مودی حکومت نے برسر اقتدار آنے کے بعد عوام کی ترقی و خوش حالی کا کوئی کام تو کیا نہیں، ہاں ایک کام ضرور کیا کہ اپنے مخالفوں کے خلاف بدترین انتقامی کارروائیاں شروع کردیں اور مقدموں میں ماخوذ پریوار کے انڈر ٹرائلز مثلاًامت شاہ، سادھوی پرگیہ ٹھاکر اور سوامی اسیمانند وغیرہ وغیرہ کو سزاؤں، مقدمات اور حراست سے بچانے کے تمام کام بہ حسن و خوبی انجام دئے گئے۔ سہراب الدین قتل کیس کے مبینہ ملزم امت شاہ آج بی جے پی کے روح رواں ہیں۔ دوسری طرف سنگھ پریوار کے بدترین دشمن لالوپرساد یادو رانچی جیل میں ہیں لیکن بی جے پی کی یہ بدقسمتی حال ہی میں ہوئی کہ عدالت نے مشہور زمانہ 2جی گھوٹالے (اسکام) کے تمام ملزموں کو رہا کردیا اور وہ شاخ (جس کے سہارے بی جے پی نے یوپی اے حکومت کے خلاف بدعنوانی اور کرپشن کے الزامات کا آشیانہ بنایا تھا) ہی نہیں رہی بلکہ 2جی گھوٹالا ہی ثابت نہ ہوسکا ۔اس طرح پھر ایک بار یہ ثابت ہوگئی کہ بی جے پی اور مودی کا سیاسی مخالفین کے خلاف سارا کھیل جھوٹ، دھوکے اور بے بنیاد الزامات پر منحصر ہوتا ہے۔ 2جی کے بارے میں بی جے پی نے جس طرح بے مثال پروپیگنڈہ کیا تھا اس کے اس ڈھول کا پول کھل جانے کے بعد الزام لگانے والے یعنی وزیراعظم نریندر مودی کو مستعفی ہونا چاہئے تھا۔ مستعفی نہ بھی سہی اظہار ندامت و معذرت ضرور کرنا چاہئے تھا لیکن مودی جی کے کلچر میں ندامت و معذرت کا دور دور تک قطعی گذر نہیں ہے۔ گجرات 2002ء کے خونین فسادات (دو ہزار افراد کے قتل اور بے اندازہ تباہی، غارت گری اور مظالم وغیرہ کیلئے) ملک کی زبردست بدنامی دنیا بھر میں ہوئی تھی۔ ندامت ومعذرت تو بڑی بات ہے مودی جی نے آج تک اس پراظہار افسوس کے دوبول تک نہ بولے ۔
کھلی آنکھ سے دیکھے جانے والے یہ تمام واقعات یعنی 2جی معاملہ میں مبینہ ملزموں کا بری کیا جانا، پریوار کے ملزمان کی رہائی و برأت، حکومت کی انتقامی کارروائیاں مثلاً لالو کی سزا بھلے ہی مربوط نہ سہی لیکن حکومت یا پریوار اور مودی جی کی ذہنیت ضرور ظاہر کرتے ہیں کہ اس کے پاس اہمیت صرف اپنے مفادات کی ہے یا سنگھ کے مسلم دشمنی پر مبنی قدیم ایجنڈے کو روبہ عمل لانا ہر لحاظ سے قابل ترجیح ہے۔ 2جی مقدمہ مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلیٰ اشوک چوہان پر آدرش گھٹالے کے معاملے میں مقدمہ چلانا چاہتی تھی۔ مہاراشٹر کے بھاجپائی گورنر و دیا ساگر نے اس کی ناجائز طور پر اجازت بھی دے دی تھی لیکن عدالت نے اجازت کو منسوخ کرکے نہ صرف گورنر کی اجازت کے جواز کا پول کھول دیا بلکہ سی بی آئی کی کارروائیوں کے ناجائز ہونے پر ایک اور مہر ثبت کردی جس ساکھ کو 2جی مقدمہ کی سماعت کرنے والے جج نے بالکل ہی بے وقعت کردیا تھا ۔ حکومت نے عین ممکن ہے کہ اپنے کٹر سیاسی حریف لالو پرساد یادو کے مقدمہ میںکوئی درپردہ کھیل کھیلا ہو تا کہ عدالت سے لالو کو سزا ملے، اس قسم کے شبہات کی وجہ (امت شاہ پر چلائے جانے والے مقدمات سے امت شاہ کی برأت کیلئے کی جانی والی مبینہ سرکاری مساعی ) ہے۔ لالو کے خلاف کارروائیوں کیلئے اختیار کردہ طریقہ کار سے شکوک و شبہات کو مزید تقویت ملتی ہے، نیز جس مقدمہ کے جن الزامات میں دو وزرائے اعلیٰ لالو پرشاد یادو اور جگن ناتھ مشرا ماخوذ رہے ہوں، ان میں صرف لالو کو سزا اور مشرا کو بری کیا جانا آخر کیا معنی رکھتا ہے؟ مودی حکومت اور نتیش و بی جے پی کی ریاستی حکومت بہاراور مرکزی حکومت لالو اور ان کے خاندان کے خلاف مسلسل کارروائیاں کررہی ہیں ،اس سے یہی تاثر پیدا ہوتا ہے کہ حکومت لالو کو پھنسانے کی دانستہ کوشش کررہی ہے۔لالو بی جے پی بلکہ سارے سنگھ پریوار کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ اسی لئے لالو ہی کو نہیں ان کی اولاد کو بھی پریشان کیا جارہا ہے جس دن لالو جیل گئے اسی دن ان کی صاحبزادی میسا بھارتی اور داماد کے خلاف عدالت میں چارج شیٹ داخل کی گئی تھی۔
بی جے پی نہ صرف اقتدار بلکہ انتقام گیری کی خاطر ہر اصول اور اخلاقی پابندی توڑ سکتی ہے، 2 جی کی ناکامی سے بو کھلائی ہوئی بھاجپا نے اپنی سبکی وبے توقیری پر سے توجہ ہٹانے کیلئے طلاق ثلاثہ کے خلاف قانون کا بل تیار کردیا۔ سرحد پر ہندوستانی فوجیوں کی ہلاکتوں اور ڈاکٹر ذاکر نائک کو واپس لانے کی مساعی زور شور سے ہورہی ہے اور طلاق ثلاثہ کی مخالفت کرنے والے مسلم پرسنل لا بورڈ اور اسد الدین اویسی کے بیانات پر غیر ضروری تنقید حکومت اور متعصب میڈیا کررہا ہے لیکن 2جی پر حکومت کی ناکامی ہی نہیں بلکہ ندامت اور سبکی کی اہمیت کم کرنا آسان نہیں ہے۔ مغربی بنگال اور ٹامل ناڈو کے ضمنی انتخابات میں بی جے پی کی ذلت آمیز شکست نے اس کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کیا۔ ٹامل ناڈو میں نوٹا یعنی’’ کوئی امیدوار پسند نہیں ہے‘‘ کو بی جے پی سے بھی تقریباً ایک ہزار ووٹ زیادہ ملے۔ گجرات میں غیر تسلی بخش کامیابی کے بعد بی جے پی کو مسلسل جھٹکے لگ رہے ہیں۔
بی جے پی کو بڑا ہی زبردست جھٹکا 2جی کے بارے میں بھاجپا کے جھوٹے پروپیگنڈے کے ریتلے محل کا عدالت کے فیصلے کے ذریعہ زمین بوس ہونا ہے۔ بی جے پی کے تخلیق کردہ 2جی کے گھٹالے کے جھوٹے افسانے کے بارے میں تمام حقائق بے نقاب ہوتے ہی کانگریس کے خلاف بھاجپا کے اس جھوٹے پروپگنڈے کا بھانڈا پھوٹاکہ کس طرح بھاجپا نے رائی کا پربت بناکر ہٹلر کے ساتھی گوئبلز جیسے بدنام زمانہ پروپیگنڈہ باز کے سارے ریکارڈ توڑ کر کیا تھا۔ اس کی وجہ سے ملک بھر میں کانگریس کے خلاف لہر چل پڑی تھی (جس کو بھاجپا نے عوام کو رجھا تے ہوئے ’’مودی لہر‘‘ کا نام دیا تھا) اب جب کہ 2 جی کا راز فاش ہوچکا ہے اور ساتھ ہی 2010ء کے دور کے سی اے جی ونود رائے کی بھاجپا سے ملی بھگت اور یوپی اے حکومت کے خلاف بھاجپا کے سازشی منصوبوں میں ان کی شرکت و تعاون بھی راز نہیں رہا ہے، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ نریندر مودی بھلے ہی مستعفی نہ ہو تے کم از کم اظہار ندامت ہی کرتے یا ساالزام ونود رائے پر ہی تھوپ دیتے (جہاں اتنی قصہ کہانیاں گھڑلی گئیں ایک مبنی بر کذب کہانی اور سہی) بھاجپا کے تعاون کیلئے ونود رائے نے سی اے جی کے مقام و مرتبہ کو مٹی میں ملادیا، سی اے جی کا ہر ریاست میں جو دفتر ہوتا ہے وہ اے جی آفس کہلاتا ہے۔اس کالم نویس کو اس دفتر کا کچھ تجربہ ہے۔ اے جی کی کوئی رپورٹ کبھی واپس نہیں لی جاتی ہے اور نہ ہی کسی محکمہ کے چیلنج یا اعتراض سے کبھی بھی کسی صورت میں غلط ثابت نہیں ہوسکتی ہے، خاص طور پر اعداد و شمار صد فیصد سچ اور حقیقی ہوتے ہیں۔ حیرت ہے کہ سی اے جی نے غلط رپورٹ و اعداد و شمار پر مبنی غلط رپورٹ پیش کی تھی۔ یوپی حکومت کی شکست کا سبب بنی۔
سابق یوپی اے حکومت پر کرپشن کا زبردست الزام لگانے کے لئے ہی یوپی اے کے دور حکومت میں سی اے جی نے بھاجپا کی مدد کے لئے یوں تو کئی رپورٹس میں حکومت کو مورد الزام ٹھہرایا تھا لیکن 2جی کا 1.76 لاکھ کروڑ کے اسکام نے ملک کی سیاست کو ہلاکر رکھ دیا تھا۔ اب عدالتی فیصلے سے ثابت ہوا کہ سی اے جی نے منموہن سنگھ حکومت کے دامن پر داغ لگانے کیلئے ایک بڑے مگر جھوٹے اسکام کا ڈرامہ تخلیق کیا اور ایک ایسے گھٹالے کو جو ہوا ہی نہیں تھا، سی اے جی نے اس طرح پیش کیا کہ عدالت عظمیٰ نے بادی النظر میں اس کو درست مان کر کارروائی کی تھی لیکن سی بی آئی اپنے بے بنیاد اور غلط رپورٹ کو صحیح ثابت کرنے کے لئے ثبوت نہیں پیش کرسکی اور سی اے جی اور بھاجپا کی سازش بے نقاب ہوگئی۔ اب اس مفروضہ پر منحصر اسکام کے جھوٹ کا راست اثر یوپی اے حکومت کے خلاف کرپشن کے تمام دیگر الزامات پر پڑے گا اور اس جھوٹے اسکام کے ذریعہ مودی نے یوپی اے حکومت کو بے شک اقتدار سے بے دخل کردیا تھا لیکن اب مودی اوربھاجپا کی ساکھ، اعتباریت اور بھروسہ پورے طورختم نہ سہی بڑی حدتک متاثر ہوا ہے۔ سی اے جی ونود رائے کی اس بے مثال بے بنیاد اور جھوٹی بلکہ بے مثال رپورٹ پر ان کو سزا بھی بے مثال ملنی چاہئے۔ 2 جی اسکام سے مودی اور بھاجپا کی ساکھ جس طرح بگڑ ی ہے، اس کا ازالہ بی جے پی بلکہ سنگھ پریوار کے لئے آسان نہ ہوگا۔ 2 جی اسکام کا جھوٹ بی جے پی کو بہت مہنگا پڑسکتا ہے اور بی جے پی کے تیارکردہ اور دائرہ کردہ مقدمات بھی مشکوک اور مشتبہ ہوگئے ہیں۔
Cell: 0091 9949466582
Email: [email protected]