2قسط
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ محض بخشی کے پر کترنے کا پلان تھا لیکن کچھ اورلوگوں کا کہنا ہے کہ چینی فوج کے ہاتھوں جو دھچکا پنڈت نہرو کو لگا تھا،جس کے بعد نہرو امریکہ اور اس کے مغربی حلیفوں کے دائرہ اثر میں آکے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کیلئے امریکہ نے جودبائو نہرو پر ڈالا ،اس کی شدت کو کم کرنے کیلئے یہ ایک ’’نئی صبح کا آغاز‘ ‘ تھا۔صادق کی تخت نشینی کے ساتھ ہی سرینگر کے گلی کوچوں میں سرکاری محکمہ اطلاعات کی جانب سے اشتہار چسپاں کئے گئے،جن پر لکھاگیاتھا، ’ ’نئی حکومت کے نئے کام‘‘ یہ نیا بیانیہ تھا ، آزاد روی کی پالیسی کا۔اسی پالیسی کے تحت اپریل ۱۹۶۴ ء میںشیخ صاحب اور ان کے محبوس رفقاء کو رہا کرکے ان کے خلاف بدنامِ زمانہ مقدمات ’’ کشمیر سازش کیس ‘ حضرت بل قتل کیس ‘‘ وغیرہ واپس لے کر اقوم عالم کو یہ باور کرایا گیا کہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لئے پنڈت نہرو اپنی زندگی کے آخری ایام میں کوشاں ہیں۔ اس کے برعکس ایک اور رائے یہ ہے کہ بخشی غلام محمد کو ہٹا کے صادق کو مسند اقتدار پر براجمان کرکے دفعہ 370 میں جو جان تھی، مقصد اس کی سانسیں سکیڑنا اور اس کی رگوں کو اور بھی کمزور کر نا تھا تاکہ دفعہ آگے 370اپنی موت آپ مرجائے۔ جیسا کہ ہوا بھی کہ صادق کے ابتدائی حکومتی اقدامات یعنی وزیر اعظم کو وزیر اعلیٰ ، صدر ریاست کو گورنر میں تبدیل کرنا اور بھی بہت سارے دور رس اقدامات جیسے سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار اور راشٹرپتی کوگورنر کے ذریعے زمام اقتدار سونپ دینا اس دور کے ’’کار نامے ‘‘ تھے ؎
کس کا یقین کیجئے، کس کا یقین نہ کیجئے
لائے ہیں بزم ناز سے یار خبر الگ الگ
موئے مقدس ؐکی بازیابی کا سرکاری اعلان ہوتے ہی ،جو کہ میری یاداشت کے مطابق دن ڈھلنے کے بعد ہوا، شہر خاص کی گلیوں اور کوچوں میں یہ نعرہ گونجنے لگا ’’ اس کی شناخت کون کرے گا ۔۔۔ میرواعظ ( مولانا یوسف شاہ ) یا عبداللہ ‘‘ ؟ یہ نعرہ اس بات کی نشاندہی کر رہا تھا کہ ۱۹۴۷ ء سے جو بیانیہ آہنی ہاتھوں سے دبایا گیا،اس کا اعادہ ہورہا ہے،اس اعادے کی تجدید اُس وقت زور شور سے ہوئی جب شیخ محمد عبداللہ اور ان کے رفقاء کو جموں و ادھم پور جیل سے رہا کرکے لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ان کے استقبال کے لئے جموں ،ڈوڈہ، بھدرواہ ،بانہال، قاضی گنڈ، اسلام آباد اور سرینگر کی گلیوں اور سڑکوں پر اُمڈ آیا اور اس نعرے کا استقبال کیا جس کی پاداش میں قد آور لیڈر اور دنیا کی جمہوریت کے علمبردارنہرو کے یارِ خاص شیخ صاحب کو پابندسلاسل کیا گیا تھا۔ شیخ صاحب کی سرینگر آمد کے روز بانہال سے کھادن یار تک جہلم اور اس کے کناروں پر فقیدالمثال چراغاں کیا گیا جو کہ میں نے اب تک نہیں دیکھا ہے۔