اللہ رب العزت کی عطا کردہ نعمتوں رحمتوں کا تصور انسانی سوچ سے ماورا ہے۔ ان کے لئے جو ضرورتیں ہیں ان میںپانی نمبر اول آتا ہے۔ تخلیق دنیا میں بھی پانی اور مٹی کا استعمال ہوا ہے۔(قرآنی مفہوم) پانی نہ صرف ہمارے لئے بلکہ اللہ کی ہر مخلوق کے لئے ضروری ہے۔ پانی سب کے لئے اللہ کا دیا ہوا تحفہ ہے۔ اس پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ترجمہ: تو بھلا بتلاؤ تو جو پانی پیتے ہو کیا تم نے اسے بادل سے اُتارا یا ہم ہیں اتارنے والے ۔ ہم چاہیں تو اسے کھارا کردیں پھر کیوں نہیں شکر کرتے؟(سورہ واقعہ، آیت ۶۸ تا ۷۰) اجاج اس پانی کو کہتے ہیں جو کھارا ہوتا ہے۔ جیسے سمندر کا پانی ۔ اللہ رب العزت نے نہ صرف پانی کا ذکر فرمایا بلکہ شکر کرنے کی تلقین بھی فرمائی ۔ اور ہم ہیں کہ عمر بھر رات دن ، بہاروخزاں میں، شادی وغمی میں پانی پی کر بھی ، ا س کا بے تحاشہ استعمال کرکے بھی االلہ رب العالمین کا شکر بجا نہیں لا رہے ہیں۔ موسمِ گرما،شدت کی دھوپ کے ساتھ اپنے سفر کا آغاز کر چکاہے۔ بدن جھلسادینے والی گرمی میں زندگی کے ہر قدم پر پانی کی ضرورتیں انتہائی شدت اختیار کر لیتی ہیں۔ پانی کے بغیر بھلا زندگی کیسے ممکن ہوسکے گا؟ لیکن اللہ کی اس نعمت غیر مترقبہ کی ہم قدر نہیں کر تے۔ آج ہندوستان بھر میں ہر طرف پانی پانی پانی کی ہاہا کار مچی ہوئی ہے۔ سوشل میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا یا الیکٹرانک میڈیا سب جگہ ہیڈ لائن پانی ہی بنا ہوا ہے، کیو نکہ ہرگزرتے دن کے ساتھ قلت آب ایک بہت بڑا مسئلہ عالمی سطح پر بن کر ابھر رہاہے۔ندی نالوں اور برفانی پہاڑوں کے جال سے مالا مال ہندوستان 23؍بڑی ندیوں گنگا ،جمنا، سرسوتی ، برہم پتر ،کاویری، ستلج، سورن ریکھا، ہگلی،جہلم ،راوی ،کرشنا،چمبل، سون بھدر، بوڑھی گنڈک، کوسی، گھاگھرا ،گومتی، بٹوا، دامودر سمیت 263ندیاں ہمارے وشال دیش میں موجود ہیں۔ اس کے باوجود آج مہاراشٹر، کرناٹک، تلنگانہ، ہریانہ ، اُتر پردیش ، گجرات، آندھرا پردیش تقریباً آدھا ملک خشک سالی ،قحط سالی اور پانی کی بھیانک کمی سے تڑپ رہا ہے۔ اس کے لئے نہ صرف حکومت بلکہ عوام کو بھی اپنی سطح پر سوچنا چاہیے کہ پانی کی قدر دانی کے لئے کیا کیا طریقہ اختیار کیا جائے ۔
قلت آب کاذمہ دار کون؟
پانی کی کم یابی کی وجہ ہے ترقی کے نام پر بے لگام صنعت کاری۔ اُدھر پیڑ کٹنے سے جنگلات سکڑ گئے بلکہ نا پید ہوگئے۔فیکٹریوں کی گندگی ، کیمیکل زدہ کچڑا ندی نالوں اور چشموں میں ڈال کر ان کے پانی کو نہ صرف زہریلا کیا جارہاہے بلکہ ندیاں اتھل ہوگئی(گہرائی کم ہوگئی) ہیں۔تالاب پاٹ کر بلڈنگیں کھڑی کر دی گئیں ہیں اور’’ فائدہ‘‘ صرف یہ ہو کہ مٹھی بھر افسران او ربلڈروں کی تجوریاں لبا لب بھر گئیں اور عوام اپنی متاع ِ حیات سے محروم ہو کر رہ گئے۔سرکار کی اَن دیکھی،خواہ کسی پارٹی کی بھی سرکار ہو،اسے بڑھاوا ملا اور ہر حکومت کا زور اس پر رہا اور آج بھی ہے کہ دوبارہ بھی اس کی سرکار بن جائے، خواہ ماحولیات کا کچھ بھی حصہ باقی نہ رہے، اس گورکھ دھندہ کوبڑھاوا ملااور روز بروز اس میں ترقی ہوتی جارہی ہے۔ اس کے بُرے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ پانی کی کمی پانی کا شدید بحران، ذرا سی بارش باڑھ کی شکل میں نمودار ہوتی ہے۔ چونکہ ندیوں کی گہرائی کم ہوگئی ہے اور گرمیوں میں سوکھا ،ابھی موسم گرما کی ابتداء ہوئی ہے اور بھیانک سوکھا اپنی ڈراؤنی صورت میں سب کے لئے درد سر بن گیا ہے۔ اس کے لئے خود ہماری بے پرواہی ،آنکھ بند کرکے سب کا ہاتھ پر ہاتھ دھرے دیکھتے رہنا بھی کچھ کم غیر ذمہ دارانہ طرزعمل نہیں۔ اس سمت میں حکومتوں نے کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کی اور نہ ہی عوام نے ہی پانی کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس کی بربادی کو روکنے کی ذمہ داری محسوس کی اور اگر یہ بُرے حالات اسی منفی نہج پر چلتے رہے تو آئندہ ہم سب کو بوند بوند پانی کے لالے بھی پڑ سکتے ہیںکیونکہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ فطرت کے مزان میں یا کارخانۂ قدرت کے اہتمام میں انسان کی مداخلت ِبے جاہمیشہ نقصانات اورخساروں کاہی باعث رہی ہے۔ ہمارا ملک گزشتہ ایک دہائی سے خشک سالی اورموسمی عدم توازن کی مار جھیل رہا ہے۔ کئی ریاستوں میں اس باب میںحالات انتہائی ابتر ہوچکے ہیں۔ ایک طرف پانی پینے کو میسّر نہیں تو دوسری جانب کھیتی بھی نہیںہورہی ہے ۔ کئی سالوں سے دھان، کپاس ، باجرہ وغیرہ کی پیداوار شدید طور پر متاثر ہے، جس سے ملک کے سماجی اور معاشی حالات بھی کمزور تر ہورہے ہیں۔ ہماری بعض ریاستیں ہی نہیں بلکہ بہ حیثیت مجموعی ہمارا ملک پانی کی حفاظت کرپانے میں ناکام نظر آرہا ہے۔ اس خشک سالی میں بھی ضمیر فروش پانی کے ٹھیکیداروں کی چاندی ہے۔ آب رسانی سے متعلق سرکاری افسران بھی بہتی گنگا نہیں سوکھی گنگا اورجمنا میں آٹھوں پہر دلالی کے پانی سے نہا رہے ہیں۔ NDTVکے رپورٹر مسٹر رویش کمار کے مطابق لاتور گجرات کی خشک سالی میں بھی پانچ سے سات لیٹر پانی دو سے تین روپے میں فروخت کر رہے ہیں اور ایک محتاط اندازے کے مطابق اس خشک سالی میں ہر روز پچاس لاکھ روپے کی مالیت کا پانی فروخت ہو رہا ہے۔ یہ اس وقت ہے جب لاتور نگر نگم اور رضاکار تنظیموں جماعت اسلامی ،رضااکیڈمی وغیرہ وغیرہ کے ڈیڑھ سو ٹینکر عوام الناس میں رضاکارانہ طور مفت پانی تقسیم کررہے ہیں۔ ٹرینوں سے الگ پانی بھیجا جا رہاہے۔ لاتور ، مراٹھواڑہ ،تلنگانہ وغیرہ کی خشک سالی نے یہ بتادیا ہے کہ پانی کے بنا زندگی کاتصور ناممکن ہے۔ ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ آکر اس مسئلے کا حل ہے کیا؟؟؟
صنعتی ترقی چاہئے یا پانی؟اگر پانی چاہئے تو ترقی کے بارے میں آبی وسائل کو مدنظر رکھ کر منصوبہ بنانے ہوںگے۔ پیڑ اُگانے ہوں گے ، تالاب زمین پر بنانے ہوں گے۔(کاغذ اور فائلوں میں نہیں)ندی نالوں کو زندگی دینے کے لئے سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ تب ہی یہ نظم گا سکیں گے :مچھلی جل کی رانی ہے::جیون اس کا پانی ہے۔اور ساتھ میں یہ بھی گنگنا سکیں گے کہ : پانی ہوگاتبھی زندگانی ہوگی۔ جو چیز جتنی قیمتی ہوتی ہے ،اس کی عزت وقدر بھی اتنی ہی زیادہ کرنا پڑتی ہے۔ نعمتوں کی عزت نہ کرنانعمتوں کے زوال کا سبب بنتا ہے، عذاب الٰہی کسی قوم پر بلاوجہ نہیں آتا۔ اللہ نے بنی اسرائیل کو بے شمار نعمتوں سے نواز رکھا تھا اور سب سے زیادہ دولت عطا فرمائی تھی مگر نعمتوں کی عزت نہ کرنے کی وجہ کر اللہ نے بنی اسرائیل پر قحط سالی ، فقرو تنگ دستی مسلط کردی۔ان کی بد اعمالیوں کی وجہ کر مقامِ تیہ میںبنی اسرائیل پیاس سے تڑپنے لگے تو موسیٰ علیہ السلام نے بارگاہِ الہٰی میں پانی کے لئے عرض کی ۔ دعا فرمائی ، حکم خداہوا ،فلاں پتھر پر اپنا عصا مارو۔ ترجمہ: اور جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لئے پانی مانگا تو ہم نے فرمایا اس پتھر پر اپنا عصا (لاٹھی) مارو۔ فوراً اس میں سے بارہ چشمے بہہ نکلے۔ ہر گروہ نے اپنا گھاٹ پہچان لیا ۔کھا ؤ اورپیو خدا کا دیا ہوا اور زمین میں فساد نہ پھیلاؤ۔(سورہ البقرہ ، آیت ۵۹تا ۶۲،کنز الایمان)حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایسا ہی کیا اور بارہ چشمے پھوٹ نکلے اور سب نے پانی پیا۔ پانی کی قلت دور ہوگئی ۔ یہ خدائی اہتمام تھا مگر انسانی کاوش باذن اللہ ضرب ِ عصا تھی ۔
پادری ڈین اسٹیلے(Dean Staley) نے اپنی کتاب Sinal Palestineمیں پوری تفصیل لکھی ہے۔(جیوش انسائیکلو پیڈیا، جلد۱۰،صفحہ ۱۵۱،تفسیر ماجدی صفحہ۳۸،۳۷،تفسیر ضیاء القرآن،جلد اول، صفحہ ۶۰۔۶۱) پیغمبر کریم ؐ،صحابہ کرامؓ ، تابعین ، بزرگانِ دین و ائمہ مجتہدین رحہم اللہ کے یہاں پانی کا استعمال بہت احتیاط سے ہوتا تھا اور پانی کے احتیاط کے بارے میں بہت ساری احادیث اور بڑی ہستیوں کے بے پایاں زریں اقوال پائے جاتے ہیں۔ ان کو لکھنے کے لئے ایک دفتر کی ضرورت ہے مگر مضمون کی طوالت کا خوف دامن گیر ہے۔ بہر حال پانی کی اہمیت ، پانی کی قدروقیمت کے لئے قرآن و احادیث کا بیان ہی کافی ہے۔ ایک سبق آموز حکایت بھی سنتے جائیں۔ روایت ہے کہ بادشاہ ہارون رشید ایک مرتبہ شکار کے پیچھے چلتے چلتے راستہ بھٹک گئے۔ جنگل میںپیاس سے بے چین ہوگئے۔ چلتے چلتے ایک جھونپڑی نظر آئی، وہاں پہنچے ، جھونپڑی والے سے کہا پانی پلاؤ۔ اس نے پانی دیا ۔جیسے ہی بادشاہ ہارون رشید نے پینا چاہا تو اس شخص نے کہا:امیر المومنین!ذرا ایک لمحے کے لئے ٹھہریئے، پہلے یہ بتائیں کہ یہ پانی جو اس وقت آپ کو دے رہا ہوں ،اس کی آپ کیاقیمت دیں گے؟ ہارون رشید نے کہا پیاس سے میری جان جارہی ہے ۔میں ایک گلاس کے عوض اپنی آدھی حکومت دینے کو تیار ہوں۔ بادشاہ ہارون رشید نے جلدی سے وہ پانی پی لیا۔ پھر جھونپڑی والے نے سوال کیا: اگر یہ پانی پیشاب کی صورت میںرہ جائے، پیشاب نہ ہو تو آپ کیاکریں گے؟تو ہارون رشید نے کہا:اس کے علاج میں آدھی سلطنت دے دوں گا۔ آپ اندازہ لگائیں دن میں کتنے گلاس پینے اور باہر نکالنے کی صورت میںیہ نعمت عظمیٰ ہمیں اورآپ کو ملتی ہے۔ کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کتنی بڑی نعمت ہمیں بن مانگے دے رکھی ہے مگر ہم اس کے شکریہ کا حق کتنا ادا کرتے ہیں؟ اور پانی جیسی انمول شئے کو اپنے اور اوروں کے لئے بچانے کے واسطے کیا کررہے ہیں؟ہر شخص اپنا محاسبہ کرے اور ضرور اپنی سوچ اور مقدور بھر توجہ سے کام کرے ۔ ابھی گرمی کی شروعات ہی ہے، کس قدر درجہ حرارت (Temperature)بڑھ گیا ہے۔ لکھنؤ،آگرہ:۴۷ ڈگری،ناگپور: ۴۹ڈگری،کوٹہ:۴۸ڈگری، احمدآباد:۴۶ڈگری (Degrees) وغیرہ وغیرہ تک چل رہا ہے۔ ماہرین برابر ٹی وی چینلوں پر بحث و مباحثہ کر رہے ہیں اوربتا رہے ہیں کہ آنے والے سالوں میں اس سے آگے درجۂ حرارت۵۰(50 Degree Temperature)ڈگری کراس کر جائے گا کہ اے ۔سی اور پنکھے ناکام ہوجائیں گے۔ ترقی چاہئے ، ترقی چاہئے ۔گزشتہ دس سال میں دس کروڑ پیڑ کاٹے گئے ہیں،سڑکیں چوڑی کرنے اور ہائے وے (Highways)بنانے کے لئے صرف جمشیدپور سے رانچی جانے والی سڑک کو فورلین بنانے ، چوڑی کرنے کے لئے اب تک ۲۸۶۰ پیڑ کاٹ دئے گئے ہیں اور آگے بھی یہ سلسلہ چلے گا۔ قدرت کے انمول خزانے کو برباد کیا جارہا ہے ۔ ترقی کے نام پر ان دس سالوں میں ایک لاکھ پیڑ بھی نہیں لگائے گئے نہ ہی پبلک کی جانب سے اورنہ گورنمنٹ کی جانب سے۔ ہر آدمی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا ہے کہ گورنمنٹ کچھ کرے۔ خدارا گورنمنٹ کے بھروسے نہ رہیں۔ ملک کو ٹھنڈا رکھنا ہے اورپانی بچانا ہے تو میزان ِ فطرت کو محفوظ رکھیں ، ہر آدمی کوکم از کم ایک درخت ضرور لگانا ہوگا ۔ اپنے لاڈلے لعل اور لخت جگر کے لئے، اس کے محفوظ مستقبل کے لئے ۔ جب ہوا ہی صاف نہیں رہے گی اور پانی ہی نہیں بچے گا تو بچہ کہاں سانس لے گا اورکیا پیئے گا؟ سوچنا چاہئے آپ کو ترقی چاہئے یا زندگی۔ زندگی چاہئے تو آج ہی اٹھ کھڑے ہوں ۔ ہر شخص اپنی ذمہ داری نبھائے۔ بچاؤ کی ترکیبیں کرنا شروع کردیںنہ کہ صرف باتیں کرتے رہیں۔ قدرت کا انمول رتن پانی جو بلا قیمت رب العزت اپنی مخلوق کو عطا فرمارہا ہے ۔ فرمایا: ترجمہ:اور ہم نے اتارا آسمان سے پانی اندازہ کے مطابق پھر اسے زمین میں ٹھہرایا اوربے شک ہم اس کے لے جانے پر پوری طرح قادر ہیں ۔ (سورہ مؤمنون ،آیت۱۸،کنز الایمان)۔اگر بارش کا پانی آنے والے کل کے لئے محفوظ کر لیاجائے تو کوئی ایک کسان بھی پانی پانی کہتا ہوا جان نہ دے ۔ بارش کا65%پانی ہماری بے پرواہی اور بے نیازی سے بربادہو جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اللہ رب العزت کی دی ہوئی بلاقیمت نعمت پانی کا صرف 35% حصہ کام میں لاتے ہیں۔جن تالابوں کو ہم نے پاٹ کر بڑی بلڈنگیں اور فلیٹس ، بڑے بڑے مالس(Malls) کھڑے کر دیئے ہیں وہ تو اب واپسی ممکن نہیںلیکن جن تالابوں کو پاٹ کرکھیتی شروع کردی اور جو تالاب چھوٹے اور اُتھلے ہوگئے ہیں ،ان کو پھر سے تالاب بنا لیا جائے۔بچوں کو خوش اور زندہ دیکھنا چاہتے ہیں تو IPLکو بھولنا ہوگاجہاں کروڑوںلیٹر پانی برباد کیا جارہاہے۔ تالابوں کوبھرکر فیلڈ بنائی جارہی ہے۔ بڑے بڑے ڈیم کے چکرویو میں نہ پڑ کر فی الحال فوری طور پرہر گاؤں میں ایک بہت بڑا اور گہرا تالاب بنانا ہوگاتاکہ قدرت کی عطا کردہ نعمت بارش کے پانی کو جمع کیا جاسکے۔ بارش کا پانی قدرت کا تحفہ ہے۔ تحفہ کی عزت سب کرتے ہیں۔ پر یہ بلا قیمت ملتا ہے تو اس کی قدر نہیںکرتے۔ناقدری کی وجہ سے سوکھے کے عذاب کی صورت میں جھیلنا پڑ رہا ہے۔لاکھوں لاکھ انسان ، جانور تڑپ رہے ہیں۔ اگر اب بھی عقل نہیںآئی تو وہ دن بھی آنے والا ہے کسان نہیں سیاسی جوکر وں جو پانی پر بھی سیاست کررہے ہیںاور سیلفی (Selfie) لے رہے ہیں نیتاؤں کو خودکشی کرنی ہوگی یا عوام دوڑا دوڑا کر مارے گی۔ابھی تو قدرت کے عذاب سے کہر رہے ہیں۔ پھر عوام کے عتاب کا بھی شکار ہونا پڑے گا ۔پانی بچانے کی جو بھی موثر تدبیریں ممکن ہوں وہ سب عمل میں لائی جائیں، گھروں میںپانی کا استعمال کم کریں، نلوں کے بجائے برتنوں میںپانی لے کر استعمال کریں، مسجدوں میں جو نل ہیں ان کا پریشر کم کیا جائے ۔ اہلِ علم حضرات ، پروفیسرصاحبان، ٹیچرس، علمائے کرام، مسجدوں میں جمعہ کے خطباء پانی کی اہمیت و افادیت اور پانی برباد کرنے کے نقصانات کو قرآن و احادیث ، صحابہ کرامؓ ، بزرگان دین اور سائنسی نقطہ نظر کی روشنی میں لوگوں کوسمجھائیں اوربتائیں۔ حکومتیں پانی برباد کرنے والوںپر جرمانہ عائد کریں ، سیاست دان حضرات پانی نہ آنے پر ہی واویلا نہ مچائیں بلکہ پانی آنے پر ذرا محلوں کا بھی چکر لگائیںاور پانی برباد کرنے والے صارفین کو تنبیہ کریں، اسکول ،کالج اور مدرسہ کے طلبہ وطالبات کے ذریعہ جاگرتی مہم چلائیں ، غرض سب کو پانی بچاؤ ترقی پاؤ مشن میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ گھر گھر جا کر پانی بچاؤ ، زندگی بچاؤ کی مہم چلائیں۔ جو بھی بن پڑے پانی بچانے کے لئے کریں یہ ہر باشعور اور زندہ ضمیر انسان کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔ اگر ہم اس ذمہ داری سے کنی کترائیں گے تو یا د رکھیں نقصان ہم سب مل کر اٹھائیں گے ،آپ بھی زد میں آئیں گے ، ہم بھی خسارے میں آئیں گے اور کوئی نہ بچ پائے گا۔ آنے والی نسلیں بھی پانی پانی کریں گی اور ہم بھی قطرہ قطر بوندبوند کے لئے العطش العطش کر یں گے۔اللہ ہم سب کو یہ حقیقت سمجھنے اور ا س پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین، ثم آمین!
e-mail: [email protected]