عارف بلوچ
/
قاضی گنڈ//قاضی گنڈ سے 5کلو میٹر دورچورٹ نامی گائوں میں داخل ہوتے ہی اندھیرا ہی اندھیرا جیسا منظر نظر آتا ہے اور ہر شخص کے زبان سے ایک ہی سوال نکلتا ہے کہ آخر ہمارے اپنوں کو فوج نے کن وجوہات کی بناء پر ہم سے چھینا ۔گائوں کیلئے 18جولائی کادن زندگی کا سب سے تاریک ترین دن ثابت ہوا کیو نکہ اس دن فوج کی اندھا دھند فائر نگ سے دوخواتین سمیت 3افراد گولیاں لگنے سے جاں بحق ہو گئے جبکہ مزید سات افراد جن میں کمسن بچے بھی شامل ہیں، موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہیں ۔ گائوں والوں کو ایسا زخم لگا ہے جس نے انکی دن رات کی سدھ بدھ چھین لی ہے ۔یک منزلہ گارے سے بنے کچے مکان میں ضعیف العمر غلام حسن میرچھوٹے سے کمرے کے ایک کونے میں بیٹھے ایک آہ بھرتے ہوئے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ وادی کے ساتھ ساتھ ہمارے گائوں میں بھی غم وغصہ کی لہر جاری تھی ۔اس بیچ سوموار کا دن تھا اورنوجوانوں نے قاضی گنڈ کولگام روڑ پر گاڑیوں کی نقل و حرکت روکنے کیلئے کھارگنڈ نامی گائوں کے نزدیک پُل کو کیبل تار سے بند رکھا۔دوپہر قریباََ4:30بجے دیوسر سے فوج کی ایک گاڑی قاضی گنڈ کی جانب آگئی تاہم پل کو بند دیکھتے ہی فوج کے اہلکار مشتعل ہوئے اور وہ گاڑی سے نیچے اُتر تے ہی چوگام،کھارگنڈ اور چورٹ نامی گائوں میں داخل ہوئے اوررہائشی مکانوں و دوکانوںکی تھوڑ پھوڑ شروع کی۔مشتعل اہلکاروں نے تین لڑکوں کو گرفتار کر کے اُنہیں چورٹ کی جانب لیا تاہم چورٹ میں پہلے سے ہی جمع خواتین کی بڑی تعدد نے تینوں لڑکوں کو فوج کی چنگل سے آزاد کر کے اپنے تحویل میں لے لیا ،جس کے بعد فوج وہاں سے چلی گئی اور حالات معمول پر آگئے ۔قریباََڈیڑھ گھنٹے کے بعد فوج پھر گائوں میں داخل ہوئی اور اُنہوں نے رہائشی مکانوں پر شدیدپتھرائو شروع کیا جس کے سبب گائوں میں افراتفری مچ گئی اور لوگوں میں خوف وہراس پھیل گیا ۔اس دوران نزدیکی کھیل کے میدان میں کھیل رہے نوجوانوں پر فوج کے اہلکار ٹوٹ پڑے اور لاٹھیوں و بندوق کے بھٹوں سے مارنا شروع کیا،جس پر مقامی خواتین اپنے بچوں کو بچانے کیلئے میدان کی طرف دوڑ پڑیں ۔اسی دوران فوج کے اہلکاروں نے بندوقوں کا رُخ نہتے خواتین و بچوں کی طرف موڑا اور بے تحاشا فائرنگ کی جس کی وجہ سے قریباََ10افراد کو گولیاں لگیں اور وہ خون میں لت پت وہی پرگرے ۔60سالہ سعدہ بانو، جو اپنے 20سالہ بیٹے کو بچانے کیلئے میدان میں داخل ہوئی تھی کے گردن میں گولی لگی تھی اور اُس کی موت موقع پر ہی ہوئی ۔سعیدہ کی چھوٹی بیٹی نور جہاں نے ماں کو بچانے کیلئے ماں کی طرف دوڑ لگائی تاہم ماں تک پہنچنے سے پہلے ہی نور جہاں کے ہاتھ کو گولی نے چھلنی کر دیا ۔غلام حسن کہتے ہیںکہ فوج نے تو ایک اور جلیا نوالہ باغ کا قتل عام دہرایااور مرنے یا زخمی والے کو گولیاں پیٹ کے اُوپر لگی ہیں ۔ اُنہوں نے کہا کہ وہ ہر سرکاری مراعات کو ٹھکراتے ہیں اُنہیںصرف انصاف چاہیے۔ گائوں کی ہی ایک اور خاتون 4بچوں کی ماں 30سالہ نیوفراختر بھی فوج کی گولی کا شکار ہو کر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اُس دنیا سے چلی گئی جہاں سے آج تک کوئی بھی دوبارہ واپس نہیں لوٹاہے۔،نیلوفر کے شوہر فیاض احمد شاہ کا کہنا ہے کہ میں محنت مزدوری کر کے اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالتا رہا،ہمارا گھر ہمارے لئے خوشی کا مسکن تھا ۔اُس دن ہڑتال کی وجہ سے میں کام پرنہیں گیا ۔نمازمغرب کے قریب فوج کی طرف سے نوجوانوں کو زد کوب کر نے کی وجہ سے میری اہلیہ بھی اپنے 13سالہ بیٹے عامر کو ڈھونڈھنے کیلئے کھیل کے میدان میں پہنچی تاہم بیٹے کو دیکھنے سے قبل ہی نیلوفر فوج کی گولی کا شکار ہوئی ۔ اگر چہ اُسے نازک حالت میں ایمر جنسی اسپتال قاضی گنڈ پہنچایا گیا تاہم ڈاکٹروں کے کہنے پر ہم نے صورہ پہنچایا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاکر دم توڑ بیٹھی اور رات 12بجے ہم نے میت واپس گھر لائی۔اُنہوں نے کہا کہ ظالموں نے ہمارے گھر کی خو شیاں چھین لی ہیں ہمیں سرکاری مراعات نہیں بلکہ انصاف چاہیے ۔یہ نمائندہ جب گائوں کے تیسرے گھر میں داخل ہوا توگھر میں داخل ہوتے ہی خواتین کی آہ و بکاہ سُنائی دے رہی تھی۔کرکٹ سے بے حد لگائو اور گھر کی ضروریات کا خیال رکھنے والا آئی ٹی آئی تربیت یافتہ 26سالہ شوکت احمد بھی اس روز گولی لگنے سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اس دارفانی سے کوچ کر گیا ۔ وہ کھیل کا میدان، جہاں اُس نے اپنے کھیل کے جوہر دکھائے، اُسی میدان میں اُس کا لہو بہا ۔والدین کے سایہ سے پہلے ہی مرحوم شوکت کے بڑے بھائی مشتاق احمد ایتو نے بتایا کہ میرا بھائی گائوں والوں کا چہتا تھا اور ہر وقت ہنسی مذاق کرتا تھا ۔کر کٹ سے بے حد لگائو رکھنے والا کھیل کود کے ساتھ ساتھ گھر کی ضروریات کا بھی خیال رکھتا تھا ۔اُس دن بھی حسب معمول وہ میدان میں کھیل رہا تھا جب وہ فوج کی گولی کا شکار ہوگیا ۔اگر چہ ایک اور بھائی اسے بچانے کیلئے آگے بڑھا تاہم فوج کی اندھا دھند فائرنگ سے مذکورہ بھائی بھی شدید طور پر زخمی ہوگیا جو اس وقت بستر پر درد و کرب سے لڑرہا ہے۔اُنہوں نے کہا کہ میرا بھائی بے قصور تھا اور فوج نے ہمارے گھر کے خواب کو چکنا چور کیا ۔شوکت کی بہن شاہینہ نے روتے بلکتے ہوئے کہا کہ ہمارا بھائی ہمارے آنکھوں کاتارا تھا اور ہم سب بہنیں بھائی کو مہندی لگانے کی منتظر تھیںتاہم اس سے پہلے ہی ہمارا لخت جگر ہم سے چھینا گیا،ہمارے ارمانوں کو خاک میں ملادیا گیا ۔اُنہوں نے سوالیہ انداز میں کہا کہ مان لیجے نوجوانوں نے فوج پر پتھر بھی پھینکے ہونگے تو اُس کاجواب کیا گولیاں ہوتی ہیں ۔اُنہوں نے کہا کہ 60سالہ خاتون کو بھی نہ بخشا گیا ،یہ سب سوچے سمجھے سازش کے تحت عملایا گیا تاکہ دہشت قائم ہو۔ ایک مقامی نانوائی کا کہنا تھا کہ مہلوک شوکت نے صبح دو میٹھے کُلچے یہ کہہ کر خریدے کہ زندگی رہی تو پیسہ ادا کروں گاورنہ بخش دینا ۔ایک اور شخص کا کہنا تھا کہ مذکورہ لڑکے نے صبح ہی مقامی قبر کھودنے والے سے کہا تھا کہ میری قبر کھود کے رکھنا کیونکہ آج مجھے شہید ہونا ہے۔گائوں میں مزید 7افراد گولیاں لگنے سے بُری طرح مضروب ہیںجو مختلف اسپتالوں میں زیر علاج موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