سرینگر//بشری حقوق کمیشن کی رپورٹ میںکہا گیاہے کہ خطے میں منشیات کی لت کیلئے ماحولیاتی دبائو ،عاشقانہ معاملات،خاندانی ساخت اوربد انتظامی اہم وجوہات میں شامل ہے۔کمیشن کی تحقیق پر مبنی رپورٹ میں سرینگر تمام اضلاع میں منشیات کے عادی لوگوں میں سر فہرست ہے،جبکہ اس بات کا انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ نشے میں مبتلا40فیصد نوجوان 16 سے 25 برس کی عمر کے ہیں۔
تحقیقی اعداد و شمار
انسانی حقوق کے ریاستی کمیشن کی طرف سے’’کشمیر میں منشیات کی لت پر مبنی بھر علمی تجزیہ‘‘ کے موضوع پر رپورٹ کو منظر عام پر لایا گیا،جس میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ39.5فیصد نوجوان ماحولیاتی دبائو کے نتیجے میں منشیات کی لت میں گرفتار ہوئے ہیں، جبکہ9 5 فیصد نوجوان عشقیہ معاملات میں ناکام ہونے کی وجہ سے منشیات کا استعمال کر رہے ہیں۔یہ تحقیق وادی کے دو انسداد منشیات مراکز پولیس کنٹرول روم اور صدر اسپتال میں زیر علاج200مریضوں سے منشیات کی لت میں گرفتار ہونے کی وجوہات پر تیار کی گئی ہے۔تحقیق کے مطابق ان200مریضوں میں سے79 مریضوں کا ماننا ہے کہ آس پاس کے ماحولیاتی دبائو کے نتیجے میں وہ منشیات کی لت میں مبتلا ہوئے ،جبکہ ان میں سے 19 افراد عشقیہ معاملات میں ناکام ہونے کے بعد منشیات کی لت میں گرفتار ہوئے۔ان200مریضوں میں سے16فیصد یعنی32افراد تنائو کم کرنے اور30مریض(15) فیصد خوشی کے موقعوں پر منشیات کا استعمال کرنے کے بعد اس کے عادی بن چکے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق10فیصد مزاج کو تبدیل کرنے کے بعد نشے میں مبتلا ہوئے،اور5فیصد تعداد ان لوگوں کی ہے جنہوں نے تجرباتی بنیادوں پر منشیات کا استعمال کیا۔ تحقیق پر مبنی اس رپورٹ میں مزید اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ5 فیصد(10مریض) ایسے ہیں جنہوں نے صحت کے مسائل سے جسمانی تکالیف کو دور کرنے کیلئے منشیات کا استعمال کیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے’’ریاست میں منشیات کی لت پر منظم تحقیق کے دوران معلوم ہوا کہ40فیصد نوجوان،جن میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں شامل ہیں،16سے25برس کی عمر کے درمیان ہے‘‘۔ بشری حقوق کمیشن کی تحقیق نے منشیات کی لت کو خاندانی ساخت سے بھی جوڑ دیا ہے۔ وادی میں نشے کی لت میں مبتلا ہزاروں لوگوں میں سے90فیصد کے قریب چھوٹے کنبوں سے تعلق رکھتے ہیں،34.5فیصد ان کنبوں سے تعلق رکھتے ہیں،جن کی ماہانہ آمدنی45ہزار روپے سے زائد ہیں،اور2.5فیصد وہ لوگ بھی نشے میں گرفتار ہوئے ہیں،جن کے پاس با قاعدہ کوئی بھی ماہانہ آمدنی نہیں ہے۔ تجزیاتی رپورٹ میںکہاگیا ہے کہ نشے میں گرفتار19فیصد لوگوں کے والدین کی ماہانہ آمدنی15سے25ہزار ہے،اور18فیصد کے والدین کی ماہانہ آمدنی15ہزار یا اس سے کم ہے۔رپورٹ کے مطابق14.5فیصد مریضوں کے اہل خانہ کی ماہانہ آمدنی35سے45ہزار اور11.5فیصد لوگوں کے گھر والوں کی آمدنی25سے35ہزار کے بیچ میں ہے۔رپورٹ میںکہا گیا ہے کہ منشیات کی لت میں مبتلا لوگوں میں سرینگر سر فہرست ہے،جہاں مجموعی طور پر منشیات کے عادی لوگوں میں37فیصد ہیں،جبکہ بڈگام میں11.5 بارہمولہ میں12فیصد،اننت ناگ میں9.5فیصد,گاندربل میں2,کولگام میں0.5,بانڈی پورہ میں2.5 اور ریاست کے دیگر اضلاع میں مجموعی تعداد میں30فیصد لوگ ہیں۔رپورٹ کے مطابق سرینگر کے صدر اسپتال میں قائم انسداد منشیات مرکز میںسال2016میں2535 او پی ڈی اور224انڈور مریضوں کی تشخیص کی گئی،جبکہ ان میں 2017میں اضافہ ہوا،اور اس سال2692ائو پی ڈی اور408انڈور مریضوں کو دیکھا گیا۔گزشتہ برس سال2018میں اس میں مزید اضافہ ہوا اور3895ائو پی ڈی اور440انڈور مریضوں نے اس مرکز میں تشخٰص کرائی۔رپورٹ کے مطابق69فیصد نشہ کرنے والے لوگ12ویں جماعت تک تعلیم یافتہ ہے،جبکہ20فیصد گریجویٹ ہے۔تحقیق کے مطابق41فیصد کود روزگار یا تاجر ہیں،جبکہ35فیصد طلاب ہے۔رپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر منشیات کے عادی لوگوں میں98.5فیصد مرد اور1.5فیصد خواتین منشیات کی لت میں مبتلا ہے۔اس رپورٹ کے مطابق71فیصد غیر شادی شدہ اور29فیصد شادی شدہ مجموعی تعداد کا حصہ ہے
منشیات کا استعمال
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وادی میں وادی میں نشے کے استعمال کی روایت ہے،جبکہ چرس سماجی طور تسلیم کئے گئے مراکز،جن کو’’تکیہ‘‘ کہا جاتا تھا،پر چرس کا دھواں اڑایا جاتا تھا۔رپورٹ کے مطابق عام طور پر نشے کیلئے چرس کا استعمال کیا جاتا ہے،کیونکہ یہ آسانی سے دستیاب رہتا ہے،جبکہ ہیروئن اس پائیدان میں دوسرے نمبر اور شراب تیسرے نمبر پر ہے۔تحقیقی رپورٹ کے مطابق26فیصد نشے کیلئے چرس کا استعمال کرتے ہیں،جبکہ15فیصد ہیروئن اور19فیصد شراب کا استعمال کرتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق ’’ نشے میں مبتلاخواتین عام طور پر الپارکس،کوڈئن،ڈایزی پام،فاسفیٹ،آئیوڈکس اور نشہ آور مشروبات کا استعمال کرتی ہیں،جبکہ مالی طور پر خوشحال لوگ شراب اور برائون شوگر کے عادی بھی ہیں۔‘‘