرنے کے لئے قوم کو بے انتہا قربانیاں دینی پڑیں جن کا تصور کر کے ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ جب سے کشمیری قوم کے پیدائشی حق یعنی حق خود اردایت پرفوجی طاقت کے بل پر شب خون مارا گیا تب سے آج تک یہاں ایسی خون خواریاں ہورہی ہیں کہ ان سے دشت و جبل اور عرش و فرش دہل اٹھتے ہیں۔ کشمیری قوم نے اپنی سیاسی جدوجہد کے لئے ایسی قربانیاں دیں جو صرف زندہ قومیں دے سکتی ہیں، یہاں ماں کی گود سے بیٹے کو چھین کر چوراہے پر قتل کر دیا گیا مگر مبارک ہو ان ماؤں کو یہ کشمیر کاز سے دستبردار نہ ہوئیں، یہاں آشیانوں کو خاکستر کیا گیا مگر مکینوں نے سرینڈر نہیں کیا، یہاں بے شمار جوانوں کو خون آلودہ کفن میں قبروں میں اتاردیا گیا مگر ان کی روحیں جہد مسلسل کی شکل میں زندہ وپائندہ ہوگئیں ۔اس بد نصیب قوم کی مظلومیت پر انسانی ضمیر دہائیوں سے خون کے آنسو رو رہا  ہے۔کشمیر کی وہ کون سی آنکھ ہے جس نے ان دلسوز المیوں پر آنسو نہ بہائے ۔ ان المناک سانحات میں ایک ایسا المیہ جس پر قوم کشمیر کا ہر بچہ، بوڑھا، جوان، ماں، بہن اور بیٹی اپنے سینے میں درد محسوس کرتا ہے ، یہ کنن پوشہ پورہ کا المیہ ہے جس کی ردائے عزت و عصمت کو فوج کے بے رحم ہاتھوں نے جنگی حربے کے طور تار تار کیا۔کشمیری قوم کی ان عزت مآب ماؤں اور بہنوں کی جگر سوز داستان سے کلیجہ منہ کو آتا ہے جن کا سب کچھ اپنے گھر کی چار دیواری میں ہی لٹ گیا۔سانحہ کنن پوشہ پورہ کو انجام دینے والے مجرم ابھی تک قانون کے کٹہرے سے کافی دورہیں ۔ جہاں قانون ِ انسانیت توڑنے پر شاباشیاںدی جائے جس کی تازہ مثال انسانی ڈھال بنانے والے ارشٹریہ رائفلز کے میجر گگوئی کی سند ستائش سے ملتی ہے ،وہاں انسانیت کا بڑی دھوم سے جنازہ نہ اٹھے تواور کیاہوگا ؟سانحہ کنن پوشہ پورہ کپواڑہ کے متعلق انصاف کا قاضی ابھی اپنا فتویٰ دینے سے قاصر ہی ہے کہ قوم کی عزت و عصمت پر ایک اور کاری ضرب29؍ مئی 2009ء کو جنوبی شوپیان کشمیر میں دردوکرب کا ایک اور سیلاب امڈ آیا۔ اس روز شوپیان کی دو عفت مآب بیٹیاں۔۔۔آسیہ اور نیلوفر۔۔۔گھر کے نزدیک اپنی سبزی واری میں گئی تھیں تاکہ رات کے لئے سبزی لائیں ، سبزی تو نہیں آسکی لیکن ان دونوں کی زخم زخم لاشیں وہاں سے آئیں ۔ان کی خون میں لت پت لاشیںدیکھ کر آسمان پھٹ پڑا ، زمین سہم گئی۔29؍ مئی کی وہ غم ناک شام جب شوپیان میں سورج تھک ہار کر اہرہ بل کے اونچے اونچے پہاڑوں کے پیچھے سستانے کی تیاری کر رہا تھا، شام کے سایہ میں سورج غروب ہو اہی چاہتاتھا ، پرندے اپنے اپنے گھونسلوں کی جانب لوٹنے کو تھے کہ بے فکری کے عالم میں آسیہ اور نیلوفر گھر وآپس مڑنے کے لئے نکلیں،ان کے حاشیہ ٔ خیال میں بھی نہ تھا کہ اب ان کا دائمی گھر قبرستان ہے۔ سوچ بھی کیسے سکتیں ، وہ تھوڑی ہی پہلی بار گھر سے سبزی واری کو جارہی تھیں مگرآج وقت کا فرعون و نمرود خاکی وردی پہنے ان کے تعاقب میں تھا۔اس آدم خورکے ہاتھوں ملت کشمیر کی یہ دونوں عفت مآب بیٹیاں ایک نئے آنے والے مہمان سمیت قتل ہوئیں ۔ اس وحشی درندے نے تہرے قتل کے ناقابل معافی جرم کو چھپانے کے لئے انہیں ایک ایسی دنیا میں بڑی بے دردی سے پہنچایا جہاں جانے والے کبھی واپس نہیں لوٹتے۔ دن کی روشنی میں گھر سے باغ کی طرف نکلنے والی آسیہ اور نیلوفر جب اُس وقت بھی وآپس نہ لوٹیں جب اندھیرا روشنی پہ حاوی ہوچکا تھا تو ظاہر ہے کہ گھر والے بہت پریشان ہوگئے۔انہوں نے رات بھر اپنی پیاری بچیوں کو ڈھونڈا لیکن بے سودکیونکہ اُن کا کہیں نام و نشان بھی نہ ملا۔30 ؍مئی کی سحر طلوع ہوئی تو لوگ ان جگر گوشوں کی تلاش کرتے کرتے نالہ رمبی آرہ تک پہنچے اور یہ دیکھ کر سکتے میں آگئے کہ آسیہ اور نیلوفر پتھروں کے ننگے بستر پر تشددا ور اجتماعی عصمت دری کی لحاف اوڑھ کر ابدی نیندسو چکی تھیں۔ لوگ چیخنے چلانے لگے یا اللہ یہ کیا ہوا؟ یہ کیا ماجرا ہے؟ کس بدخصلت و شیطان صفت ہاتھوں نے یہ ظالمانہ فعل انجام دیا؟ اہل خانہ اور پوار گاؤں زار و قطار رو رہا تھا، انسانیت ماتم کناں تھی اور ان عزیزاؤں کے ٹھنڈے جسموں کو گہری نیند سے جاگ جانے کو کہہ رہے تھے، سوال دے رہے تھے کہ تمہیں خدا کا واسطہ ہے جاگ جاؤ، کس نے آپ کے معصوم جسموں کو چھلنی کر دیا؟ لیکن ان کی چیخ و پکار کا جواب کون دیتا کیونکہ آسیہ اور نیلوفر کی زبانیں ہمیشہ کے لئے خاموش ہوچکی تھیں۔اپنی حالت بیان کرنے کے لئے اُن کے پاس کچھ رہا ہی نہیں تھا مگر ان کی حالت ِزار آثار و قرائین کی زبانی منہ کھولے شہادت دے رہے تھے کہ ملت کی ان بیٹیوں کا قاتل کون ہے؟؟؟؟ رمبی آرہ کی فضا سوگوار تھی، وہاں کے پتھر مرثیہ خواں تھے، وہاں کے درخت غم کی ہواؤں سے ہل ہل کر لوگوں کے سامنے ظلم کی داستان بیان کرنے کی کوشش کر رہے تھے ۔ کاش قدرت اُنہیں زبان عطا کر دیتی تو وہ بیان کردیتے کہ کس طرح سے آسیہ ونیلوفر کی فلک شگاف چیخوں نے رمبی آرہ کے پتھروں کو موم کردیا ، کس طرح درندہ صفت حیوانوں نے وردی کا سہارا اور افسپا کی آشیرواد لے کر اپنی درندگی میں ان معصوموں کی کھلتی جوانیوں پر ترس نہ کھا یا اور ظلم و جور کا ایسا ننگا ناچ ناچا جس پر چشم فلک بھی اشک بار ہوئی۔شوپیان سانحہ اور المیہ سے کشمیری قوم بھونچکا رہ گئی۔ یہ ایک ایسا زخم ہے جس کی ٹیسوں نے پورے کشمیر کو بے قرار کر دیا، سارا کشمیر دہل اٹھا، کشمیر کی سڑکیں ویران ہوگئیں، بازار سنسان ہوگئے، ہر ایک آسیہ اور نیلوفر کے قاتلوں کو سزا دینے کی مانگ کر رہا تھا۔ شوپیان میں حصول انصاف کے لئے ایک ایکشن کیٹی تشکیل دی گئی ۔اُس وقت کانگریس کی مہربانی سے عاریتاً ملی کرسی پر بیٹھنے والے عمر عبداللہ نے عوامی دباؤ کے آگے سرینڈر کرتے ہوئے تحقیقات کا حکم دیا۔ سانحہ شوپیان کی نام نہاد تحقیقات مکمل کر کے سی بی آئی نے حقائق سے بعید رپورٹ عدالت عالیہ میں پیش کر کے اصل مجرموں کی پردہ پوشی کر کے آسیہ اور نیلوفر کی روحوں کو اور زیادہ بے چین کرنے کے علاوہ ان کے لواحقین سمیت کشمیری عوام کی نمک پاشی میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
جہاں تک شوپیاں المیہ کا تعلق ہے یہ بہت ہی المناک اور خون کے آنسو رلادینے والا واقعہ ہے۔ ایک تو معصوم خواتین کی عصمت دری اور قتل کا یہ واقعہ دل دہلانے والا تھا ہی، اوپر سے عمر عبداللہ کی گومگو پالیسی سے لے کر نام نہاد تحقیقاتی ٹیم تک کی کذب بیانیوں نے اس سانحہ کے مجرمین کو بچانے کے رقص بسمل نے لوگوں کے ہرے زخموں پر نمک چھڑک دی۔ سی بی آئی نے جس معتصبانہ اور غیر پیشانہ وارانہ انداز سے اس واقعہ کو ہمیشہ کے لئے دفن کرنے کی کوشش کی وہ نہایت ہی افسوسناک ہی نہیں بلکہ سی بی آئی کی شبیہ پر ایک داغ ہے ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس سانحہ میں ملوث مجرموں کو قانون عدل پہ چل کر جکڑ لینے کے سامان کئے جاتے مگر ایسا کیا ہی نہ گیابلکہ ایک ہاتھ تحقیقات کا اعلان کیا گیا اور دوسرے ہاتھ مجرموں کی پردہ پوشی کی مذموم عمل شروع کر کے سارے معاملے کو مشتبہ بنایا گیا۔ معمولی عقل و فہم رکھنے والا بھی سمجھ سکتا ہے کہ سانحہ شوپیان کو ابتداء ہی سے حکومتی سطح پر دبائے جانے کی کوششیں کی گئی بقول طارق احمد گنائی ( شوپیان کے رہنے والے معزز شہری ہیں ا جنہوں نے لواحقین کو انصاف دلانے کے لئے بہت تگ و دو کی اور آج بھی اسی جرم بے گناہی میں جیل کی زینت بنے ہوئے ہیں)ــ’’یہاں کی تمام ہندنواز جماعتیں اور ایجنسیاں جانتی ہیں کہ اس فعل بد کو انجام دینے والے کون ہیں مگر جان بوجھ کر گناہ گاروں کو چھپانے اور بچانے کی نامراد کوشش کی گئی کیونکہ وہ اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے اور حکومت کے حرکات وسکنات سے روز اول سے واشگاف ہوا تھا کہ اس کیس کو دبائے جانے کی کوششیں کی جارہی ہیں بلکہ تھانہ شوپیان میں اس سانحہ سے متعلق کئی دنوں تک محض ایک معمولی شکایت درج رہی اور پھر سیف الدین سوز نے نیم دلی سے سونیا گاندھی کے کہنے پر ایف آئی آر درج کروائی‘‘ ۔ غرض وقت کے وزیراعلیٰ کا یہ کہنا کہ مقتولین نالہ میں ڈوب مری ہیں، مجرموں کی ایک بھونڈی وکالت ہے کیونکہ اس وقت نالے میں پانی کی گہرائی دو انچ سے زیادہ نہ تھی۔ تھانہ شوپیان  میں اس سانحہ سے متعلق کئی دن تک محض ایک معمولی شکایت درج رہی۔اس کے بعد عمر عبداللہ کے بیان نے جلتی پر تیل چھڑکاکہ ان دونوں کی موت قدرتی طور خشک نالہ رمبی آرہ میں ڈوبنے سے ہوئی، بعد ازاں انہوں نے جب دیکھا کہ لوگ اس لن ترانی پر آتش زیرپا ہیں تو ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی اور بتایا کہ انہیں انتظامیہ نے غلط اطلاع فراہم کی تھی۔تھوڑی دیر کے لئے مانتے ہیں کہ ان کو’’ غلط اطلاعات ‘‘دی گئیں مگر سوال یہ ہے کہ غلط اطلاع رسانی پر عمر عبداللہ نے کسی آفیسر کے خلاف کوئی قانونی یا انتظامی کاروائی کی؟ اگر اس ایک غلطی کا سنجیدگی سے ازالہ کیا گیا ہوتا تو عین ممکن ہے کہ مجرمین کو چھپنے یا اپنے جرم کے شواہد مٹانے کا موقع نہ ملا ہوتا۔ جان کمیشن کے ذریعے کی گئی تحقیقات میں بھی ایک نہیں سو خامیاں اور نقائص تھے مگر ان کی جانب ادنیٰ دھیان دئے بغیر سرکار نے عوام کی زبردست مزاحمت کے باوجود اس رپورٹ کو ہمارے سروں پر تھوپنے کی کوششیں کیں۔ اسی طرح پولیس کی اسپیشل انوسٹی گیشن کا نتیجہ بھی صفر کے برابر رہا۔