عظمیٰ نیوز سروس
راجوری//راجوری ضلع کے سب ڈویژن کوٹرنکہ کے کیول لوئر پنچایت میں قائم گورنمنٹ پرائمری اسکول تران گزشتہ پندرہ برسوں سے بند پڑا ہے۔ اسکول کی عمارت پر ایک مقامی خاندان نے تالہ ڈال رکھا ہے جس کے باعث اسکول کرائے کے ایک تنگ و تاریک مکان میں چلایا جا رہا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ نہ صرف طلباء کو تعلیمی مشکلات کا سامنا ہے بلکہ اساتذہ بھی سخت پریشانیوں سے دوچار ہیں۔اس وقت اس اسکول میں پہلی جماعت سے پانچویں جماعت تک کے تقریباً دو درجن طلباء زیر تعلیم ہیں لیکن اسکول کی اپنی عمارت ہونے کے باوجود یہ بچے کرائے کے ایک کمرے میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، جہاں نہ مناسب جگہ ہے، نہ بنیادی سہولیاتدستیاب ہیں۔ ایک ہی کمرے میں کلاسز بھی لی جا رہی ہیں اور اسی میں مڈ ڈے میل کا کھانا بھی تیار ہوتا ہے۔مقامی سابق سرپنچ محمد فاروق انقلابی کی قیادت میں دیہاتیوں نے انتظامیہ پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ، ’یہ عمارت لاکھوں روپے کی لاگت سے تعمیر ہوئی تھی لیکن گزشتہ پندرہ برسوں سے تالہ بند ہے۔ مقامی خاندان نے کسی ذاتی تنازعے کی بنیاد پر عمارت پر قبضہ جما رکھا ہے، اور یہ اب ایک گودام میں تبدیل ہو چکی ہے‘۔ان کا مزید کہنا تھا کہ کئی مرتبہ محکمہ تعلیم کو زبانی اور تحریری طور پر اس مسئلے سے آگاہ کیا گیا، لیکن آج تک کسی بھی افسر نے اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ نہ ہی عمارت کو خالی کروایا گیا اور نہ ہی طلباء کے لئے کسی مستقل حل پر غور کیا گیا۔فاروق انقلابی نے کہا کہ’اگر اگلے ایک ہفتے میں اسکول کی عمارت کو کھول کر اس میں تدریسی عمل بحال نہ کیا گیا، تو گاؤں کے لوگ شدید احتجاج پر مجبور ہوں گے۔ ہم خاموش تماشائی بن کر اپنے بچوں کا مستقبل تباہ ہوتا نہیں دیکھ سکتے‘‘۔یہ افسوس ناک صورتحال نہ صرف محکمہ تعلیم کی بے حسی کو ظاہر کرتی ہے بلکہ دیہی علاقوں میں تعلیم کی زبوں حالی کی واضح مثال بھی ہے۔ اسکول کی بندش نے جہاں بچوں کی تعلیم پر گہرا اثر ڈالا ہے، وہیں اساتذہ کو بھی تدریسی عمل کے دوران شدید دشواریوں کا سامنا ہے۔مقامی عوام کا مطالبہ ہے کہ انتظامیہ فوری طور پر حرکت میں آئے، اسکول کی عمارت کو واگزار کروا کر تعلیمی عمل کو بحال کرے تاکہ دیہی علاقوں کے یہ نونہال بھی تعلیم کے بنیادی حق سے محروم نہ رہیں۔