۔16اگست 2016 :جب آری پانتھن بیروہ کے4افراد گولیوں کا نشانہ بنائے گئے

Kashmir Uzma News Desk
6 Min Read
آری پانتھن // 16اگست2016جب بیروہ مقتل بنا ،آج پہلی برسی کے موقعے پرپورا علاقہ سوگوار ہے ۔متاثرہ کنبے انصاف کے طلبگار ہیں جبکہ مقامی لوگ اس واقعے کی اعلیٰ سطحی تحقیقات نہ ہونے پر سرکاری اداروں سے نالاں ہیں۔ضلع بڈگام کے آری پانتھن گائوں میں جب گذشتہ برس 16اگست کو فورسز کی اندھا دھند گولیوں کا نشانہ بن کر 4افراد لقمہ اجل ہوئے، آج تک اس سانحے کو بھلا یا نہیں جاسکا ہے ۔ آج بھی اس دن ہوئی خونریزی کا خوف لواحقین اور لوگوں میں نظر آتا ہے ۔گرچہ لواحقین کوسرکار کی جانب سے مالی معاونت بھی دی گئی ہے لیکن اپنوں کو کھو جانے کا ملال اور غم ان کے دلوں میں اس قدر گھر کر چکا ہے کہ وہکبھینکل نہ سکے گا۔اس دن گائوں میں ہوئی ہلاکتوں میں 2خواتین  بیوہ جبکہ5کم سن بچے یتیمی کے عالم میں دھکیل دئے گئے۔ آری پانتھن سانحہ میں جو 4افراد جان بحق ہوئے تھے ان میں محمد اشرف وانی ، منظور احمد لون، جاوید احمد نجار، اور جاوید احمد شیخ شامل ہیں۔ محمد اشرف وانی کی بیوہ فریدہ کے مطابق اب گھر میں بس اپنے تین بچوں کی دیکھ بھال کرنے میں لگی ہوئی ہے جبکہ اس کے شوہر کا کروڑوں کا کاروبار ان کے جانے کے بعد سے ٹھپ پڑا ہوا ہے۔ وانی کی نجی گاڑی تب سے ان کے صحن میں گردسے اٹی پڑیہے۔ اور فریدہ بے بسی کے عالم میں کھوئی ہوئی رہتی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ انہیں سرکار کی طرف سے مالی امداد دی گئی لیکن وہ سرکار سے محض مالی امداد کی طلبگار نہیں ہے بلکہ اس کے دوسرے لواحقین کی طرح ہی اس واقع کے حوالے سے انصاف کی امید ہے۔ان کے بقول اس واقع میں جو افراد ملوث تھے ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جانی چاہئے تب جاکے ان کو کچھ تسکین حاصل ہوسکتی ہے۔ اس واقع میں مارے جانے والے دوسرے نوجوان منظور احمد لون تھے ، جن کی بیوہ رخصانہ پر نم آنکھوں سے اپنے سرتاج کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ منظور کے چلے جانے کے بعد سے ان کی دنیا خالی ہو گئی ہے۔ اور اب اس نے اپنی پوری زندگی اپنے دو یتیم بچوں کی دیکھ بھال کرنے صرف کرنے کا من بنا لیا ہے۔ ان کے بقول اس کے یتیم بچے ہر پل اپنے ابا جان کی پرچھائیاں تکتے رہتے ہیں۔ انہیں تو ابھی یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ ان کے ابا ابھی لوٹ کے نہیں آئیں گے۔منظور کی ماں فاطمہ کہتی ہیں ہے کہ اب ان کے لخت جگر کا اور دوسرے شہیدوں کا خون رنگ لانا چاہئے ۔وہی ان کی تسکین کا ذریعہ ہے ۔ ان کے بقول یہاں لوگوں کی موت پر بھی سیاست کی جاتی ہے ۔عامر آری پانتھن سانحہ میں مارے جانے والے جاوید احمد نجار کے سب سے چھوٹے بھائی ہیں جو اس وقت اپنی چھوٹی بہن کے ساتھ رہتیہیں۔ عامر کے بقول بھائی کے کھو جانے کے بعد سے وہ اپنی پڑھائی پر توجہ مرکوز نہیں رکھ پائے اور اب گھر کی دیکھ بھال کیلئے اپنے بھائی کا کارخانہ سنبھالے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے انہیں سکول جانے کیلئے وقت نہیں ملتا۔ بھائی کے مارے جانے کا غم عامر اور اس کی بہن کو کبھی کبھار اس قدر نڈھال کر دیتا ہے کہ وہ رو پڑتے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ مالی معانت تو ملی ہے لیکن اس واقع کے قصورواروں کو سزا کب ملے گی۔اس سانحے میں جان بحق ہوئے جاوید احمد شیخ کی ماں ہر پل اپنے چشم چراغ کی راہ تکتی رہتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کا بیٹا علاقہ میں نامور حجام تھا جسکا پتھرائو کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں تھا ۔ان کا کہنا ہے کہ سرکار نے مالی معاونت کس لئے کی؟ ہمارے بچوں کو مارنے کیلئے؟، کیا اس امداد سے میرا زخم بھر سکتا ہے ؟ اپنے اپنوں کو کھو جانے کا غم تو کبھی بھی نہیں بھرتا ، میں اپنے بیٹے کا نام بھی سن نہیں پاتی ہوں۔ یہ پوچھے جانے پر کہ آیا کہ ان کیا ان ہلاکتوں سے کوئی تبدیلی آئی ہے۔ جاوید کا کنبہ یک زبان ہوکر کہتا ہے کہ ہاں تبدیلی اآئی ہے اور یہ کہ اگر گذشتہ سال 100لوگ مارے گئے تھے آئے روز ان کی تعدادبڑھتی رہتی ہے جو قابل افسوس ہے۔دریں اثناء پولیس نے واقع کے فوراً بعد سی آر پی ایف کی43بٹالین کے خلاف ماگام میں ایک ایف آئی آر زیر نمبر 147/16 SEC 307 , 147,148,336,347کے تحت درج کی تھی تاہم لواحقین نے تب مانگ کی تھی کہ اس کیس کی تحقیقات آر پی سی 302کے تحت کی جائے لیکن لواحقین کے بقول ان کی عرضی کی سماعت نہیں ہوئی۔جبکہ ضلع کے ایک پولیس آفیسر نے بتایا کہ پولیس ان ہلاکتوں کی تحقیقات کر رہی ہے جب مکمل ہونگی تفصیلات فراہم کی جائیں گی۔
Share This Article
Leave a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *