اشفاق سعید
سرینگر//شمالی کشمیر کے سرسبز جنگلات، جو کبھی جنگلی حیات اور قدرتی سکون کی علامت سمجھے جاتے تھے، آج انسانی سرگرمیوں کی زد میں آ چکے ہیں۔ راجواڑ ہندوارہ کے جنگلات میں بنگس سڑک کی تعمیر کے دوران بڑے پیمانے پر درختوں کی کٹائی اور زمینی تبدیلیوں نے ماحولیاتی توازن کو بری طرح متاثر کیا ہے۔نتیجتاً جنگلی جانور اپنی قدرتی پناہ گاہوں سے نکل کر اب قریب کی آبادیوں کی طرف رخ کر رہے ہیں۔معروف سماجی کارکن راسخ رسول کی ایک آرٹی آئی پٹیشن میں محکمہ جنگلی حیات سوپور نے فروری 2025میں اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ 2017 سے اب تک راجواڑ علاقے میں انسان اور جنگلی جانوروں کے درمیان 128 تصادم کے واقعات پیش آ چکے ہیں جن میں 4 افراد ہلاک اور 9زخمی ہوئے۔رپورٹ کے مطابق ان برسوں کے دوران 136 سے زائد ایمرجنسی کالز (SOS) موصول ہوئیں جن میں لوگوں نے ریچھ اور تیندئوں کے دیہی علاقوں میں داخل ہونے یا حملوں کی شکایات درج کرائیں۔محکمہ وائلڈ لائف کے مطابق، 2017 سے اب تک صرف 2 مواقع پر جنگلی جانور ہلاک کئے گئے جب وہ انسانی بستیوں پر حملہ آور ہوئے۔
محکمہ نے عوام سے اپیل کی ہے کہ جنگلی جانوروں کی اطلاع فوری طور پر وائلڈ لائف کنٹرول روم سوپور یا نزدیکی پولیس سٹیشن کو دیں تاکہ بروقت کارروائی کی جاسکے۔راسخ رسول کے مطابق یہ وہی علاقہ ہے جہاں راجواڑ سے بنگس روڈ کے فیز۔I کے تحت گزشتہ چند برسوں میں سڑک کی توسیع اور جنگلاتی زمین کا استعمال کیا گیاہے۔یاد رہے کہ ماضی میں کئی ماحولیاتی ماہرین اور سماجی کارکنوں نے خبردار کیا تھا کہ اگر تعمیراتی سرگرمیوں میں ماحولیات کے تقاضوں کو نظرانداز کیا گیا تو آنے والے برسوں میں جنگلی حیات کی ہجرت زمین کے کٹائو اور قدرتی توازن کے بگاڑ جیسے سنگین اثرات دیکھنے کو ملیں گے۔ ایک سرکاری دستاویزات کے مطابق، ہندوارہ سے بنگس سڑک (فیز۔I)کی تعمیر کے لیے 14 ہیکٹر سے زائد جنگلاتی زمین وڈر بالا اور بدرکل فاریسٹ بلاک سے منتقل کی گئی۔یہ علاقہ دیودار، کیل، سپروس، فر اور پائن جیسے قیمتی درختوں سے بھرپور ہے، جو اب بڑی حد تک متاثر ہو چکا ہے۔زمین کی ساخت چونکہ ڈھلوانی ہے، اس لیے درختوں کی کٹائی سے مٹی کے تودے گرنے (landslides) اور پانی کے بہائو میں بے ترتیبی کے خطرات میں اضافہ ہو سکتا ہے ۔محکمہ جنگلات کی ابتدائی رپورٹ میں بھی خبردار کیا گیا ہے کہ یہ علاقہ نایاب جنگلی حیات جیسے ہمالیائی کالا ریچھ، تیندوا، جنگلی ہرن،، برفانی مرغ اور گیدڑ (Jackal) کی پناہ گاہ ہے۔لیکن سڑک کی تعمیر سے ان کی افزائشِ نسل اور انکے گھومنے پھرنے پر منفی اثر پڑ ا ہے۔مقامی دیہاتیوں کے مطابق 2017کے بعد، جب سے بنگس روڑ کی تعمیر کا کام شروع ہوا، جنگلی جانوروں کی آبادی کے قریب آنے کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہونے لگاہے۔پہلے جنگلی جانور دور پہاڑوں میں ہوتے تھے لیکن اب وہ نزدیکی دیہات میں کسی بھی وقت نمودار ہوسکتے ہیں۔ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی اثراتی مطالعہ (EIA) اور حفاظتی اقدامات کو یقینی بنانا لازم ہے۔راجو اڑ جنگلات کی یہ صورتحال ایک واضح اشارہ ہے کہ ترقی اور ماحولیات کے درمیان توازن قائم رکھنا اب ناگزیر ہو چکا ہے۔اگر حکومت اور محکمہ جنگلات نے بنگس روڈ کا منصوبہ نہ بنایا ہوتا، اور پہلے سے موجود ریشی ناری روڑ کو ہی وسعت دی ہوتی تو یہ خوبصورت خطہ، جو کبھی قدرتی حسن اور نایاب حیات کی پہچان تھا، آنے والے برسوں میں بھی اپنی اہمیت باقی رکھتا۔ لیکن اب روڑ کی تعمیر سے جہاں ماحولیاتی توازن بری طرح متاثر ہوا ہے اور ایک خوبصورت علاقے کو تباہ کردیا گیا ہے، یہ علاقہ آنے والے وقت میں محض خشک پہاڑوں اور اجاڑ راستوں کا منظر بن سکتا ہے۔