اُس روزچلہ ٔ کلان اپنی جوبن پر تھا،برف کی دبیز چادر نے تمام سڑکوں ، گلی کوچوں، گھروں کو ڈھانپ لیا تھا، ٹین اور خس پوش چھتوں سے موٹی موٹی برفانی قلمیں ( ششر گانٹھ) لٹک رہی تھیں،مطلع ابر آلود تھا گرچہ کہیں بارش برس رہی تھی نہ برف باری ہو رہی تھی۔لوگ اپنے گھروں سے نکل کر کام کاج اور روزگارکے سلسلے میںسڑکوں پررواں دواں تھے۔میری عمر کوئی گیارہ سال کی تھی۔میں صبح کے ساڑھے آٹھ یا نوبجے اپنے مسکن واقع شہر خاص پاندان سے نکل کر مٹرگشتی کر تے بہوری کدل پہنچا۔یکا یک دیکھا کہ مشتعل لوگ ٹولیوں کی صورت میں سینہ کوبی کرتے ہوئے دوکانداروں کو دوکانیںبند کر کے تجارتی سرگرمیاں موقوف کر نے کو کہہ رہے تھے اور کہا یہ جارہاتھا کہ آثار شریف حضرت بل سے موئے مقدس جناب حضرت محمد ﷺ کو اپنی جگہ سے اُٹھا لیا گیا ہے۔ کشمیر کے لوگ کیوں واویلا نہ کرتے اُن کے دلوں کا سکون و قرار موئے مقدس رسول ﷺ کا سرقہ جو ہواتھا ۔ درگاہ حضرت بل میں تشریف فرما اس رفیع الشان تبرک کے بارے میں تاریخی سند ِتصدیق مشہور اسلامی مورخ،سیرت نگار، فارسی،عربی اوراردو کے جّیدعالم مولانا شبلی نعمانیؒ جیسی مستند ہستی نے یہ لکھ کے دی ہے کہ حجتہ الوداع کے موقع پر موئے مبارک کو کچھ لوگوں نے تبرکاً حاصل کیا۔شبلی لکھتے ہیں:
ـ قربانی سے فارغ ہوکر آپ ﷺ نے معمر ابن عبداللہؓ کو بلوایا اور سر( مبارک ) کے بال منڈوائے اور فرط محبت سے جو کچھ( مقدس ) بال خود اپنے دست مبارک سے ابو طلحہ انصاریؓ اور ان کی زوجہ اُم سلیمہ ؓاوربعض لوگوں کو جو پاس بیٹھے تھے اور باقی ابو طلحہؓ نے اپنے ہاتھ سے تمام مسلمانوں میں ایک ایک دودو کرکے تقسیم کر دئے ۔ـ‘‘( سیرۃ النبیؐ ، حصہ دوم، صفحہ ۱۶۶ ، شبلی نعمانی ؒ)
اُس وقت سڑکوں پر امن وقانون کے حالات ابھی اتنے بے قابو نہ ہوئے تھے،اس لئے میں بہوری کدل میں کچھ دیر کے لئے رُکا اور معصومیت کے عالم میں حالات کا جائزہ لیتا رہا اور دفعتاً اپنی اگلی منزل کی طرف جانے سے بھی نہ رُکا ۔ جب میں چلتے چلتے شہید گنج پہنچا تودیکھا کہ لوگوں کا ایک بڑاہجوم شالی سٹور کے احاطے میںگھس کر ملازمین اور باقی لوگوں کواپنے ساتھ ملا کر احتجاجی جلوس کی صورت میں نکلا۔لوگ موئے مقدس کی بازیابی کے لئے نعرے لگا رہے تھے۔ نعرۂ تکبیر کی صداؤں کا ارتعاش فضائوں کو چیر رہاتھا ۔میں بھی جلوس کے ساتھ ہو لیا۔یہ جلوس بڈشاہ برج،گاؤکدل،بسنت باغ سے گزر کے گنپت یار پہنچا۔مسجد کے قریب کسی نے مجھے اپنے کاندھے پر بٹھایا اور مجھ سے موئے مقدس کی بازیابی اور نعرۂ تکبیر کی صدائیںبلند کرنے کے لئے کہا۔میں بھی فرطِ جذبات میں تقریباً حبہ کدل تک اُس شخص کے کندھوںپر بیٹھ کرجذباتی انداز سے بآواز طفلاںنعرے بلند کرتا رہااور لوگ دیوانہ و ار نعروں کا جواب دے رہے تھے۔ جلوس نے گنپت یار سے حبہ کدل اور اس کے بعد شہر خاص ( ڈائون ٹائون) کی طرف رُخ کیا۔راستے میں ہی پتہ چلا کہ گیارہ بارہ بجے کے قریب ریذیڈنسی روڑ لال چوک کے درمیان وقت کے حکمرانوں اور ان کے عزیز و اقارب کی جوبھی املاک احتجاجیوں کو نظر آرہی تھیں ، وہ اُن کی توڑ پھوڑ کر کے تہس نہس کر رہے تھے۔ریگل اور امریش سرینگرکے دو مشہور سینما ہال تھے جو لوگوں کے غیظ و غضب کا شکار ہو کر آگ کے شعلوں کی نذر ہو گئے۔ امریش کسی ہندو تاجر کی ملکیت تھی جس کی بیوی کے ( غیر مصدقہ روایات کے مطابق ) کشمیر کے حکمران بخشی خاندان کے کسی فرد سے تجارتی تعلقات تھے۔ امریش اور ریگل کو نذر آتش کرنے کی کارروائی برق رفتاری کے ساتھ انجام پائی،اس خبر کے بعد کہ بسکو سکول کے قریب حکمران نیشنل کانفرنس کے جنرل سیکرٹری اور اس کے کچھ حواریوں نے عوام کے اس سیلاب عظیم کا دھارا اپنی طرف موڑنے کی کوشش کی تاکہ ۱۹۴۷ ء سے ۱۹۵۳ ء تک حکمرانوں کامسلط کیا ہوا بیانیہ منجمد ہو ا۔۲۷؍ دسمبر۱۹۶۳ء کو حکمران طبقے نے بھانپ لیا کہ یہ بیانیہ کہیں پھر جاری و ساری نہ ہو، اس لئے اس انقلاب عظیم کا رُخ موڑنے کی ناکام کوشش کی۔اگست ۱۹۵۳ء سے جو بیانیہ دبا ہوا تھا، اس میں موئے مقدس ؐکے واقعہ نے ایک نئی روح پھونکی اور مؤے مقدسؐ کی بازیابی کے عوامی مطالبے کے ساتھ ساتھ اس بیانیہ کی تجدید ہونے لگی۔ خیر ہمارا جلوس ِ احتجاج آگے بڑھتا ہی گیا۔ ڈأون ٹائون کے قرب و جوار سے تمام لوگ جامع مسجد نوہٹہ کی طرف چل پڑے ۔ خبریں یہ گشت کرنے لگیں کہ ریاست کے طول و عرض سے لوگ حضرت بل کی طرف روانہ ہورہے ہیں ۔ شدت کی سردی ، یخ بستہ ہوائیں ، راستوں کا مسدود ہونا ، بھوک اور تھکا وٹ سے شکستہ یہ محبان رسول ﷺ اس سانحہ کے خلاف احتجاج کرنے کے لئے مستانہ وار شہر و دیہات سے جامع مسجد اور حضرت بل کی طرف روانہ ہورہے تھے ۔ حب ِرسول ﷺ نے اس شدت کی سردی میں بھی خو رد وکلان ، صغیر و کبیر ، حتیٰ کہ چھوٹے بچوں کو بھی ایک نئی حرارت بخشی ۔
ہر چند پیر و خستہ دل و ناتواں شُدم
ہر گہہ کہ یاد روی توُ کردم جواں
تمام مسالک اور مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے مرد و زن ، بچے اور بوڑھے ٹھٹھرتی ہوئی ٹھنڈ میں اور یخ بستہ سڑکوں پر جوق در جوق نکل آئے۔دن بھر سڑکوں پر گرم مشروبات اور کھانے پینے کے لنگر ہر جانب فعال نظر آرہے تھے۔مختلف اضلاع کے گائوں سے لوگوں نے فوراً تمام قسم کی رسد اور کھانے پینے کا انتظام کیا تھا۔ میری نسل کے نو عمروں نے کشمیر کے طول و عرض میں پہلی دفعہ اتنا عظیم عوامی احتجاج دیکھا ۔
۱۹۴۷ء سے ۱۹۵۳ ء تک فکرو نظرکو جن آہنی ہاتھوں سے دبایا گیا ،وہ تاریخ کا حصہ بن گیا ہے اور نا عاقبت اندیش فیصلوں کے خلاف جس نے بھی کوئی انگلی اُٹھانی چاہی،اس کو یا تو سنٹرل جیل کاٹھی دروازے کی طرف دھکیل دیا گیا یا ادھم پور اور کٹھوعہ کی گرم زندانی ہوائوں کے حوالے کیا گیا۔پڑھے لکھے حضرات کی ایک اچھی خاصی تعداد کو سرحد پار دھکیلا گیا۔نشرو اشاعت اور دیگر ذرائع ابلاغ اس طرح سرکاری بیانیہ کے ماتحت کر دئے گئے کہ محلہ وار حلقہ کمیٹیوں کے ہاں لائوڈ سپیکرز اور ریڈیو نصب کرکے ایک ہی بیانیہ کو اُجاگر کیا گیا۔دوسرے بیانیہ کی آہٹ یا بھنک بھی کانوں میں پڑنے نہیں دی جاتی تھی۔تاریخ شاہدعادل ہے کہ کئی لوگوں کے گھروں سے ریڈیو سیٹ ضبط کئے گئے اور ممنوعہ ریڈیو کی سماعت کر نے والوں کو پس ِدیوار زنداں کردیا گیا لیکن بادشاہ سے زیادہ وفاداری کی یہ سخت گیرانہ تگ و دو بھی ثمر بار نہ ہوئی اور ۱۹۴۹ ء سے ہی سازشوں کے جال بھنے گئے ۔ دو مقاصد کے لئے ایک عظیم اکثریت کا جو بنیادی رجحان تھا ، وہ زمین بوس کیا گیا، دوسرا جنہوں نے دائمی سلطانی ٔ کشمیرکا خواب دیکھا تھا، وہ خواب عوامی سیلاب کے زور سے تارِ عنکبوت کی طرح بکھر گیا۔ اس آتشیں ماحول میں جو لاوا پک رہا تھا وہ ۱۹۵۳ء میں پھوٹ پڑا اور کشمیر کے گلی کوچوں میں خونِ ناحق کی ہولی کھیلی گئی ۔سچ یہ ہے اس قتل وغارت کی بنیاد ’’ طایراً ابابیل ‘‘ کی آمد کے ساتھ ہی رام باغ سری نگراور گوگو بڈگام میں ڈالی گئی تھی۔ اگست ۱۹۵۳ء سے لے کر۲۷ دسمبر ۱۹۶۳ء تک بزور بازویہ باور کرایا گیا تھاکہ یہاں ایک ہی بیانیہ ہے ، تعمیر و ترقی ہو ، چاول سستا ملے، جیسا کہ آج کہا جاتا ہے کہ بے کاری دور ہوجائے۔ ۲۷ ؍ دسمبر ۱۹۶۳ ء نے یہ ثابت کردیا کہ بات وہیں کی وہیں ہے جہاں ۲۶ ؍اکتوبر ۱۹۴۷ ء کو تھی۔ موئے مقدسؐ کے واقعہ سے جو عوامی تحریک شروع ہوئی اورجس کی آبیاری یا جس کی مالی معاونت کسی ’’حوالہ رقم‘‘ نے نہیں کی بلکہ دیہات اور قصبوں کے لوگوں کی مبنی بر خیرخواہی امداد تھی اور جو ہزاروں کھر وار کی مقدار میں چاول ، آٹا،سبزی وغیرہ اجناس کی صورت میںسرینگر بھیجتے تھے کہ شہر اس تحریک کا مرکز ومحورتھا۔ سڑکوں پر جوانوں اور بچوں کی رضاکارٹولیاں خورد و نوش کا انتظام کرنے میں محو ہوتی تھیں ۔مختصر اًیہ تحریک لوگوں کے بے پناہ مظاہرہوں ، جلسے جلوسوں اور قربانی وایثار سے ۴؍ جنوری ۱۹۶۴ تک جاری رہی۔ بخشی غلام محمد کے جانشین شمس الدین کی کٹھ پتلی سرکار دوہی دن کے عوامی سیلاب میں بہنے لگی، پنڈت جواہر لال نہرو وزیر اعظم ہند ۲۸ یا ۲۹ ؍دسمبر کی شام کو آل انڈیا ریڈیو پر کشمیری قوم سے مخاطب ہوئے،لہجہ بہت دھیما اور صلح جویانہ تھا:’’کشمیریوں کے دلوں کو چونکہ ٹھیس لگی ہے ‘‘ اس لئے ان سے ہمدردی کا بھر پوراظہار کیا گیا ۔ اس مشفقانہ لب و لہجے کا ایک پس منظر بھی تھا۔ کیونکہ کچھ با اثر اور طاقت ور بیروکریٹ ( جیسا کہ آج بھی ہو رہا ہے ) اس سیلاب عظیم کو روکنے کے لئے آہنی ہاتھ استعمال کرنا چاہتے تھے اور اس وقت کے مرکزی سیکرٹری داخلہ شری وشوا ناتھ اور شری بی این مُلک، اس وقت کے آئی بی چیف ایک سخت گیر موقف اختیار کرنا چاہتے تھے، لیکن نہرو چینی فوج کی یلغار کے نتائج سے چُور چُوررہوئے تھے اور اشارات سے یہی لگتا تھا کہ وہ کشمیرکے بارے میںایک نئی پالیسی اختیار کرنا چاہتے تھے۔ ایک حصہ اس پالیسی کایہ تھا کہ بخشی غلام محمد کو سیاسی افق سے غائب کر دیا جائے اور صادق صاحب کے لئے راستہ ہموار کیا جائے۔ یاد رہے کہ کامراج پلان کے تحت بادل نخواستہ بخشی غلام محمد کو چلتا کیا گیا،اس اُ مید کے ساتھ کہ اب صادق کو زمامِ اقتدار سونپی جائے،لیکن سیاست کی شطرنج پر دائو پیچ دونوں طرف سے کھیلے جاتے تھے۔بخشی نے جس کے بارے میں عام تاثر یہ تھا کہ انہوں نے ستمبر ۱۹۶۳ء میں استعفیٰ اس یقین دہانی کے بعد دیا کہ ان کااستعفیٰ منظور نہیں کیا جائے گالیکن کشمیر اور دہلی کے درمیان ۱۹۴۷ء سے آج تک ایفائے عہد کا مظاہرہ کبھی شرمندئہ تعبیر بھی نہ ہوا ۔ اس دور کے بھارت ورش کے چانکیہ پنڈت نہرو نے کشمیرکے قدآور رہنما اوراُن کے نائب کو ایک دوسرے کے بڑی چابک دستی کے سا تھ خلاف استعمال کیا ۔ شاید یہ ساری کہانی سمیع و بصیر اللہ کی جانب سے مکافات عمل کی ابتداء تھی اُس بد تمیزی کے خلاف جو ’ ’ من تُو شدم تُو من شدی ‘‘ کے اصل مفہوم سے صریحاً نا انصافی کرکے ایک منکر کے حق میں سرعام قصیدہ گوئی کی گئی تھی۔شانِ رسول ﷺ نے اپنا جلوہ ۱۹۵۳ء اور ۱۹۶۳ء میں دکھا کے وقت کے ان دو’’ نجات دہندگان‘‘ کواسی منکر نے اپنی عاقبت یا اوقات سے واقف کرایا۔نہرو نے تند مزاج حکمران شاہی اورسیاسی ٹولے کی اس تحریک کو آہنی ہاتھوں سے دبانے کی صلاح کومسترد کردیا اورجلسے جلوسوں اور احتجاج پر کوئی قدغن نہیں لگائی ورنہ آج کی طرح خون کی ہولی کھیلنے کا احتمال تھا۔سیاسی تجزیہ نگار پنڈت نہرو کے اس ایک دم یو ٹرن کو مختلف زاویۂ نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ محض بخشی کے پر کترنے کا پلان تھا لیکن کچھ اورلوگوں کا کہنا ہے کہ چینی فوج کے ہاتھوں جو دھچکا پنڈت نہرو کو لگا تھا،جس کے بعد نہرو امریکہ اور اس کے مغربی حلیفوں کے دائرہ اثر میں آکے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کیلئے امریکہ نے جودبائو نہرو پر ڈالا ،اس کی شدت کو کم کرنے کیلئے یہ ایک ’’نئی صبح کا آغاز‘ ‘ تھا۔
(بقیہ جمعرات کے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں)