جنگ آزادی (۱۸۵۷ء) برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ کا ایک دردناک باب ہے جس میں جہاں ہزاروں علمائے اسلام اور کلمہ گو لوگوں پر ظلم وستم کے پہاڑ ڈھاکر بے دریغ شہید کئے گئے ،وہیں اسلامی علوم وفنون اور مسلم تہذیب وشناخت وتشخص کو زک ہی نہیں پہنچائی گئی بلکہ اسے تباہ وبرباد کر کے رکھ دیا گیا۔ اس کے بعد برصغیر میں مسلمان نہ صرف اخلاقی طور سے پست ہوتے گئے بلکہ دوسروں کے رحم وکرم پر زندگی گزارنے کے علاوہ ذہنی وفکری طور سے غلام بن کے رہ گئے۔ نیز مسلمانوں کی تخلیقی سوچ اور اجتہادی بصیرت بھی مفلوج ہوکر رہ گئی۔ اور ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا اور مایوسی چھائی ہوئی تھی۔ مسلمانوں کا علمی اور سائنسی تفوق بری طرح سے ماندپڑچکی تھی ۔سیاسی طور سے بھی کوئی اصولی رہنمائی مسلمانوںکے ہاں مفقود تھی اور فکر و نظر کے سفینے مغرب کے الحادی نظریات کی موجوں میں میں لڑکھڑا رہے تھے ۔غرض مسلمانوں میں نااُمیدی کی پرچھائیاں گلی گلی میں چھائی ہوئی تھیںاور امت مسلمہ ہر طرف پژمردگی اور زبو ںحالی کی شکار ہوچکی تھی۔ مولانا الطاف حسین حالی ؒنے انتہائی بے باکانہ انداز سے ان حالات کا نقشہ اپنی مسدس کے مقدمہ میں اس طرح کھینچا ہے ؎
پستی کا کوئی حد سے گزر نا دیکھے
اسلام کا گر کر اُبھر نا دیکھئے
اس نظم کے آخر میں مولانا الطاف حسین حالی ؒ نے حضور ﷺ سے مخاطب ہو کر اُمت کی پستی اور زبو حالی اس طرح بیان کی :
اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پہ تیری آکے عجب وقت آن پڑا ہے
ان ہی گھمبیر حالات میں چند عظیم نفوس قدسیہ نے ایک اس مردہ امت میں اُمید کی کرن جگائی جن میں سرسید احمد خانؒ ، علامہ اقبال ؒ اور مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒقابل ذکر ہیں لیکن مولانا مودودی کا کام ان سب سے منفرد ہے ۔ مولانا موصوف بیسویں صد ی کے جلیل القدر مفکر، مایہ ناز مصنف ،بے باک متکلم اسلام اور احیائے اسلام کے روح رواں تھے۔ انھوں نے اسلام کو اسی نہج اور طرز پرپیش کیا جس اسلوب اور انداز سے ماضی میں امام غزالیؒ، ابن تیمیہؒ اور شاہ ولی اللہ دہلویؒ جیسے مجددین نے پیش کیا۔مولانا مودودیؒ کو اگر انہیں اعاظم رجال کی صف میں شمار کیا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔اس لیے کہ مولانا کے کارنامے اور خدمات ہی کچھ ایسی ہی تھیں ۔انھوں نے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو اسلامی نظام کی تشریح و تفسیر میں اور اس کے قیام کی جدوجہد میں صرف کردیا ۔ انہوں نے اسلام کو دور حاضر سے ایسی ہم آہنگی پیدا کی کہ اب ہر خاص وعام اس بات پر متفق ہے کہ اسلام عصر حاضر کا دین ہے۔ سید مودودیؒ نے اس بات کی خوب وضاحت کی کہ اسلام کیسے عصر حاضر سے مطابقت(Relevance) رکھتا ہے اور اس میں وہ پوری طرح سے کامیاب بھی رہے۔انھوں نے معاشرے میں پھلی ہوئی برائیوں کو ختم کرنے کا کارگر لٹریچر تیار کر نے کے ساتھ ساتھ باطل افکار پر کاری ضرب لگا دی اور عبادات کے مفہوم کو تنگ نائیوں سے نکال کر ان کو اصل اور وسیع مفہوم میں پیش کیا ۔ وہ صحیح معنوں بے باک مفکر تھے جس نے زلزلہ عالم افکار جیسا کارنامہ انجام دیا ۔مغربی فکر و فلسفہ پر ایسا تنقیدی وعلمی جائز ہ لے کر ثابت کیا کہ یہ ہر اعتبار سے کھوکھلا ہے ۔اس وجہ سے مغربی دنیا ان کی فکر کو اپنے خلاف سب سے بڑا خوف ناک تنقیدی فکر تصور کرتا ہے ۔ مغربی مفکرین ومصنفین نے اگر چہ فکر مودودی کے تعلق سے مختلف غلط فہمیوں کو متعدد جنم دیا اور اس کو بنیاد پرستی ، رجعت پسندی اور انتہاپسندی پر مبنی فکر قرار دیتے ہیں،نیز اس فکر کو وہ تشدد آمیز نظریات سے منسوب بھی کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ مغربی اہل علم و دانش فکر مودودی کو ہمہ گیر اور دورس اثرات ڈالنے والی فکر بھی قرار دیتے ہیں ۔
"Maudoodi had a huge effect on the cause of the 20th century by insisting that islam in a pure and rigorus form could be a recipe for contemporary life"
(Jon Peter Harting, " Political Islam: A Movement in Motion", The Economist, June 2011)
ترجمعہ: مولانا مودودی نے بیسویں صدی میں دورس اثرات مرتب کیے ان کا استدلال یہ تھا کہ اسلام اپنی خالص ترین اور انتہائی توانا شکل میں دور جدید کی زندگی پر غیر معمولی حد تک اثر انداز ہونے اور اپنے پیروکاروں کو بھر پور زندگی بسر کرنے میں مدد دینے کی صلاحیت رکھتا۔
۲۰۱۴ء کے آغاز میں یہ الفاظ کسی عام پڑھے لکھے شخص کے نہیں اور نہ ہی کسی سطحی دانشور کے ہیں، بلکہ یہ الفاظ اسکول آف اورنٹل اینڈ افریکن اسٹیڈیز ان برٹش کے لکچرر اور جرمن اسکالر جان پیٹر ہارٹنگJon Peter Harting)) کے ہیں۔ انہوں نے مولانا مودودی کی زندگی اور ان کی فکر پر کم و کاست پندرہ سال تحقیق کی ہے۔اس سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ مغربی اہل علم کتنی گہرائی اور گیرائی سے فکر مودودی کا مطالعہ کررہے ہیںاور ساتھ ہی یہ بھی تجزیہ کرتے ہیںکہ اس فکر سے اب تک مشرق و مغرب پرکتنے اثرات مرتب ہوچکے ہیںاور یہ بھی کہ آنے والے زمانے میں اس فکر سے کیا اثرات پڑنے والے ہیں اور کیا نتائج نکلنے والے ہیں؟
مولانا مودودی ان چند اسلامی مفکرین میں سے ہیں جنھوں نے اغیار کے مذموم مقاصد اور مغربی فکر و فلسفہ کا نہ صرف بروقت صحیح ادراک کیا بلکہ اس کے تدارک لئے فکری جہاد بھی کیا ۔ ان کی فکر ابتدا ہی سے دفاعی نہیں بلکہ اقدامی نوعیت کی تھی اور ان کے افکار میں مرعوبیت اور معذرت پسندانہ اور مدافعانہ لہجہ کا شائبہ تک بھی نہیں تھا جو اس دور میں اہل علم اور مصنفین کا شعار بن چکا تھا ۔ مولانا مودودی نے اسلام کا جامع ،مکمل اور واضح تصور پیش کیا اور اپنی شاہ کار تحریروں کے ذریعہ فکر اسلامی کے مختلف گوشوں پر قابل فخر کام کیا ۔نیز جدید افکار و نظریات کا علمی اور تحقیقی انداز(Systematic) سے تنقیدی جائیزہ بھی لیا ۔انھوں نے جہاں مغربی فکر و تہذیب کا طلسم توڑا ،وہیں ان دانشوروں پربھی زبر دست تنقیدی حملہ کیا جو اسلام اور اس کی تہذیب کو ماضی کا قصۂ پارینہ اور فرسودہ تصور کرتے تھے ۔مولانا مودودی مغرب کے جدید افکار و فلسفوں سے واقف تھے ۔انھوں نے لادینیت ، اباحیت ، قومیت ،سرمایہ دارانہ نظام ،کمیونزم کو اپنی قلمی نشتروں سے سبوتاز کیا ۔ انھوں نے مغربی الحاد اور مغربی فکر اور جمہوریت کو تنقید کی کسوٹی پر رکھ کر بے وزن قرار دیا اور اس کے بالمقابل اسلام کا نظام حیات ، نظام سیاست ، معاشرت کو متبادل کی حیثیت سے پیش کیا اور اسلام کو زندگی کے تمام شعبوں کے لیے قابل عمل ٹھہرایا ۔
انھوں نے دنیا کے سامنے یہ با ت دلائل اور مضبوط استدلال کے ساتھ واضح کی کی جملہ انسانی مسائل کا حل اسلام کے پاس ہے ۔ ان کے نزدیک مذاہب عالم اور جدید افکار و نظریات نے دنیا میں نت نئے مسائل کو جنم دیا اور ان مسائل کو انتہائی معقول ، مربوط اورمنظم انداز میں حل کر سکتا ہے ۔ مولانا مودودی ان چند اسلامی مفکرین میں سے ہیں جنھوں نے برطانوی استعمار کے مذموم مقاصد اور مغربی فکر و فلسفہ کا نہ صرف صحیح اور بر محل ادراک کیا بلکہ اس کے تدارک لئے فکری جہاد بھی کیا ۔ان کا یہ فکری جہاد کرم آرم اسٹرانگ کے بقول آفاقی نوعیت کا تھا ۔
اسلام کو نظام حیات کے طور پر انتہائی مدلل،محقق اور جدید اسلوب میں پیش کرنا مولانا مودودی کی فکر کا اہم حصہ ہے اور یہ ان کی کوئی ذاتی رائے نہیں ہے بلکہ یہ قرآن و سنت سے مستفادہے ۔اسلام کو مکمل نظام حیات کے طور پر سب سے پہلے دنیا کے سامنے اللہ کے رسولﷺ پیش فرمایا ۔ دور نبوت کے بعد خلفائے راشدینؓ نے بھی اسلام کو مکمل نظام حیات کی رنگ میں پیش کیا ۔ ان کے بعد محدثین کرام اور مفسرین عظام نے بھی زندگی کے ہر شعبہ کے لئے قرآن و حدیث سے استفادہ کیا ۔ ائمہ اربعہ نے بھی اسلام کو سیاست ، معیشت،معاشرت ، اخلاق ، تہذیب و تمدن ، معاملات ، تعلیم ، قانون وغیرہ کے لئے رہنمائی کا واحد ذریعہ قرار دیا ہے ۔ پھر امام غزالیؒ ، ابن خلدونؒ ، المارودیؒ اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒنے اسلام کو مکمل ضابطہ حیات کی حیثیت سے دنیا کے سامنے لایا ۔ اسلام کو مکمل نظام زندگی کی حیثیت سے سمجھنا اور پیش کرنا دینی فکر کا ایک اہم جزء ہے لیکن انیسویں صدی کے آغاز سے علماء کے ذہنوں سے دینی فکر کا یہ اہم پہلو محو ہوگیا تھا ۔مولانا مودودی نے اس کو پر اعتماد اور دلائل سے اُجاگر کیا ہے اور اس فکر کو تحریکی شکل دے کر دنیاکے سامنے پیش کیا ۔اس کے ساتھ ساتھ اس فکر میں ہمہ گیریت اور عالم گیریت کا جوپہلو ہے، اس کو بھی نمایاں کیا ہے ۔ تـحریک اجتماعی جدوجہد کا نام ہے ،کسی ہدف یا نصب العین کو حاصل کرنے یا کسی منزل تک پہنچنے کے لیے جب لوگوں میں حرکت میں لانے کی مسلسل کوشش کی جائے تو اسے تحریک کہا جاتا ہے ۔ مولانا مودودی نے بتایا کہ اسلامی تحریک ایک منظم جدوجہد کا نام ہے جس کا مقصد دنیا میں اللہ تعالیٰ کے دین کو غالب کرنا اور اس کو زندگی کے تمام شعبہ جات میں نافذ کرنا ہے ۔ اس نظریہ کا بنیادی اور مرکزی محور اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کا تصور ہے اور باقی تمام معبودان باطل اور غلط افکار و نظریات کو انکار کرنا ہے۔ اس تحریک کا دستور قرآن و سنت پر مبنی ہوگا ۔ تحریک تب ہی کامیابی سے ہم کنار ہوسکتی ہے جب اس کے پاس لائق اور متحرک افراد ہوں ۔اسی لیے مولانا مودودی نے افراد سازی پر بہت زور دیا ہے کیوں کہ افراد ہی اسلامی تحریک کو منزل مقصود کی طرف لے جا سکتے ہیں ۔مولانا مرحوم ؒ فرد کی تزکیہ و تربیت اور اس کی ہمہ گیر فکر ی رہنمائی کے لیے قرآن و حدیث کو کافی سمجھتے تھے اور یہی فکر فرد کو متحرک رکھتی ہے ۔وہ فردکی تزکیہ و تربیت کے لیے روایتی خانقاہی نظام کے قائل نہیں تھے اور نہ ہی وہ اس روایتی سلسلہ تصوف کے حق میں تھے جہاں فرد کی روحانی ارتقاء کے لیے چند مخصوص مراکبہ اور سلوک کا انتظام ہوتا تھا ۔ وہ اس بیت کے بھی قائل نہیں تھے جہاں مرید اپنے مرشد کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اپنے آپ کو سپرد کردیتا ہے، بلکہ وہ اس بیت کے حامی تھے جہاں مرشد یا امیر اپنے مرید یا مامورین کو کتاب اللہ اور سنت رسولﷺ اس کے ہاتھ میں تھما دیتا ہے ۔سید مودودی کے نزدیک تذکیہ نفس ہجروں میں نہیں ہوسکتا ہے بلکہ یہ میدان عمل میں نکل کر ہی ہوسکتا ہے ۔ مولانا عبدلماجد دریا آبادی ؒ اپنے ہفتہ وار مجلہ ’ صدق‘ میں مولانا مودودی کے کام کو خوب تعریف کرتے تھے اور مولانا مودودی کو سب سے پہلے انھوں نے ہی متکلم اسلام کاخطاب دیا ۔انھوں نے مولانا مودودی کو مشورہ دیا تھا کہ آپ مولانا اشرف علی تھانویؒ کی حلقۂ بیت و ارادت میں داخل ہوجائیں ۔ مولانا مودودی نے جواب دیا کہ مولانا تھانوی کی عظمت کا میں خود بھی قائل ہوںلیکن بیت کا معاملہ ایسا ہے کہ جب شیخ اور مرید کے درمیان مناسبت ِمزاج نہ ہو، اس وقت تک نتیجہ مطلوب حاصل نہیں ہوسکتا ۔میں اپنے اور مولانا تھانوی کے درمیان اس طرح کی مناسبت محسوس نہیں کرتا اس لیے آپ کے مشورے پر عمل کرنے سے معذور ہوں ‘‘۔فرد کی تربیت وتزکیہ کے بارے میں مولانا مودودی کا کہنا ہے کہ آپ اللہ کے دین کا کام کرتے ہوئے گالیاں کھائیں مگر کسی گالی کا جواب گالی سے نہ دیں ۔ آپ کے سامنے طرح طرح کے لالچ آئیں مگر کوئی لالچ آپ کو سیدھی راہ سے نہ ہٹا سکے ۔ آپ کو راہ خدا میں چلتے ہوئے طرح طرح کے نقصانات اٹھانے پڑیں ،آپ ٹھنڈے دل سے انہیں برداشت کر لیں ۔ خوف ناک طاقتیں سامنے آکر آپ کو ڈرائیں مگر آپ کسی سے ڈر کر اپنا راستہ نہ چھوڑیں ۔تزکیہ نفس کا اس سے بڑا ذریعہ اور کوئی نہیں ہے ‘‘
مولانا مودودیؒ خداداد فکری اور عملی قابلیت کے انسان تھے اورصحیح معنوں میں ایک آفاقی مفکر تھے ، ان کے فکری سرمایہ میں ذہنوں کو مسخر کرنے کی صلاحیت ہے ۔ علماء اور اہل دانش وبینش ان کے بعض افکار سے اختلاف کرجاسکتے ہیں اور کر بھی چکے ہیں لیکن وہ ایسے بھی نہیں ہیںکہ ان کی بنیاد پر ان کے افکار سے استفادہ کرنا چھوڑ دیں ۔ آج مولانا ؒکی یوم ِولادت ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کی شخصیت اور خدمات جلیلہ کو یاد کیا جائے ۔
9045105059