( کہتے ہیں کہ قدیم کشمیر میں کشمیری پنڈتوں کے طبقے سے وابستہ حکمران ویتستا یعنی جہلم میں سال کے ایک دن ایسے ہی چراغاں کا اہتمام کیا کرتے تھے)۔موئے مقدس ؐکی بازیابی کے ساتھ ہی لوگوں نے ’’ اصلی ملزم کو پیش کرو‘‘ کا مطالبہ زور وشور سے کیالیکن ایک دو غیر اہم اور غیر معروف لوگوں کو پکڑ کے جیل میں ڈال دیا گیا اور یہ پروپگنڈہ دن و رات آل انڈیا ریڈیو اور دلی کے میڈیا سے کرایا گیا کہ اصلی ملزم کو پکڑا گیالیکن یہ معمہ تا ہنوز معمہ ہی بنا ہوا ہے کہ آخر کار موئے مقدسؐ کو حضرت بل سے کس بد بخت نے دست درازی کر کے اُٹھوا لیا تھا ؟؟؟یہ بھی معمہ ہی ہے کہ موئے مقدس کیسے بازیاب ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔؟
تحریک موئے مقدسؐ کا سب سے اہم نتیجہ یہ نکلا کہ ۱۹۵۳ ء سے کشمیر کے سیاسی ماحول پر جو ہوکا عالم طاری تھا، وہ یکسر ختم ہو کے تحریک میں نئی جان ڈالی گئی اور لوگ مسئلہ کشمیر حل کرانے پر کمر بستہ ہوگئے۔ کشمیر کے سیاسی منظر پر کچھ نئے کردار اُبھرے جن میں ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور میرواعظ مولانا محمد فاروق مرحوم شامل قابل ذکر تھے۔اس کے ساتھ ہی مذ ہبی اور کچھ سماجی تنظیمیں اور ان کے کارندے بھی جیسے مولوی محمد یاسین ہمدانی، مولوی قاسم شاہ بخاری،آغا صاحب بڈگامی، مولوی محمد عباس انصاری،مولوی عبدالاحد جامی،مولوی نورالدین،مفتی محمد جلال الدین،قاری سیف الدین،مرحوم غلام احمد میر اور صوفی احمد مسلم وغیرہ منصٔہ شہود پر آگئے۔ کشمیر کے سیاسی ماحول میں ۱۹۵۳ء سے۱۹۶۳ ء تک یا تو دلی کی پشت پناہ سرکاری نیشنل کانفرنس اور حقیقی نیشنل کانفرنس جو کہ ۱۹۵۸ء میں محاذ رائے شماری کے نام سے نئے سٹیج اور نئے کاز کے ساتھ ابھری ، انہی کا کشمیر کی سیاست پر غلبہ تھا لیکن موئے مقدسؐکی ایجی ٹیشن نے نئے سیاسی عناصر کو جنم دیا جس کو بعد میں ایک نئے چیلنج کے طور پر مانا گیا اور نئے سرے سے ’’ شیر بکرا ‘‘ فسادات کو ہوا دی گئی۔تحریک موئے مقدسؐ ایک عظیم عوامی تحریک تھی،اس کے اختتام پر مجھ جیسا طفلِ مکتب اس وہم میں مبتلا تھا کہ ایسی عظیم تحریک پھر کبھی رونما نہیں ہوگی لیکن خدائی فیصلے انسانی عقل کے ماتحت کبھی نہیں رہے ہیںْ ۱۹۹۰ ء کی ابتداء میں جو ’’ چرار شریف چلو ‘‘ جیسے جلوس بر آمد ہوئے، اسی طرح ۲۰۰۸ء ،۲۰۰۱۰ ء اور پھر ۲۰۱۶ ء میں جو ہمہ گیر عوامی تحریک کی جہت رہی،اس کو دیکھ کر یہی باور ہوتاہے کہ ہم خاکی مخلوق کو خواہی نہ خواہی غیبی طاقت کے آگے سر تسلیم خم کرنا ہی پڑتا ہے۔ذوقِ طلب، ذوقِ جستجو اور منزل کی تلاش فکروعمل کی دنیا میں رواں دواں رہتی ہے، اسے ساحران فرعون سے مسحور نہیں جا سکتاہے بلکہ اندھیرے میں اس کی رہنمائی ’’ یدِ بیضا ‘‘ سے ہوتی رہتی ہے ؎
جز ذوقِ طلب ، جز ذوقِ سفر کچھ اور مجھے منظور نہیں
اے عشق بتا اب کیا ہوگا ؟ کہتے ہیں کہ منزل دور نہیں
( ختم شد)