معراج زرگر۔ترال کشمیر
حال ہی میں نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی (این۔ٹی۔اے۔) کی جانب سے مشتہر کئے گئے نییٹ امتحانات کے نتائج پر کئی تعلیمی ماہرین اور امیدواران کی طرف سے مبینہ بے ضابطگیوں کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے لاکھوں امیدوار پریشانی میں مبتلاء ہوئے ہیں۔ یاد رہے کہ تقریباََ 24 لاکھ امیدواروں نے ملک میں نییٹ امتحانات میں حصہ لیا تھا جس کے لئے ملک کے 571 شہروں میں تقریباََ 4750 امتحانی مراکز قائم کئے گئے تھے۔
نییٹ کے نتائج طئے شدہ تاریخ کے مطابق 14 جون 2024 کو مشتہر ہونے تھے لیکن ایک غیر متوقع اعلان کے مطابق یہ نتائج 4 جون کو پارلیمانی الیکشن کے نتائج آنے سے پہلے ہی مشتہر کئے گئے۔ اس بات کو لیکر بھی کچھ ماہرین اپنی الگ الگ آرا پیش کر رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ چونکہ نییٹ نتائج عجیب و غریب آنے والے تھے تو ممکنہ سوالات کے سیلاب کو الیکشن نتائج کے شور و شر میں کہیں دفن کرنے کے لئے ایسا کیا گیا۔
اکونامک ٹائمز میں چھپی ایک خبر کے مطابق نییٹ کے نتائج کو لیکر ماہرین اور امیدواران سخت برہم ہیں۔ کچھ لوگوں اور امیدواروں نے ملک کی عدالت عظمی تک رجوع کرنے کی بات کی ہے۔ مشہور صحافی رویش کمار نے بھی نییٹ کے عجیب و غریب نتائج کو لیکر امیدواران اور ماہرین کی تشویش کے متعلق اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ کچھ لوگ ان بے ضابطگیوں کو ایک بہت بڑے فراڈ یا پرچہ لییک سے بھی تعبیر کر رہے ہیں۔
انٹرنیٹ پر دستیاب اعداد و شمار کے مطابق سال 2024 میں 69 امیدواروں نے 720 میں سے برابر یعنی 720 نمبرات حاصل کئے ہیں, جو اس لحاظ سے ناممکن ہے کہ 2023 میں 2 امیدواروں, 2022 میں چار امیدواروں نے 715, 2021 اور 2020 میں ایک ای امیدوار نے 720, 2019 میں ایک امیدوار نے 701 اور 2018 میں ایک امیدوار نے 691 نمبرات لیکر پہلی پوزیشن حاصل کی تھی۔۔ اس سے بھی حیران کن بات یہ ہے کہ 69 امیدواروں میں 8 امیدوار ایسے ہیں جنھوں نے ایک ہی ریاست کے ایک ہی پِن کوڈ والے مرکز سے پورے کے پورے نمبرات حاصل۔کئے ہیں۔ اور مزید حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ امیدواران ایک ہی مخصوص سماجی طبقے کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اتنے سارے امیدواروں کا پورے کے پورے نمبرات حاصل کرنے کے امکانات 0.000000001 فیصد ہیں۔
دستیاب اعداد و شمار کے مطابق پچھلے سالوں میں 650 سے زیادہ نمبرات حاصل کرنے والے امیدواران کی تعداد لگ بھگ دس ہزار تک رہتی تھی اور انہیں آرام سے گورنمنٹ میڈیکل کالجوں میں داخلے ملتے تھے۔ جب کہ اس سال 30 ہزار سے زیادہ امیدواروں نے 650 سے زائد نمبرات حاصل کئے ہیں۔ اور اب ناممکن ہے کہ سب کو گورنمنٹ کالج میں داخلہ ملے۔ یہاں تک کہ پورے 720 نمبرات والے سارے امیدواران کو آل انڈیا انسٹی چیٹ آف میڈیکل سائنس کالج میں داخلہ نہیں ملے گا, کیونکہ وہاں اتنی سیٹ ہیں ہی نہیں۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس سال۔کا پرچی اتنا آسان بھی نہیں تھا کہ ایسے نتائج کا آنا ممکن ہو۔
ایک اور حیران کرنے والی بات یہ ہے کہ دوسرے نمبر پر آنے والے امیدواروں کو 718 اور 719 نمبرات دئے گئے ہیں جو تکنیکی طور نا ممکن ہے۔ کیونکہ نییٹ کا جو نمبرات دینے کا طریقہ “صحیح جواب پر چار نمبر اور غلط جواب پر منفی ایک نمبر” پر مبنی ہے اور اس حساب سے یا تو 716 نمبرات آسکتے ہیں یا 715۔ اس بات کے جواب میں نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی کا کہنا ہے کہ ایسے امیدواروں کو گریس نمبرات دئے گئے کیونکہ ان کا وقت کسی طرح ظائع ہوا تھا۔ مگر ماہرین اور امیدواران اس جواب سے مطمئن نہیں ہیں۔ ایک امیدوار کے او۔ایم۔آر پرچے کے مطابق 368 نمبرات حاصل ہو رہے ہیں اور جب نتائج ظاہر کئے گئے تو اسی امیدوار کے 453 نمبرات دکھائے گئے ہیں۔ ایک اور بے ضابطگی کچھ اس انداز کی ہے کہ ایک امیدوار نے 589 نمبرات حاصل۔کئے ییں اور اس کی آل انڈیا رینکنگ 43514 دکھائی گئی ہے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں ایک امیدوار نے 618 نمبرات حاصل کئے ہیں اور اس کی رینکنگ 61014 دکھائی گئی ہے۔ ایسی کئی ایک بے ضابطگیاں نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی کے امتحانات کرانے کے طریقہ کار پر سوالات اٹھانے پر مجبور کرتی ہیں۔
نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی نے ایک سوال۔کا جواب فراہم کرتے ہوئے کہا ہے کہ چار ریاستوں میں انہوں نے کچھ سینٹروں پر 1563 امیدواروں کو کسی وجہ سے وقت کے ضیاع کے بعد رعایتی نمبرات دئے ہیں۔ جبکہ سماجی کارکنان, ماہرین اور امیدواران اس طرح کی بے ضابطگیوں کو لیکر سخت نالاں ہیں اور مانگ کر رہے ہیں کہ ایسے مراکز پر امیدواروں کی تعداد دو ہزار ہے تو صرف 1563 امیدواروں کو ہی رعایت کیوں دی گئی۔ بہت سے لوگ اس قسم۔کی بے ضابطگیوں سے پریشان ہیں جن کی وجہ سے لاکھوں امیدواران بھی ایک زہنی کشمکش میں مبتلاء ہوچکی ہے اور نییٹ امتحانات کی شفافیت پر سوال اٹھارہے ہیں۔ بہت سے سماجی کارکن, ماہرین اور امیدواران نے عندیہ دیا ہے کہ وہ معاملے کو سپریم کورٹ تک لے جا سکتے ہیں۔
(رابطہ۔9906830807)
[email protected]