2021ء میں نا مساعد حالات کی وجہ سے ہندوستان میں مردم شماری نہ ہو سکی۔ 2011ء مردم شماری کے مطابق ملک کی کل آبادی 121 کروڑ افراد پر مشتمل تھی، جس میں مسلمانوں کی کل تعداد 17 کروڑ اور 22لاکھ یعنی کل آبادی کا 14 فیصدی شرح تناسب جتلا یا گیا۔ دسمبر 2023ء میں ہندوستان کی کل آبادی کا تخمینہ 145 کروڑ لگا یا گیا۔ 1947ء سے لیکر آج تک ملک میں مسلم آبادی میں سالانہ اضافہ (پیدائش واموات ) اوسط تین فیصدی سے زاید شرح سے ہو کر آرہا ہے جبکہ ملک میں آبادی میں سالانہ اضافہ دو فیصدی شرح سے ریکارڑ ہو کر آرہا ہے، ان حقایق کے مطابق اسوقت ملک میں مسلمانوں کی کل آبادی 30 کروڑ ہو گی جو کل آبادی کا بیس فیصدی شرح تناسب ہے۔ مسلمانوں کی صحیح آبادی کیوں نہیں جتلائی جاتی ہے، مرکزی سرکار کے متعلقہ محکمہ جات جواب دہ ہو سکتے ہیں۔
ہندوستان میں مسلمان سب سے بڑی اقلیتی قوم ہونے کے باوجود زندگی کے ہر شعبے میں پسماندہ ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ یہاں مسلمانوں کو پسماندہ رکھنے میں مرکزی و ریاستیں سرکاریں ذمہ دار ہیں۔ کانگریس جماعت ہو یا بی جے پی، جنتا دل ہو یا اور کوئی سیاسی جماعت سب نے مسلمانوں کو محض ووٹ بنک تک محدود رکھا ہے۔ ملک میں مسلمان اقتصادی، معاشی، تعلیمی و سماجی طور پر پسماندہ پڑا ہوا ہے، اسکی نشاندہی ملک کے نامور و معتبر اشخاص، جیسے جسٹس سچر کمیٹی،مشراکمیٹی ، ڈاکٹر محمود الرحمٰن کے رپورٹ میں درج ہے۔ اسوقت ملک میں 80 فیصدی مسلمان خط ِافلاس سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ 90 فیصدی مسلمانوں کے پاس کوئی زرعی اراضی نہیں ہے۔ لینڈ ہولڈ نگ (Land holdings) میں مسلمانوں کی حصہ داری پسماندہ ہندوں کے مقابلےمیں بہت کم ہے۔ سرکاری و پرائیویٹ مالی اداروں سے مسلمانوں کو قرضہ رقومات کی دستیابی نہیں ہوتی ہے حد تو یہ ہے کہ ملک میں رائج مفت راشن سکیم کے تحت محض دو فیصدی مسلمانوں کو راشن دستیاب ہے جبکہ سرکاری طور یہاں تک وزیر اعظم ہند شری نریندر مودی ہر تقریب پر یہ بیان دیتے آرہے ہیںکہ ہندوستان میں 80کروڑ لوگوں کو مفت راشن دیجاتی ہے جو کہ کل آبادی کا 56 فیصدی شرح بنتا ہے۔ دوسری طرف یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ 2014ء سے بی جے پی کی مرکزی سرکار نے ملک میں قریباً 14 کروڑ افراد کو خطِ افلاس سے نجات دلا کر آسودہ حال بنا دیا ہے، اگر ایسا واقعی ہواہے تو مفت راشن 80کروڑ افراد کو کیسے دیجاتی ہے۔ در اصل 2014ء سے خط ِافلاس کے نیچے رہنے والے ہندوستانیوں کی تعداد میں بے جا اضافہ ہوا ہے۔
ہندوستان میں مسلمان عام طور سے نا خواندہ ہیں۔ جہاں ملک میں75 فیصدی لوگ خواندہ جتلائے جاتے ہیں وہاں مسلمان صرف 35 فیصدی ہیں۔ ملک کے اطراف و اکناف میں سرکاری سکولوں میں مسلم بچے پرائمری وا ٓٹھویں جماعت میں بالترتیب 9 فیصدی اور7 فیصدی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، آج بھی ملک کے شہروں و دیہاتی علاقوں میں مسلمان بالترتیب 42 فیصدی اور 55 فیصدی تعلیم سے محروم ہیں، جبکہ گریجویٹس اور پوسٹ گریجویٹس کا شہر و دیہی علاقوں میں شرح تناسب مسلم ا ٓبادی میںمحض دو فیصدی اور ایک فیصدی پایا گیا ہے۔ اگر چہ ملک میں مدرسہ نظام مسلم بچوں کو حصول تعلیم کے لئے موجود ہے مگر ان مدارس میں مالی و ٹیکنیکی طور مناسب معاونت نہ ہونے کی وجہ سے تعلیمی نظام بُری طرح مُتاثر پڑا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں مسلمان عام طور سے اَن پڑھ ہیں۔ملک کے مرکزی سرکار کے دفاتر میں مسلم ملازمین کا گزیٹڈ و نان گزیٹڈ زمروں میں تناسب بالترتیب دو فیصدی اور چار فیصدی ہے جبکہ عیسائی لوگ (کل آبادی کا 2.3 فیصدی) اور سکھ قوم (کل آبادی کا 1.7 فیصدی) جو کُل آباد ی کا چار فیصدی شرح تناسب سے موجود ہیں ، مرکزی سرکار کے دفاتر میں آٹھ فیصدی آسامیوںپر مامورہیں۔ جبکہ مسلمان سرکاری طور کل آبادی کا 14 فیصدی ہے۔ ملک میں35 ریاستیں اور مرکزی انتظام والے علاقے ہیں۔ ان میں مسلم ملازمین کا شرح تناسب بہت کم ہے ،جس کا اندازہ ان مصدقہ اعدادو شمار سے لگایا جا سکتا ہے۔
