سرینگر// مجسٹرئیل تحقیقات کے دوران اس بات کا اعتراف کیا گیاہے کہ گاندربل کے پرنگ کنگن علاقے میں 15 برس قبل ایک ایس پی اوکی ’’ سپیشل آپریشن گروپ ‘‘کے ہاتھوں حراستی ہلاکت ہوئی۔رپورٹ میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ ایک معالج سے دبائو کے تحت پوسٹ مارٹم رپورٹ تیار کروائی گئی۔ انسانی حقوق کے ریاستی کمیشن کے سربراہ جسٹس(ر) بلال نازکی کی عدالت میں گاندربل کے کنگن علاقے میں 2003میں حراستی قتل کے کیس کی سماعت ہوئی،جس کے دوران انہوں نے متاثرین کو ہدایت دی کہ وہ ڈپٹی کمشنر گاندربل کے دفتر میں ایس آر او کے تحت معاوضے کے حصول کیلئے رجوع کریں،جبکہ متعلقہ ضلع ترقیاتی کمشنر کو بھی ہدایت دی گئی کہ وہ اس عرضی کو زیرغور لاکر کمیشن کو مطلع کریں۔کیس کی سماعت کے دوران اسسٹنٹ سپر انٹنڈنٹ پولیس گاندربل بھی موجود تھے،جبکہ کیس کی آئندہ سماعت2اپریل مقرر کی گئی ہے۔معلوم ہوا ہے کہ اس واقعے سے متعلق ایگزیکٹو مجسٹریٹ کی سربراہی میں جو تحقیقات ا بتدائی ایام میں کرائی گئی تھی،اس میں کہا گیا ہے’’دوران تحقیقات یہ بات سامنے آئی کہ عبدالحمید گنائی کی موت ایس او جی گاندربل کی حراست میں ہوئی‘‘۔2004میں ایڈیشنل ڈسڑکٹ مجسٹریٹ سرینگر کی طرف سے متعلقہ ایس ایس پی کو جو رپورٹ پیش کئی گئی،اس میں کہا گیا ہے کہ تحقیقات کے دوران ’’ایس او جی‘‘ گاندربل کا یہ پہلو مشتبہ نظر آیا،کہ عبدالحمید کی موت اسوقت پیش آئی جب وہ چھاپہ مار پولیس پارٹی کے ساتھ تھا۔ تحقیقاتی آفسر نے رپورٹ میں کہا ہے کہ دوران تحقیقات مہلوک شہری کے بھائی کی طرف سے پیش کردہ11 گواہوں کے بیانات قلمبند کئے گئے ۔گواہوں کے بیانات پر مبنی رپورٹ میں کہا گیا کہ مذکورہ شہری کی موت کے بعد انہیںکنگن شاہراہ پرلایا گیا،اور اس کو بند کیا گیا۔رپورٹ کے مطابق گواہوں نے کہا کہ انہوں نے عبدالحمید کا برہنہ بدن دیکھا،جس پر تشدد کے واضح نشانات تھے،اور یہ نشان دونوں ٹانگوں کے علاوہ گردن،جسم کے اپری حصے اور پچھلے حصے پر نمایا ںتھے۔ رپورٹ کے مطابق گواہوں نے بتایا کہ مذکورہ شہری کسی بھی ملک دشمنی سرگرمی میں ملوث نہیں تھا،اور پولیس میں ایس پی او تھا۔ اسی طرح کے بیانات عبدالحمید کے نزدیکی رشتہ داروں نے بھی قلمبند کرائے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈی ایس پی گاندربل سپیشل آپریشن گروپ بہادر رام کا بیان بھی اس سلسلے میں درج کیا گیا،جس کے دوران انہوں نے کہا کہ11ستمبر2003کو میں اپنے دفتر میں تھا،اور ایک شخص ،جس نے خود کو عبدالحمید کا بھائی جتلایا،کہا کہ آپ کے کیمپ کو انکا بھائی،جو پولیس میں ایس پی اوہے،جنگجویانہ سرگرمیوں سے متعلق پوچھ تاچھ کیلئے مطلوب ہے۔مذکورہ افسر کے مطابق بعد میں وہ سرینگر گئے اور شام کو جب واپس دفتر لوٹے تو کیمپ کے صحن میں کچھ پولیس اہلکاروں کو مذکورہ شخص کے ساتھ پایا،اور پوچھ تاچھ کرنے پر پتہ چلا کہ یہ عبدالحمید ہے،اور ایک اہلکارنے بتایا کہ عبدالحمید ہتھیار دینے کیلئے تیار ہے،اور رات دیر گئے برآمد کئے جائیں گے،تاکہ کوئی دیکھ نہ لے،جس کے بعد میں وہاں سے چلا گیا۔رپورٹ میں مذکورہ ڈی ایس پی نے کہا کہ شام7بجکر30منٹ پر سی آر پی ایف کے ہمراہ پولیس اہلکار ہتھیار برآمد کرنے کیلئے گئے،اور رات دیر گئے یہ اطلاع دی کہ عبدالحمید نے کچھ ہتھیار دئیے ہیں،اور باقی ہتھیار رات کے دوران دیگا ۔ ڈی ایس پی کے مطابق ایک بجے رات پولیس افسر اشوک شرما نے انہیں مطلع کرایا کہ پولیس پارٹی ہتھیار برآمد کرنے کیلئے تیار ہے،جبکہ2بجے کال موصول ہوئی،جس میں کہا گیا کہ چھاپہ مار پارٹی پر فائرنگ کی گئی،تاہم دوسری صبح کو ہی معلوم ہوا کہ جھڑپ کے دوران عبدالحمید ہلاک ہوا،جس کے بعد ایف آئی آر درج کیا گیا۔رپورٹ کے مطابق سپیشل آپریشن گروپ کے دیگر اہلکاروں نے بھی یہ داستان سنائی۔تحقیقاتی افسر نے کہا ’’ تمام مواد کو مد نظر رکھتے ہوئے،جبکہ ڈاکٹر کی طرف سے یہ بیان دینے کہ وہ پوسٹ مارٹم کیلئے نااہل تھا،اور اس پر دبائو ڈالا گیا،میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ،عبدالحمید کی موت مشتبہ ہے‘‘۔تحقیقاتی افسر کا کہنا ہے کہ میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ عبدالحمید چھاپہ مار پارٹی کے ہمراہ تھا،صرف اس کو ہی کیوں گولیاںلگیںاور فورسز اہلکار اس واقعے میں زخمی نہیں ہوئے۔تحقیقاتی افسر کا کہنا ہے’’ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مہلوک شہری کی موت سپیشل آپریشن گروپ کے اہلکاروں کی حراست میں ہوئی اور جن حالات میں اس کی موت واقع ہوئی وہ بھی شک آور ہے‘‘۔تحقیقاتی افسر نے اس واقعہ میں ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کی سفارش کی ہے۔ادھر عبدالحمید کا پوسٹ مارٹم کرنے والے معالج ڈاکٹر نے تحقیقاتی افسر کو بتایا کہ وہ پوسٹ مارٹم کرنے کیلئے اہل نہیں۔بلکہ اس پر دبائو ڈلا گیا تھا کہ وہ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ تیار کرے،جبکہ خوف کی وجہ سے اس نے پوسٹ مارٹم رپورٹ تیار کی،جبکہ میں نے مہوک شہری کے جسم کو ہاتھ بھی نہیں لگایا۔2013میں انٹرنیشنل فورم فار جسٹس کے چیئرمین محمد احسن اونتو نے بشری حقوق کے ریاستی کمیشن میں ایک درخواست پیش کی تھی،جس میں دعویٰ کیا گیا تھا عبدالحمید گانی ولد عبدالاحد گانی ساکن پرنگ کنگن کو11ستمبر2003ٹاسک فورس نے فرضی جھڑپ کے دوران ہلاک کیا،جبکہ عرض دہندہ نے اس کیس کی سر نو تحقیقات اور مہلوک شہری کے لواحقین کو معاوضہ دینے کی سفارش کر نے کی درخواست کی تھی۔