سرینگر//انسٹی چیوٹ آف مینٹل ہیلتھ اینڈ نیرو سائنسز کی طرف سے سال 2016میں کی گئی تازہ سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ عزیز و اقارب کی ہلاکتوں، گرفتاریوں، شبانہ چھاپوں اورکئی مہینوں تک خون خرابہ دیکھنے کی وجہ سے کشمیری خواتین کی ایک بڑی تعداد ذہنی امراض میں مبتلا ہوگئی ہے۔وادی کے مختلف اضلاع میں کی گئی سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پچھلے 27سال کے دوران خود کو غیر محفوظ تصور کرنے والی خواتین کی ایک بڑی تعداد نے گھر پر موجود افراد کی جان بچانے کیلئے اپنی نوکریاں تک گنوادی ہیں۔ سرینگر کے مختلف علاقوں اور وادی کے دیگر اضلاع سے آنے والے مریضوں پر کی گئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جموں وکشمیر میں 12.9فیصد خواتین ذہنی امراض میں مبتلا ہیں۔ مینٹل ہیلتھ ماہرین پر مشتمل ٹیم کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اپنوں کا خون خرابہ دیکھنے والی خواتین میں 24.3فیصد مختلف ذہنی امراض پائے جاتے ہیں جبکہ ایسی خواتین، جنہوں نے ذاتی طور خون خرابہ نہیں دیکھا، یا جو ایسے واقعات سے منسلک نہیں تھی، میں صرف 9.4فیصدذہنی امراض پائے جاتے ہیں۔ ماہر نفسیات اور امراض ذہن کے ماہر ڈاکٹر ارشد حسین کی سربراہی میں6ڈاکٹروں کی ٹیم پر مشتمل گروپ نے ایک سال تک سروے مکمل کی ہے۔ سروے میں مزید کہا گیا ہے کہ پچھلے27سال کے نامساعد حالات کے دوران ہزاروں نوجوانوں کی ہلاکت،فورسز اہلکاروں کی طرف سے ہزاروں افراد کو لاپتہ کرنے، انٹروگیشن سینٹروں میں عزیز واقارب کی موت،رات کے دوران چھاپوں، فوج کی طرف سے دیہی علاقوں میں لوگوں کو زبردستی کام کرنے کیلئے لیجانااور گرفتاریوں نے کشمیری خواتین کے ذہنوں پر کافی منفی اثرات مرتب کئے ہیں اور وہ خود کوغیر محفوظ تصور کررہی ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آزادی سے چلنے پھرنے پر روک یا خوف کے سائے میں زندگی جینے سے خواتین کے ذہنوں پر گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ سروے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ نامساعد حالات کے دوران واحد کمائو کی موت سے کشمیر میں بیوہ، یتیموں اورنیم بیوہ خواتین کی ایک بڑی تعداد کھڑی ہوگئی ہے جو ذہنی امراض میں مبتلا ہیں، جن میں ذہنی پریشانی اور ذہنی دبائو سرفہرست ہے۔ سروے میں بتایا گیا ہے کہ اپنے لخت جگروں کو کھونے والی عمر رسیدہ خواتین کی ایک بڑی تعداد بھی ذہنی امراض میں مبتلا ہوگئی ہے۔ رپورٹ میںبتایا گیا ہے کہ خواتین کی ایک بڑی تعداد نے اپنے عزیز وا قارب کی حفاطت یقینی بنانے کیلئے اپنے نوکریاں بھی چھوڑ دی ہیں۔جس نے انکی اقتصادیات اور پھر انکے ذہنوں میں منفی اثرات مرتب کئے ۔ سروے میں کہا گیا ہے کہ 18سے 40سال کی عمر میں 57.7فیصد خواتین، 40سے زیادہ عمر کی خواتین میں 59 فیصد اور 60سال سے زیادہ عمر کی خواتین میں11.6فیصد ذہنی امراض میں مبتلا ہیں۔سروے پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر ارشد حسین نے کہا کہ سال 2016کے نامساعد حالات کے دوران بھی کئی خواتین نے صدر اسپتا ل اور انسٹیچوٹ آف مینٹل ہیلتھ اور نیرو سائنسز کشمیر میں علاج و معالجہ کرایا ۔ انہوں نے کہا کہ2016کے دوران کافی دیر تک چلنے والی صورتحال کے دوران مریض اسپتالوں تک نہیں پہنچ سکے مگر اس عرصے کے دوران چند خواتین اپنے بچوں کی ہلاکت کی وجہ سے ذہنی امراض میں مبتلا ہوگئیں تھیں تاہم علاج و معالجہ ملنے کی وجہ سے انکی حالت اب بہتر ہے۔