اِن اعداد شمار سے ثابت ہو تا ہے کہ ریاستی سرکاریں مسلمانوں کے تئیں کس قدر ہمدرد ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ جموں و کشمیر میں مسلمان سرکاری و نیم سرکاری دفاتر میں مشکل سے پچاس فیصدی آسا میوں پر کام کر تے ہیں جبکہ عدالتوں میں مسلم ملازمین کا شرح تناسب نصف سے کم ہے۔ البتہ یہ سچ ہے کہ ملک میں قیدیوں کے زمروں میں مسلمانوں کی تعداد تیس فیصدی کے لگ بھگ پایا گیا ہے۔ اسلئے کہ مسلمان کو ملک کا دشمن تصور کیا جاتا ہے۔ تب ہی اگر کوئی مسلم بیماری، بے روزگاری، سختیوں کے حوالے سے اُف کر تا ہے تواس اُف کو ملک سے غداری قرار دیکر بد نصیب مسلمان کو جیل میں ٹھونس دیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ملک کے جیلوں میں بند پڑے مسلمانوں کی ایک خاصی تعداد کسی مقدمہ کے بغیر بند پڑی ہیں۔
ہندوستان میں مسلمانوں کی پسماندگی، غربت، افلاس، نا خواندہ و بربادی کے لئے جہاں مرکزی و ریاستی سرکار یں ذمہ دار ہیں وہاں مسلم سیاستکار، مذہبی و دینی رہنما بھی برابر کے ذمہ دارٹھہرائے جا سکتےہیں، جنہوں نے اپنے حقیر مفادات کے عوض عام مسلمانوں کی بھلائی و بہبودی کے لئےباہمی اتفاق و اتحاد قائم کرنے کی کوشش نہیں کی اور نہ کر سکے، جس کی وجہ سے ملک کے مسلمان زندگی کے ہر شعبے میںپسماندہ ہو کر رہ گئے ہیں ،جبکہ مسلمانوں کے دینی و مذہبی معاملات میں بلا جواز مداخلت کی جا ری ہے۔ملک میں 640 اضلاع ہیں۔ پارلیمانی (لوک سبھا) کے حلقوں کی تعداد 543 ہے۔ ایک سو سے زائد پارلیمانی حلقوں میں مسلم ووٹ کی شرح 30 فیصدی سے زیادہ ہے جبکہ 125 پارلیمانی حلقوں میں مسلم ووٹ 20 فیصدی سے تیس فیصدی ہے۔ ملک کے 60 اضلاع میں مسلم اکثریت رہائش پذیر ہیں۔ ان حقائق کے پیش نظر مسلم ارا کین لوک سبھا کی تعداد نوے کے قریب ہونی تھی جو کہ ا سوقت محض 26 ارکان پر مشتمل ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ بی جے پی کا کوئی بھی مسلم رُکن پارلیمنٹ نہیں ہے، اس سے اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ حکمران پارٹی مسلمانوں کے تئیں کس قدر خیر خواہ ہے۔
ظاہر ہے کہ جب تک اپنے ملک کے مسلمان مرکزی و ریاستی کابینوں میں بحیثیت حصہ دار شرکت نہیں کریں گے، تب تک مسلمانوں کو اقتصادی و معاشی بد حالی، نا خواندگی، بے روزگاری اور بیماری و استحصال سے نجات حاصل نہیں ہوسکتی ہے۔اس لئے مسلمانوں کو ووٹ کے حوالے سے جائز نمائندگی حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں کو آنیو الے پارلیمانی ا نتخابات میں ہر حلقہ پارلیمنٹ میں مسلم اُمیدوار کھڑا کر کے مسلم ووٹ کو بکھیرنے یااور ضایع ہونے سے بچانے کی کوشش کرنے کی بہت ضرورت ہے تاکہ اپنے لئے روشن مستقبل کی شمع جلا سکیں۔ اگر مسلمان یکجا ہو کر آنے والے پارلیمانی ا نتخابات میں ہر حلقہ میں واحد امید وار کھڑا کر تے ہیں تو کم سے کم ایک سو کے قریب مسلمان اُمیدوار کا میاب ہو کر لوک سبھا کے اراکین بن سکتے ہیں۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جب تک مسلمان مرکزی و ریاستی سرکاروں میں بحیثیت حصہ دار نہیں بن جاتے ہیں، تب تک مسلمانوں کو تباہی سے سِوا اور کچھ بھی حاصل نہیں ہوسکتا ہے۔ مسلم سیاستدانوں اور مذہبی، دینی و سماجی ذمہ داروں کے لئے لازم ہے کہ ملک کے مسلمانوں کی ترقی، بھلائی و بہبودی کو یقینی بنانے کے لئے متحدہوجائیںاور آنیو الے پارلیمانی ا نتخابات میں ہر حلقہ میں اپنا اُمیدوار کھڑا کریں۔اسی سےقوم کے تئیں مضبوط و مستحکم لائحہ عمل کی بنیاد پڑسکتی ہے۔
رابطہ9858434696 (نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)