سرینگر// دہلی میں 17برس قبل لال قلعہ پر حملے کے الزام میں دہلی پولیس کی طرف سے گرفتار کئے گئے شہر خاص کے نوجوان بلال کاوا کے اہل خانہ اور دیگر لوگوں نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ سال 2000 میں بلال کمسن تھا اور انہیں ناکردہ گناہوں کی پاداش میں گرفتار کیاگیا۔ دہلی پولیس اور گجرات انٹی ٹیرازم اسکارڑ طرف سے گزشتہ روزگرفتار کئے گئے کشمیری نوجوان بلال کے گھر والوں نے پریس کالونی میں احتجاجی کرتے ہوئے نعرہ بازی کی۔احتجاجی مظاہرین نے کہا کہ ان پر غلط الزامات عائد کئے جا رہے ہیںاور لال قلعہ کیس،جو سال200میں رونما ہوا،میں پھسانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔مظاہرے میں شامل بلال کی والدہ نے کہا کہ17برسوں کے بعد اس کے بیٹے کو اس کیس میں دانستہ طور پر پھنسایا جا رہا ہے۔اہل خانہ کے مطابق بلال ’’فر‘‘ کاروبار کے ساتھ منسلک ہے،اور فلمستان سنیما صدر بازار دہلی میں چیملن روڑ پر انکی اپنی رہائش گاہ ہے،اور وہ آئے دن کاروبار کی وجہ سے سفر کرتا رہتا ہے۔ ان کی والدہ نے کہا’’بلال کو10جنوری کو اندرا گاندھی ہوائی اڈہ نئی دہلی سے گرفتار کیا گیااور اس وقت ان کے ساتھ صرف گھر میں تیار کی گئی سبزی اور روٹی تھی،اور یہ بالکل من گھڑت ہے کہ وہ26جنوری سے قبل کوئی بڑا حملہ کرنے کیلئے دہلی آیا تھا۔انہوں نے سوالیہ انداز میں پوچھا کہ کیا اس کے پاس کوئی ہتھیار تھا‘‘۔انہوں نے مزید کہا کہ بلال10جنوری کو دہلی میں طبی چیک آپ کیلئے جا رہے تھے،کیونکہ اسکاکالسٹرول زیادہ تھا،اس لئے ہم نے یہ طے کیا کہ اسکا علاج دہلی میں کریں گے،کیونکہ وہاں پر اپنی رہائش گاہ ہے۔ بلال احمد کی10اور6برس کی2چھوٹی اور کمسن بیٹیاں ہیں۔ احتجاج کے دوران بلال احمد کے رشتہ داروں نے میڈیا کے ان رپورٹوں کو بھی مسترد کیا،جن میں کہا گیا تھا کہ بلال اپنی شناخت چھپانے کیلئے اپنی وضح و قطع آئے دن تبدیل کرتے تھے۔انہوں نے سوالیہ انداز میں کہا’’کیا حملوں کے سرغنوں کو ادھار کارڈ ملتے ہیں‘‘۔انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل پولیس منیر احمد خان سے بھی ملاقات کی،اور انہوں نے ہمیں اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ وہ ہماری مدد کریں گے۔22دسمبر2000میں دہلی کے لال قلعہ پر حملے کے دوران3فورسز اہلکار ہلاک جبکہ مزید11لوگ زخمی ہوئے،جن میں اس حملے کے مبینہ سرغنہ محمد عارف بھی شامل ہیں،جنہیں کیس میں سزا دی گئی،جبکہ سیکورٹی ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ بلال اس کیس میں مفرور تھے۔