انسانی حقوق کمیشن میںمعاملہ 6برسوں سے التوا میں ، فائلیںبھی2014کے سیلاب کی نذر
سرینگر//28برس قبل یکم مارچ 1990 کوفوج نے شہر اس وقت لہو میں غلطان کیاجب اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کے دفتر واقع سونہ وار کی طرف بڑنے والے جلوس پر زکورہ میں فوج نے فائرنگ کی جس کے دوران27معصوم شہری جان بحق ہوئے جبکہ اسی روز شہر کے ٹینگہ پورہ میں بھی جلوس پر گولیاں چلائی گئیں جس میں ایک اندازے کے مطابق21شہری از جان ہوئے۔ ٹینگہ پورہ اور زکورہ قتل عام میں زندہ بچنے والے لوگوں اور چشم دیدوںکے دلوں پر آج بھی وہ یادیں نقش ہیںجب فوج نے شہر سرینگر کی سڑکوں کو خون سے لال کیا تھا۔بشری حقوق کے ریاستی کمیشن میں ان سانحات کا معاملہ6برسوں سے زیر التواء ہے جبکہ اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ کمیشن میں ان واقعات سے متعلق فائیلیں اور دیگر دستاویزات سیلاب کی نذر ہوگئی ہے،جس کی وجہ سے انصاف کے متلاشی متاثرین آج بھی منتظر ہیں۔
زکورہ
1990کا سال جب وادی کے طول و عرض میں احتجاجی جلوس برآمد ہو رہے تھے اور لوگ آزادی کے حق اور اس وقت کے ریاستی گورنر جگموہن انتظامیہ کی طرف سے ظلم و تشدد کے خلاف سڑکوں پر آئے دن نکل آتے تھے۔یکم مارچ 1990کوزکورہ سرینگر سے قریب1500لوگوں پر مشتمل ایک جلوس برآمد ہوااور سونہ وار میں واقع اقوام متحدہ فوجی مبصر گروپ برائے ہند وپاک کی طرف پیش قدمی کرنے لگے،تاکہ ویاں پر موجودہ اتاشیوں کو میمورنڈ پیش کیا جائے۔ چشم دید گواہوں کے مطابق ’’احتجاجی مظاہرین نے سبز جھنڈے اٹھائے تھے جبکہ کئی ایک لوگوں نے کفن نما ملبوسات بھی زیب تن کئے تھے،اور وہ اسلام و آزادی کے حق میں نعرہ بازی کرتے ہوئے جب زکورہ کراسنگ پر قریب12بجے پہنچے تو فوجی اہلکاروں نے مظاہرین پر اندھا دھند گولیاں چلائیں،جس کے نتیجے میں موقعہ پر ہی26افراد لقمہ اجل بن گئے جبکہ سینکڑوں زخمی ہوئے‘‘۔ اس سانحہ میں زندہ بچنے والے لوگوں نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر دعویٰ کیا کہ فورسز مسلسل2گھنٹوں تک گولیاں چلاتے رہے۔انہوں نے بتایا ’’ پھاگ علاقے،جن میں تیل بل،بتہ پورہ،آلسٹینگ،دنہامہ،چھترہامہ،وانہامہ اور دیگر نواحی علاقوں سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں لوگ بٹہ پورہ کے راستے سے شہر کی طرف پیش قدمی کر رہے تھے،جب 3جونیر کمشنڈ آفسران کی قیادت میں5 گاڑیوں پر مشتمل فوجی کانوائے سونہ مرگ سے سرینگر آرہی تھی اور زکورہ کراسنگ پر انہوں نے سڑک کو بند پایا۔چشم دید گواہوں کے مطابق کراسنگ پر3پولیس اہلکار تعینات تھے اور انہوں نے فوجی اہلکاروں سے کہا کہ وہ تب تک انتظار کریں،جب تک احتجاجی مظاہرین گزرتے ہیں،جس کی وجہ سے فوجی اہلکاروں اور پولیس کے درمیان سخت کلامی بھی ہوئی۔مقامی لوگوں کے مطابق فوجی افسر نے پولیس اہلکاروں کو ہدایت دی ’’اگر آپ ہمیں راستہ نہیں دینگے تو ہم آپ کو گولی مار دیں گے‘‘،جس کے بعد انہوں نے مظاہرین پر اندھا دھند طریقے سے گولیاں چلائیں،جس کے نتیجے میں11افراد ہلاک جبکہ15کے قریب صورہ میڈیکل انسٹی چیوٹ پہنچانے کے دوران راستے میں ہی لقمہ اجل بن گئے اور50کے قریب زخمی ہوئے‘‘۔ مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ درجنوں بستیوں میں ماتم کی فضا پیدا ہوئی اور میتوں کو سپرد خاک کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔واقعے کے حوالے سے2مارچ کو پولیس چوکی زکورہ(جو اب پولیس تھانہ ہے) میں ایف آئی درج کی گئی،تاہم متاثرین کا کہنا ہے کہ ملوث اہلکاروں کے خلاف کوئی بھی کاروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔مقامی لوگوں کے مطابق ’’ احتجاجی مظاہرین کا فوج کے ساتھ الجھائو نہیں ہوا تھا،تاہم فوج نے بلا اشتعال گولیاں چلائیں‘‘۔
ٹینگہ پورہ
شہر کے ٹینگہ پورہ بٹہ مالو میں اسی روز مزید5خواتین سمیت21افراد اس وقت جان بحق ہوئے جب فوج نے شام کے5بجے کے قریب بس میں سوار مسافروں کو گولیوں سے بھون ڈالا۔چشم دید گواہوں کا کہنا ہے کہ2 گاڑیاں جنوبی کشمیر کی طرف جاری تھیںاور بسوں اور ان کے چھتوں پر سوار کچھ لوگ آزادی کے حق اور ہند مخااف نعرہ بازی کر رہے تھے،جس کے دوران فوجی اہلکاروں نے بسوں پر نشانہ باندھااور گولیاں چلائیں،جس کے نتیجے میں5خواتین سمیت21افراد ہلاک ہوئے اور کئی زخمی ہوئے۔عینی شاہدین کے مطابق زخمیوں کو فوری طور پر اسپتال پہنچایا گیا۔
منتظر انصاف
اس سانحات کے حوالے سے2012میں انسانی حقوق کارکن محمد احسن اونتو نے انسانی حقوق کمیشن کا دروازہ کھٹکھٹایا اور ٹینگہ پورہ واقعے سے متعلق SHRC/27/2012 جبکہ زکورہ واقعے سے متعلقSHRC/129/2012کے تحت کیس بھی درج ہوا۔ذرائع کے مطابق اس وقت کمیشن میں ڈویژن بینچ جاوید کاوسہ اور فدا حسین نے پولیس کو اس معاملے کی نسبت تحقیقاتی رپورٹ کمیشن کے پاس پیش کرنے کی ہدایت دی اس سلسلے میں کمیشن کے پاس کوئی بھی رپورٹ پیش نہیں کی گئی۔اس حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ2014میں تباہ کن سیلاب کے دوران کمیشن کا کافی ریکارڈسیلاب کی نذر ہوگیااور اس میں ٹینگہ پورہ اور زکورہ ریکارڈ بھی شامل ہے،جس کی وجہ سے یہ معاملہ ابھی بھی انسانی حقوق کے ریاستی کمیشن میں زیر التوا ہے اوربھی بھی متاثرین اسی انتظار میں ہیںکہ انہیں انصاف فراہم ہوسکے ۔جان بحق شہریوں کے رشتہ داروں کے مطابق28برس سے وہ انصاف کے منتظر ہیں،تاہم انہیں حصول انصاف کی کوئی بھی امید نظر نہیں آرہی ہے۔
مابعد سانحات
سرینگر میںیکم مارچ1990کو پیش آئے 2سانحات کے بعد وادی کے جنوب و شمال میں احتجاجی لہر شروع ہوئی جبکہ جگموہن انتظامیہ نے کرفیو کا نفاذ عمل میں لایا۔اس دوران ایمنسٹی انٹرنیشنل نے زکورہ اور ٹینگہ پورہ قتل عام پر اپیل جاری کرتے ہوئے اس میں ملوث اہلکاروں کے خلاف کاروائی کرنے کا مطالبہ کیاتاہم کوئی بھی کاروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔ اس دوران کمیٹی برائے پہل کشمیر(کمیٹی فار انشیٹو آن کشمیر) کے4ممبران تپن بوس،دنیش موہن،گوتم نولکھا اور سمنتا بنرجی پر مشتمل ٹیم نے ایک رپورٹ’’ بھارت کا کشمیر جنگ‘‘ منظر عام پر لایا،جس میں انہوں نے ان سانحات کیلئے اس وقت کے گورنر جگموہن کو ذمہ دار قرار دیا۔