۔2010ہلاکتیں:کول کمیشن تحقیقاتی رپورٹ کہاں؟

Kashmir Uzma News Desk
3 Min Read
سرینگر//2010 عوامی ایجی ٹیشن کے دوران شہری ہلاکتوں سے متعلق کول کمیشن کی تحقیقاتی رپورٹ اور بعدمیں عملائی گئی کاروائیوں کو منظر عام پر لانے کیلئے عدلیہ سے رجوع کیا گیا ہے۔درخواست میںاس بات کا الزام عائد کیا گیا ہے کہ قصور واروں کو بچانے کیلئے اس رپورٹ کو صیغہ رازمیں رکھا جا رہا ہے۔ وادی میں7سال قبل2010 میں کئی ماہ تک جاری رہنے والی عوامی ایجی ٹیشن کے دوران قریب120شہری  جاں بحق ہوئے تھے اور 3ماہ سے زائد عرصے تک جاری رہنے والی ہڑتال میں فورسز اور پولیس کی گولیوں کا نشانہ بننے والے لوگوں کی تحقیقات کیلئے کول کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے فورسز اور پولیس کی طرف سے طاقت کے بیجا استعمال کیلئے سبکدوش جج جسٹس(ر) کول کو یک نفری کمیشن کا سربراہ مقرر کیا تھا۔ جسٹس(ر) کول نے اگر اچہ امسال کے اوائل میں ہی رپورٹ پیش کی تھی،تاہم اس کو منظر عام پر نہیں لایا گیا۔ریاستی ہائی کورٹ میں درخواست پیش کی گئی ہے کہ کول کمیشن کو منظر عام پر لایا جائے۔ عدالت عالیہ میں پیش کی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ کافی عرصہ کے بعد کمیشن نے رپورٹ سرکار کو پیش کی ہے،جبکہ میڈیا رپورٹوں کاحوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مذکورہ رپورٹ میں ذمہ داروں کی نشاندہی کے علاوہ2010کی ایجی ٹیشن کے دوران جان بحق ہوئے نوجوانوں کے متاثرہ کنبوں کے مسائل کو حل کرنے کیلئے تجاویز اور سفارشات کو پیش کی گئی ہیں۔ درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ ریاستی سرکار نے رپورٹ کو صیغہ رازمیں رکھا ہے اور اس بات کی جانکاری بھی نہیں دی گئی ہے کہ ذمہ داران کے خلاف کون سی کارروائی کی گئی ۔درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ تاثر نہ صرف ریاست میں امن و سلامتی کیلئے خطرہ ثابت ہو سکتا ہے بلکہ اس سے نظام اور نظام چلانے والوںمیں شفافیت وذمہ داری کااندازہ بھی لگتا ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ ریاست پر آئین کے تحت یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس طرح کے رپورٹ کو منظر عام پر لائیں،تاہم ریاست آئینی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام ہوگئی ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ عوام کو اندھیرے میں رکھا جا رہا ہے اور جن لوگوں کو کمیشن نے ملوث قرار دیا ہے انہیں بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ریاستی ہائی کورٹ میں یہ در خواست بشری حقوق کارکن ایم ایم شجاع نے دی ہے۔
 
Share This Article
Leave a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *