سرینگر// پلوامہ ڈگری کالج میں گزشتہ برس پولیس کاروائی کے دوران درجنوں طالبات سمیت70کے قریب طلاب کے زخمی ہونے کے معاملے میں ’’پولیس رپورٹ کو حقائق کے برعکس‘‘ قرار دیتے ہوئے کالج کے سابق پرنسپل نے بشری حقوق کے ریاستی کمیشن کے پاس اپنی رپورٹ پیش کی۔اس دوران ایڈیشنل ضلع مجسٹریٹ پلوامہ نے بھی رپورٹ پیش کرتے ہوئے اپنی پوزیشن واضح کی ہے۔جنوبی کشمیر کے پلوامہ ڈگری کالج میں گزشتہ سال اپریل کے وسط میں 70سے زائد طلاب جن میں طالبات کی خاصی تعداد بھی شامل تھی،کو احتجاجی مظاہرے کے دوران تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا،جس کے بعد وادی میں2ماہ تک طلاب کی احتجاجی لہر شروع ہوئی،جبکہ ان ایام میں بیشتر تعلیمی ادارے بند رہیں۔سرینگر سمیت وادی کے جنوب و شمال میں طلاب کی احتجاجی لہر کے دوران درجنوں طلاب کو گرفتار کیا گیا،جبکہ بیسوں زخمی بھی ہوئے۔ڈگری کالج پلوامہ میں طلاب علموں پر پولیس یلغارکے خلاف انٹرنیشنل فورم فار جسٹس کے سربراہ محمد احسن اونتو نے انسانی حقوق کے ریاستی کمیشن کا دروازہ کھٹکھٹایا،جس کے بعد کمیشن نے پولیس کو اس سلسلے میں تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی۔اس دوران سابق پرنسپل ڈگری کالج پلوامہ نے کمیشن کے پاس اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے پولیس رپورٹ کو غیر حقیقی بنیادوں پر مبنی رپورٹ قرار دیا۔کالج کے سابق پرنسپل عبدالحمید نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ15اپریل2017کو صبح11بجکر30منٹ پر معمول کے گشت پر تھے،تو یکایک طالب کالج گیٹ کی طرف لپکے،اور جب وہ یہ دیکھ کر اس جانببڑھے کہ کالج گیٹ پر پولیس کی2گاڑیاں(رکھشک)پائیں۔انہوں نے بتایا ’’میں ان گاڑیوں کے سامنے کھڑا ہوا،اور پولیس اہلکاروں کو کالج سے باہر جانے ،اور طالب سے سنگ بازی نہ کرنے کی درخواست کی۔کالج کے سابق پرنسپل نے کمیشن کے سامنے پیش کی گئی رپورٹ میں مزید کہا کہ بدقسمتی سے کچھ پولیس اہلکار گاڑیوں سے باہر آئے،اور شلنگ شروع کی،جس کی وجہ سے کالج کیمپس میں افراتفری کا ماحول پیدا ہوا،جبکہ میں چلا کر کہا’’ میں پرنسپل ہوں۔پہلے مجھے مارو‘‘،تاہم شلنگ میں مزید اضافہ ہوا،اور وہ کچھ طلاب کے ہمراہ ایڈمیشن بلاک،جو گیٹ کے متصل ہے،میں داخل ہونے میں کامیاب ہوا۔ سابق پرنسپل کا کہنا ہے کہ کالج میں ہر سو شور وغل تھا،اور دھواں ہی دھواں نظر آرہا تھا،اور میں اپنے دفتر تک پہنچنا چاہتا تھا،تاکہ انتظامیہ کو مطلع کیا جائے،کیونکہ فون نمبرات دفتر میں ہی تھے۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اپنے دفتر میں پہنچے کے بعد پہلے سپر انٹنڈنٹ آف پولیس سے رابطہ قائم کیا گیا،تاہم انہوں نے کہا کہ وہ قصبے سے باہر ہیں،اور جب ضلع ترقیاتی کمشنر سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے بھی یہی جواب دیا۔ پرنسپل کے مطابق اس کے بعد ڈپٹی سپر انٹنڈنٹ سے رابطہ قائم کیا گیا،تاہم انہوں نے بتایا کہ طلاب نے کالج کے باہر بینکر گاڑیوں پر سنگبازی کی،جس کے بعد طرفین میں تلخ کلامی بھی ہوئی۔ رپورٹمیں کہا گیا ہے کہ پولیس کے ڈپٹی سپرانٹنڈنٹ کو باور کیا گیا’’کیا آپ کالج میں داخل ہونے سے صورتحال کی شدت نہیں جانتے،جہاں5ہزار کے قریب طلاب ہے،جن میںنصف طالبات ہے۔انہوں نے بتایاکہ اس دوران جب کالج میں یہ کشیدگی اور افراتفری کا ماحول جاری تھا،تو انہوں نے انسپکٹر جنرل پولیس کشمیر کو مطلع کیاکہ کالج کو بلا وجہ میدان جنگ میں تبدیل کیا گیا ہے۔تو انہوں نے کہا’’میں دیکھتا ہو کہ کیا معاملہ ہے‘‘۔کالج پرنسپل کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اس دوران وہ کالج احاطے میں آئے،اور دیکھا کہ کالج کے کچھ طلاب نعرہ بازی کر رہے ہیں،اور کئی طالبات غش کھا کر گئی ہے،جس کے بعد تذبذب کے عالم میں وہ ایک بلاک سے دوسرے بلاک کے چکر لگاتے گئے۔ان کا کہنا ہے کہ اس دوران کالج کے باہر سے بھی لوگ اندر داخل ہوئے،جس کی وجہ سے صورتحال مزید مخدوش ہوگئی،جبکہ اس دوران بھی کالج کے باہر شلنگ ہو رہی تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس دوران ایڈیشنل ضلع ترقیاتی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر مال بھی کالج پہنچے اور اور بالآخر انکی اور کچھ جراتمند طلاب کے علاوہ کچھ پولیس افسران کی مدد سے،طلاب کو کالج احاطہ چھوڑنے کیلئے کہا گیا،تاہم کافی تعداد میں طلاب زخمی ہوئے تھے۔ پرنسپل نے اس دوران پولیس کی طرف سے کمیشن میں پیش کی گئی رپورٹ’’کو حقیقی بنیادوں کے برعکس قرار دیا‘‘۔ ادھر ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر پلوامہ کی طرف سے کمیشن کے پاس جو رپورٹ پیش کی گئی ہے،اس میں کہا گیا ہے کہ کالج منتظمین کی اطلاع کہ پولیس کالج میں داخل ہوگئی ہے،اور طلباء کو مار پیٹ کر کے علاوہ ٹیر گیس شلنگ کی،ملنے کے بعد وہ اسسٹنٹ کمشنر پلوامہ مال کے ہمراہ جائے وقوع کی طرف روانہ ہوئے ۔رپورٹ کے مطابق اس وقت کالج میں افراتفری کا ماحول تھا،اور اس دوران اگرچہ پرنسپل کے کالج سے ملنے کوشش کی،تاہم صورتحال کے پیش نظر ایسا ممکن نہ ہوسکا۔انہوں نے کہا ہے کہ اس دوران وہ ایڈیشنل سپر انٹنڈنٹ آف پولیس اور ڈپٹی سپرانٹنڈنٹ پولیس ہیڈ کواٹرس سے ملے،جو کہ واحد ایسے پولیس اہلکار تھے،جن کے چہرے کھلے تھے،جبکہ دیگر اہلکاروں نے یا تو ہیلمٹ پہنیں تھی،یا انکے چہرے کپڑوں سے ڈھکے ہوئے تھے۔انہوں نے کہا ہے کہ مذکورہ پولیس افسران سے درخواست کی گئی کہ وہ اہلکاروں کو ایک طرف کریں،تاکہ طلاب کو کالج احاطہ چھوڑنے کیلئے تیار کیا جائے،جس پر وہ متفق ہوئے،اور طلاب کو باہر نکالا گیا۔ ایڈیشنل ضلع مجسٹریٹ کے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ،اس کے بعد ہم کالج پرنسپل سے ملاقی ہوئے،جنہوں نے بتایا کہ سنگبازی کے بعد پولیس کالج میں داخل ہوئی،جبکہ انہوں نے پولیس کو کالج احاطے میں داخل نہ ہونے کی درخواست کی،تاہم’’ انہوں نے نہ صرف انکی بات ان سنی کر دی،بلکہ نازبیا زبان کا بھی استعمال کیا‘‘۔اس سے قبل پولیس نے کمیشن کے پاس رپورٹ پیش کیا تھا،جس میں پولیس نے واضح کیا ہے کہ کافی اشتعال دینے کے بعد بھی پولیس کالج میں داخل نہیں ہوئی۔ کیس کی آئندہ شنوائی10جون کو مقرر کی گئی ہے۔