۔24برسوں بعد بھی عید پر اپنوں کاانتظار

Kashmir Uzma News Desk
5 Min Read
 سرینگر//سرینگر کے راجباغ علاقے سے تعلق رکھنے والی صبیہ آزاد24برسوں سے عید کی حقیقی خوشیوں میں شامل ہونے کا انتظار کر رہی ہے،مگر انتظار ہے کہ ختم ہی نہیں ہوتا۔ صبیہ آج بھی وہ دن بھول نہیں رہی ہے،جب صرف 6ماہ کی دلہن تھی اور1993میں اس کے شوہر ہمایوں آزاد کو مہجور نگر پل پر سرحدی حفاظتی فورس نے گرفتار کیا تھا،اور آج تک اس کا کوئی بھی آتہ پتہ نہیں چلا،تاہم صبیہ نے امید کا دامن نہیں چھوڑا،اور آج بھی اس کو اس بات کا قوی یقین ہے کہ،کہ اس کا شوہر ضرور واپس لاٹ آئے گا۔ گمشدہ ہوئے افراد کی بازیابی کیلئے دھرنے پر دیگر لواحقین کے ہمرہ بیٹھی صبیہ آزاد نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا”1993میں میرے شوہر کو سرحدی حفاظتی فورس کی137ویں بٹالین کے اہلکاروں نے مہجور پل پر گاڑی سے نیچے اتار اور انہیں حراست میں لیا“۔انہوں نے کہا کہ ابتدائی لمحات میں ہی انکے شوہر کو سخت ترین تارچر کیا گیا،اور شام کے وقت انہوں نے اپنے ہی گھر پر چھاپہ مارا۔صبیہ نے اپنی روداد جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ہم نے پولیس تھانے میں رپورٹ بھی درج کی،اور کیمپ پر بھی گئے جہاں پر وہ مقید تھے،تاہم اہل خانہ کو ملاقات کی اجازت نہیں دی۔صبیہ نے کہا”پاپا2 انٹرگیشن سینٹر کی فہرست میں ہمایوں آزاد کا نام بھی درج تھا،مگر کچھ دنوں کے بعد جب ہم وہاں گئے تو اس کا نام ہٹا لیا گیا تھا“۔صبیہ آزاد نے کہا کہ پہلے پہل فورسز افسران نے یقین دہانی کرائی تھی کہ ہمایوں آزاد کو پوچھ تاچھ کے بعد رہا کیا جائے گا،مگر انہیں دوران حراست ہی جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔صبیہ نے کہا” میرے شوہر کی گرفتاری کے بعد جب فورسز نے اہل خانہ سے انکی ملاقات میں آنا کانا کی،تو انکے ساتھ دیگر ایک نظر بند کی ملاقات کو گئے،جنہوں نے بتایا کہ ہمایوں آزاد انکے ہمراہ ہی قید تھے،اور انکی ٹانگوں میں چوٹیں بھی آئی تھی،مگر وہ بعد میں ٹھیک ہوگئی اور وہ چلنے پھیرنے کے قابل بھی ہوگئے تھے،تاہم چند دنوں سے وہ نظر نہیں آرہے ہیں،اور پراسرار طور پر لاپتہ ہوگئے“۔اس دوران ہمایوں آزاد کی والدہ بھی اپنے بیٹے کی دوران حراست اچانک لاپتہ ہونے کے غم میں نڈھال ہوگئی،اور آخر کار بیٹے کا انتظارکرتے کرتے وہ پیوندخاک ہوگئی۔ صبیہ کا کہنا ہے کہ وہ اپنے شوہر کو ایک لمحہ کیلئے بھی فراموش نہ کرسیکیں اور کچھ ماہ کے بعد جب اس کا بیٹا پیدا ہوا،تو اس کی پرورش میں اپنا سب کچھ داﺅ پر لگایا۔صبیہ نے نجی کمپنی میں ملازمت اختیار کی اور بیٹے کی پرورش اور بود باش کے علاوہ اس کو تعلیم کے نور سے بھی آراستہ کیا۔انکا کہنا ہے کہ میرا بیٹا ہوٹل منیجمنٹ کی ڈگری کررہا ہے،اور اس کو میں نے کسی بھی چیز کی کمی محسوس نہیں ہونے دیں،تاہم شفقت پدری رشتہ ہی ایسا ہے،کہ ایک والدہ اپنے بچے کیلئے کچھ بھی کریں پھر اس کو والد کے سائے کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ صبیہ کا کہنا ہے کہ جس طرح ہم اپنے اپنوں کی جدائی میں تڑپ رہے ہیں،اسی طرح وہ بھی اپنے اہل وعیال سے دور رہ کر تڑپ رہیں ہونگے۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا کی کوئی بھی ایسا قانون نہیں ہے،جس میں جبری طور پر لوگوں کو لاپتہ کیا جاتا ہو،مگر دنیا کے اس خطے میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک نئی نوئلی دلہن کو اپنے شوہر سے الگ کیا جاتا ہے اور بچے کے پیدا ہونے سے قبل ہی اس کو والد کے سائے سے محروم کیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے”ہماری اصل عید اسی روز ہوگی جب ہمارے بچھڑے ہم سے مل جائے گئے،اس دن جشن بھی منائے گئے اور سجدہ شکر بھی ادا کریں گے“۔
Share This Article
Leave a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *