بلال فرقانی
سرینگر//شہر سے روزانہ کی بنیاد میں نکلنے والے کچرے کو ٹھکانے لگانے کی جگہ’اچھن ڈمپنگ گرائونڈ ‘سید پورہ میں 75 ایکڑ پر محیط ایک جگہ ہے جو روزانہ کچرے کی بے تحاشہ مقدار کی وجہ سے صحت عامہ اور ماحولیاتی بحران بن گیا ہے۔ جدید کاری کے منصوبوں کے باوجود، یہ جگہ غیر سائنسی ڈمپنگ کے طریقوں کا شکار ہے، جس کی وجہ سے زہریلے مواد، میتھین گیس کے اخراج، اور ایک وسیع علاقے پر آبادی بدبو کی وجہ سے متاثر ہورہی ہے۔ اس کے نتیجے میں رہائشیوں کے لیے سانس اور جلد کی بیماریوں جیسے صحت کے مسائل پیدا ہوئے ہیںاور یہاں تک کہ آس پاس کے رہائشیوں کے لیے سماجی بدنامی کا باعث بنے ہیں۔ 1983 میں اْس وقت کے گورنر جگموہن نے علاقے میں ایک سیٹلائٹ کالونی تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، تاہم یہ منصوبہ عملی شکل نہ لے سکا اور علاقے کی حالت آہستہ آہستہ بدتر ہو گئی۔اس وقت سرینگر میں فضلہ کم نکلتا تھا کیونکہ شہر کی آبادی کم تھی لیکن جوں جوں آبادی بڑھتی گئی شہر ی فضلہ میں بے تحاشا اضافہ ہوتا گیا اور1986 میں حکومت نے اچھن کو باقاعدہ طور پر’ لینڈ فل سائٹ‘ قرار دیا، جس کے بعد کھلے میں کچرا پھینکنے کا عمل شروع ہوا۔ یہ جگہ بنیادی طور پر ویٹ لینڈ تھی اور ابتدائی طور پر اسے عارضی حل کے طور پر استعمال کرنیکا فیصلہ کیا گیا ۔
ایکشن پلان
سرینگر کو حال ہی میں’’شہری سرمایہ کاری برائے جدت، یکجائی اور پائیداری‘‘(سی آئی ٹی آئی آئی ایس)،دوم پروگرام کے تحت منتخب کیا گیا ہے، جس کے تحت 67.24 کروڑ روپے کی لاگت سے ایک تفصیلی ایکشن پلان تیار کیا گیا ہے۔ اس منصوبے میں700 ٹن یومیہ پری پروسیسنگ یونٹ، 150 کلو میٹر یومیہ لیچیٹ ٹریٹمنٹ پلانٹ(لیچیٹ وہ مادہ ہے جو کچرے کے حیاتیاتی تحلیل کے دوران نکلتاہے) اسے پانی میں خارج کرنے سے پہلے ضرور صاف کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اس کی مقدار وقت کے ساتھ بتدریج بڑھتی جاتی ہے۔یہاں 100 ٹن یومیہ برکیٹنگ پلانٹ نصب کرنا بھی منصوبے میںشامل ہے۔ ساتھ ہی، 2.4 لاکھ گھروں اور 80,000 تجارتی اداروں کو دائرے میں لانے کیلئے’آر ایف آئی ڈی‘ کی بنیاد پر’ ٹیگنگ سسٹم‘ بھی متعارف کیا جا رہا ہے۔ایس ایم سی حکام کے مطابق، 11 لاکھ میٹرک ٹن پرانے کچرے کو ختم کرنے کے لیے بائیومائننگ کا منصوبہ شروع کیا گیا ہے۔ مستقبل میں بائیو،سی بی جی پلانٹ، بایو فینسنگ، آر ڈی ایف پلانٹ، انسولیشن پلانٹ اور سینیٹری لینڈفل سسٹم جیسے منصوبے بھی شامل ہیں۔حکام کا دعویٰ ہے کہ روزانہ چھ مرتبہ ہربل اینٹی اوڈور اسپرے کیا جاتا ہے اور فیلڈ انسپیکشن بھی معمول کا حصہ ہیں۔ تاہم، وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ غیرقانونی رہائش بھی مسئلہ کا حصہ ہے۔اگر یہ علاقہ اتنا ہی ناقابل رہائش ہے تو لوگ یہاں کیوں رہ رہے ہیں؟۔حکام نے کہا ‘‘رہائشی علاقے لینڈ فل سے 500 میٹر دور ہونے چاہئیں، لیکن لوگ خود بھی قوانین پر عمل نہیں کرتے۔حکام کے دعوے اور ایکشن پلان اپنی جگہ، لیکن اچھن ،سعد پورہ کے مکین آج بھی روزانہ کی بنیاد پر ایک زہریلے ماحول میں سانس لینے پر مجبور ہیں۔ انہیں صرف بدبو اور بیماری کا سامنا نہیں بلکہ ایک سماجی بدنامی کا بھی بوجھ اٹھانا پڑ رہا ہے،جو ان کے رشتوں، روزمرہ زندگی اور ذہنی سکون کو برباد کر رہا ہے۔یہ صورتحال صرف بدبو یا یاگندگی کا مسئلہ نہیں، بلکہ ایک مکمل انسانی بحران ہے۔ مکینوں کی صحت متاثر ہو رہی ہے، علاقے کی سماجی شناخت ختم ہو رہی ہے، اور مقامی باشندے خود کو اپنے ہی شہر میں بے بس محسوس کر رہے ہیں۔