سرینگر//مشترکہ مزاحمتی قیادت نے کہا ہے کہ اگر ریاستی سرکار کسی بھی قسم کی جمہوریت میں یقین رکھتی ہے کہ تو انہیں مزاحمتی خیمے کو پرامن سرگرمیاں کرنے کی اجازت فراہم کرنی چاہئے اور لال چوک اننت ناگ میں 15دسمبرکا مجوزہ جلسہ جمہوریت کے دعویداروں کیلئے آزمائش ہے۔ سید علی گیلانی، میرواعظ عمر فاروق اور محمد یاسین ملک نے عوامی جلسے کی کال کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ حالانکہ بھارتی ریاست اور اسکے کشمیری مدد گاروں نے مزاحمتی قائدین کو یا تو جیلوں میں یا خانہ نظر بند کرکے پابند سلاسل کردیا ہے،لیکن ان ظالمانہ و جابرانہ حربوں اور پولیس و فوج کے طاقت کے استعمال کے باوجود ‘ مشترکہ قیادت اس جلسے کو کامیاب بنانے کیلئے ہر ممکن کوششیں بروئے کار لائے گی۔انہوں نے کہا کہ فوجی طاقت کے بل پر قبرستان کی خاموشی کو امن اور جمہوریت قرار دینا عقل و دانش کا فقدان ہی قرار دیا جاسکتا ہے اور اگر بھارت اور اسکے ریاستی طرف دار واقعتاً کسی قسم کی جمہوریت اور اظہار رائے کی آزادی میں یقین رکھتے ہیں تو انہیں مشترکہ مزاحمتی قیادت کے مجوزہ جلسے اور دوسرے پروگراموں کو اجازت فراہم کرنی چاہئے۔قائدین نے کہا کہ عوامی جلسہ منعقد کرنے کا مقصد پوری دنیا کے سامنے کشمیریوں کی آواز کو اُٹھانا ہے اور دنیا کو یہ پیغام دینا ہے کہ کشمیری اپنے حق کی بازیابی کیلئے جدوجہد ہر حال میں جاری رکھیں گے۔ اس جلسے کا ایک اور مقصدجنوبی کشمیر کے عوا م کے ساتھ یکجہتی کا اظہار بھی مطلوب ہے۔