سرینگر// شہر کے خانیار علاقے میں27برس قبل ہوئے قتل عام سے متعلق پولیس نے بشری حقوق کے ریاستی کمیشن میں رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ سرکاری منظوری کیلئے فائل محکمہ داخلہ میں پیش کی گئی تھی تاہم اس فائل کا اردو سے انگریزی میں ترجمہ کرنے کیلئے واپس لوٹا دیا گیا اور عنقریب ہی دستاویزات کا ترجمہ کر کے محکمہ داخلہ کو سر نو پیش کئے جائیں گے۔ سرینگر کے خانیارعلاقے میں 8 مئی 1991 کو فورسز کی فائرنگ سے ہوئی ہلاکتوں پر بشری حقوق کے ریاستی کمیشن میں پولیس نے 15 جنوری کو تازہ رپورٹ پیش کی، جس میں کہا گیا کہ اس سانحہ کے حوالے سے تحقیقات مکمل کر کے چالان مکمل کیا گیاجبکہ فائل کو محکمہ داخلہ کے سامنے پیش کیا گیا، تاکہ سرکارکی طرف سے منظوری ملے۔پولیس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے’’ محکمہ داخلہ سے یہ کیس کچھ تاثرات اور سوالات کے ساتھ واپس بھیج دیا گیاجبکہ ان کے جواب دیکر،فائل کو ایک مرتبہ پھر محکمہ داخلہ کے پاس سرکار کی طرف سے منظوری دینے کیلئے روانہ کیا گیا‘‘۔ پولیس کی طرف سے بشری حقوق کے ریاستی کمیشن میں پیش کئے گئے رپورٹ میں کہا گیا محکمہ داخلہ کی طرف سے ایک مرتبہ پھر اس فائل کو زیر مکتوب نمبرHOME/pros/23/2017/5225محرر14دسمبر2017کو ایک مرتبہ پھر واپس بھیج دیا گیا اور ایف آئی آر گواہوں کے بیانات،حتمی رپورٹ اور کیس میں شامل دیگر مواد کو انگریزی میں ترجمہ کرکے بھیجنے کی ہدایت دی گئی۔ رپورٹ کے مطابق آئی جی پی کشمیر کی طرف سے محکمہ داخلہ کو مذکورہ فائل متعلقہ دستاویزات کا ترجمہ مکمل کرنے کے فوری بعد ایک مرتبہ پھر پیش کی جائے گی۔اس سے قبل انسانی حقوق کارکن محمد احسن اونتو نے فروری2013میں کمیشن کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے ایک عرضی دائر کی تھی،جس میں کہا گیا’’ مذکورہ دن جب لوگ داچھی گام واقعے اور سعدہ کدل میں جان بحق لوگوں کی نعشوں کو سپرد خاک کرنے کیلئے لئے جا رہے تھے،تو علاقے میں موجود فورسز اہلکاروں نے اندھا دھند فائرنگ کی جس کے دوران قریب20افراد کے قریب جان بحق جبکہ52زخمی ہوئے‘‘۔درخواست میں کہا گیا ’’ اس واقعے میں ایک شیر خور بچہ،جس کی عمر2سال کی تھی،کے علاوہ اس کا والد بھی گولیوں سے جان بحق ہواجبکہ ایک ہی کنبے کے4 افراد بھی ہلاک ہوئے‘‘۔ عرضدہندہ نے کہا کہ اس واقعے میں مرنے والوں کی تعداد کا صیح اندازہ نہیں لگایا جاسکتا،جبکہ انہیں بعد میں بڑی مشکلات سے سپرد لحد کیا گیااور انتظامیہ نے مہلوکین کے مذہبی رسومات کو ادا کرنے کی اجازت تک نہیں دی۔درخواست میں مزید کہا ہے ’’ مقامی اور غیر مقامی میڈیا نمائندوں کو بھی جائے وقوع کی طرف جانے کی اجازت نہیں دی گئی تاہم جلوس میں پہلے سے شامل پیشہ وارانہ ذامہ داریاں نبھانے والے میڈیا کے افراد نے بھی اس بات کی رپورٹنگ کی کہ فورسز نے بلا اشتعال فائرنگ کی۔ عرضدہندہ نے مزید کہا کہ واقعے کے کچھ دیر بعد جب لوگوں نے گھروں کی راہ لی تو نوہٹہ سے آنے والے فورسز اہلکاروں نے ان پر بھی فائرنگ کی،جس کی وجہ سے مزید ہلاکتیں ہوئیں اور کچھ اور لوگ زخمی ہوئے۔ عرضی میں کہا گیا کہ اس واقعے میں5خواتین بھی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ حکومت نے کچھ لوگوں کو اس قتل عام کی تحقیقات کیلئے نامزد کیا تھاتاہم لوگوں نے انہیں یہ کہہ کر مسترد کیا کہ اصل میں ان لوگوں کو مجرموں کو بچانے اور انہیں کلین چٹ دینے کیلئے نامزد کیا گیااور ہائی کورٹ کے حاضرسروس یا سبکدوش جج سے تحقیقات کا مطالبہ کیا،تاہم سرکار نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔کمیشن میں کیس کی شنوائی کے دوران22مارچ2013کو پولیس کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ اس سلسلے میں اپنی رپورٹ پیش کریں۔ فروری2016میں ایک بار پھر پولیس سے اس واقعے سے متعلق رپورٹ پیش کرنے کیلئے کہا گیا۔پولیس نے اس سلسلے میں31اگست 2017کو ایک رپورٹ پیش کی، جس میں کہا گیا کہ اس واقعے سے متعلق ایک ایف آئی آر زیر نمبر41/1991تھانہ خانیار میں درج کیا گیا ہے،جس میں21ہلاکتوںاور52افراد کے زخمی ہونے کی عبارت درج ہے۔