یہ سب اس بات پر منتج ہوا کہ مجرموں اور انصاف کے مابین فاصلہ بڑھتا ہی گیا۔ اس طرح جان کمیشن سے لے کر سی بی آئی کی فرسودہ تحقیقات تک ساری گذارشات کا جائزہ لے کر لگتا ہے کہ جرم کی جڑوں تک پہنچنے کے بجائے تحقیقاتی ٹیموں کا سفر کسی اور ہی سمت تھا ۔ سی بی آئی نے سانحہ کی جو مفصل رپورٹ پیش کی اس کا حقیقت کے ساتھ دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہے ۔ایجنسی کا یہ کہنا کہ دونوں کی موت نالہ رمبی آرہ میں ڈوب مرنے سے ہوئی ہے۔،ایک مضحکہ خیز جھوٹ اور خلاف ِ حقیقت افسانہ ہے۔حالانکہ جان کمیشن نے بھی اس بات کی گواہی دی کہ نالہ رمبی آرہ میں اتنا پانی نہیں تھا کہ جس میں ڈوب کر مرا جاسکتا ہے اور نہ ہی گذشتہ ایک دہائی کے دوران اس نالے میں کسی کے ڈوب مرنے کا کوئی ریکارڈ ہے۔بحث کے لئے اگر مان بھی لیا جائے کہ آسیہ و نیلوفر قدرتی طور اس نالے میں میں ڈوب گئیں تھیں لیکن ان کے جسموں پر لگے زخموں کا کسی کے پاس کوئی جواب ہے؟ آخر وہ زخمی کیسے ہوگئیں؟ ان کے پوشیدہ اعضاء پر تشدد کے نشانات کیسے نقش تھے؟ سی بی آئی کی 66 صفحات پر مشتمل رپورٹ کے حرف حرف پر بحث کی گنجائش موجود ہے اور اسے جھوٹ اور افتراء کا پلندہ ثابت کیا جاسکتا ہے۔حد یہ ہے کہ انکوائری ایجنسیوں نے مجرموں کی نشاندہی کرنے کے بجائے خود سوگواروں کو ہی ملزموں کے کٹہرے میں کھڑا کیا، چاہے وہ انصاف کے متلاشی وکلاء ہو، ڈاکٹر یا پھر واقعہ کے عینی شاہدین۔یہ وہی سی بی آئی ہے جس نے ہندوستان میں پراسرار معاملوں کی تہہ تک جاکر کئی بارحقیقت لوگوں کے سامنے لائی مگر چونکہ کشمیر ہندوستان سے اپنا پیدائشی حق مانگ رہا ہے، اس لئے آسیہ و نیلوفر کا کیس بھی سیاسی ضد اور عناد کے مقتل میں ذبح ہوا۔سانحہ کنن پوشہ پورہ ہو ،ہائی پروفائل ’’سبینہ‘‘ جنسی سکینڈل ہو یا سانحہ شوپیان، سی بی آئی نے ہمیشہ حقائق سے چشم پوشی کر کے کشمیر کے تعلق سے اپنی اصلیت سے پردہ اٹھا دیا۔آج جب سانحہ شوپیان کو آٹھ سال مکمل ہوئے ہیں، آج بھی مقتولین کے اہل خانہ کے ساتھ ساتھ پوری کشمیری قوم اس دن کے منتظر ہیں جب ان کے ساتھ انصاف کیا جائے۔ حقوق البشر کے علمبردار ہی نہیں پوری بلکہ بقائے انسانیت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ شوپیان کی مظلوم بیٹیوں کی داد رسی کی جائے اور ان کے ساتھ خونخوارانہ معاملہ کرنے والے درندوں کو کشمیریوں کے اجتماعی ضمیر کی تسکین کے لئے عبرت ناک سزا دی جائے تاکہ آسیہ و نیلوفر کی بے قرار روحوں کو قرار مل سکے۔بایں ہمہ کشمیری قوم کا اس بات پر متزلزل بھروسہ ہے کہ تابندہ غنی کی طرح دیر سویر کنن پوشہ پورہ اور سانحہ شوپیان کو انجام دینے والے ملزم رسوا ہو کر اپنے کیفر کردار تک ضرور پہنچیں گے کیونکہ مظلوموں کا اشک و آہ اللہ تعالیٰ کے ہاں رائیگان نہیں جاتا،ہمیں بس صبر و ثبات اور چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔۔۔
رابطہ۔۔۔منزگام، اہرہ بل، کولگام
9070569556
 
Share This Article
Leave a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *