سرینگر//پچےس سال قبل دوران حراست لاپتہ کئے گئے شہرخاص کے اےک نوجوان کے اہلخانہ آج بھی انصاف کے منتظر ہے کےونکہ آ ج تک مذ کورہ نوجوان کی مےت ورثا کے حوالے کی گئی اور نہ ہی اسکے زندہ ہونے کی امےد باقی بچی ہے ۔ہر سال کی طرح امسال بھی لاپتہ نوجوان کے قریبی رشتہ دار ایک جگہ جمع ہوئے اور اہل خانہ کی ڈھارس بندھائی ۔24 مارچ1992 کوبی اےس اےف کی اےک گشتی پارٹی نے اخوان المسلمون کے اےک کمانڈرمحمد صدےق صوفی ولد غلام محمد صوفی ساکن خا نقاہ معلی کو بمنہ سے گر فتار کرلےا جس کے بعد اس کا کو ئی اتہ پتہ نہےں چلا ہے ۔ اہل کانہ کے مطابق محمد صدےق صوفی کے ساتھ جا وےد احمد شالہ، مسرت جان، شکےل احمد بےگ، مد ثر احمدبےگ اور الطاف احمدکو بھی حراست مےں لےا گےا۔ اہل خانہ کے مطابق ان تمام نوجوانوں نے رہا ئی کے بعد کہا کہ گرفتاری کے بعد بی اےس اےف نے ہمےں ٹٹو گروانڈ بٹہ مالو پہنچا کر انٹر وگےشن کےا۔ اہل خانہ کے مطابق انہوںنے اس بات کا بھی اعتراف کرلےا کہ محمد صدےق صوفی اور جاوےد شالہ ان کے ساتھ مذ کورہ کےمپ مےں25 مارچ تک تھے لےکن حکام کا کہنا ہے کہ محمد صدےق صوفی اور جاوےد شالہ دوران حراست بڈگام سے فرار ہو گئے۔ اس وقت اگر چہ دونوں کی گمشد گی کےخلاف پوری وادی مےں دو روز تک ہڑتا ل کی گئی تاہم حکام کی طرف سے کوئی ردعمل نہےں آ ےا۔ اہلخانہ کے مطابق اگر چہ اس ضمن مےں عدالت عالےہ مےں بھی اےک عرضی دائر کی گئی تھی تاہم بی اےس اےف نے بار بار ےہی کہکر معذر ت ظاہر کہ کہ دونوں حراست سے فرار ہو گئے ۔ اہلخانہ کے مطابق اگر چہ حکومت نے ان کو ےہ معاملہ گول کرنے کےلئے نقد اور نوکر ی کی پےشکش کی تھی لےکن ہم نے اس کو ہمےشہ ٹھکرا د ےاہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں خدشہ ہے کہ حراست کے دوران ہی اس کا قتل کےا گےا ہے اور ہمےں ابھی تک لاش کےلئے ترساےا جارہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارا یہی مطالبہ رہا ہے کہ ہمیں اپنے کھوئے ہوئے لڑکے کے بارے میں بتا یا جائے تاکہ ہمارے دلوں کا اضطراب کسی حد تک کم ہوجائے“۔ انہوں نے اقوام متحدہ اور اس سے منسلک اداروں سے اپیل کی کہ وہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور گمشدگی کے واقعات کا سنجیدہ نوٹس لےتے ہوئے ہلاکتوں میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے میں اپنا رول ادا کریں۔(سی این ایس)