علامہ اقبال ؒ نے بہت پہلے مسلمانوں کی حالت ِ زراو زبوں دیکھ کرمایوسی کے عالم میںکہا ؎
گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھ
ثریا سے زمین پر آسمان نے ہم کو دے مارا
کچھ عرصے سے مغربی ذرائع ابلاغ کے زیراثر ہمارے ہاں تو اتر سے ایک ایسا طبقہ پروان چڑھ رہا ہے جو تہذیب مغرب کادلدادہ بنا ہوا ہے۔ اپنے آپ کو روشن خیال،وسیع القلب اورماڈرن سمجھنے اور دکھانے کا انہوں نے واحد اسلوب ہی یہ سمجھ رکھا ہے کہ اہل مغرب کے نقشِ قدم پر اس ہنگامہ آرائی میں دیوانہ وارشامل ہو جائیں۔وہ یہ نہیں سمجھتے کہ آخر ان مغربی گل غباڑوں کا پس منظر کیا ہے؟ اس جدیدیت گزیدہ طبقہ کومغربی گل غباڑوں میںشریک ہونے کیلئے کوئی نہ کوئی بہانہ چاہئے۔ مغرب میں محبت کا تصور و مفہوم یکسر مختلف ہے جس سفلی جذبے کو وہاںمحبت (Love) کا نام دیا جاتا ہے وہ در حقیقت بوالہوسی(Lust) ہے۔ مغرب کے تہذیبی اہداف میں جنسی ہوس اور جنسی بائو لے پن کی تسکین کی خاطر مردوزن کے آزادانہ اختلاط کو بھر پور ہوا دینا ہے۔ اس معاشرے میں عشق اور رفق میں کوئی فرق روا نہیں رکھا جاتا۔ہر طرح کی شہوت رانی وہاں محبت ہی کہلاتی ہے۔ اسی طرح ویلنٹائن جنسی بے راہ روی کوتقویت دینے والے حربے کے طور استعمال ہوتاہے۔ ہمارے خاندانی نظام میں عورت کو جواحترام حاصل ہے اس کے پیش نظر اس کی شادی بیاہ کا اہتمام اس کے خاندان کی ذمہ داری ہوتی ہے جب کہ مغرب میں یہ کام وہاں کی عورت کو خود کرنا پڑتا ہے اوربے حیائی وفحاشی اوربدکاری کے راستوں کو ہموارکیا جاتا ہے اوررومی وثنیت اور عیسائیت کے باطل عقیدے اورتہوارکو فروغ وتقویت دی جاتی ہے۔مغرب کے بے حیااوربے شرم معاشرے میںانسان کی زندگی سے شرم وحیاکاجنازہ کب کانکل چکاہے اور مسلمان ان کی اند ھی تقلید کرکے اللہ ورسول کی غضب وناراضگی کا مستحق ہوتا ہے۔
گزشتہ کئی برسوںسے ہم دیکھ رہے ہیں کہ مغرب سے ایک وبا در آئی کہ اس خطے میں بھی بڑے اہتمام سے ’’ویلنٹائن ڈے ‘‘منایا جانے لگاہے۔ مغربی تہذیب نے مشرق کا رخ کیا اور بے ہودگی و بے حیائی کا ایک سیلاب امڈتا چلا آیا۔ اب 14 فروری کے آتے ہی ویلنٹائن ڈے کی تیاری ہونے لگتی ہیں۔ اغیار کے زرخریدمیڈیا پہ خصوصی تشہیر اور پروگرام ہوتے ہیں۔ نسلِ نو مقصد حیات سے بے پرواہ ہو کر بے ہودگی کے وہ کھیل کھیلتی ہے کہ شیطان بھی شرمسار ہوتا نظر آتا ہے۔ پہلے پہل یہ وباایک مخصوص طبقے تک محدود تھی ،آہستہ آہستہ خاص و عام کی تمیز بھی ختم ہو گئی اوراب ہمارے بعض تعلیمی اداروں میں بھی اس بے حیائی کا باقاعدہ سبق دیا جانے لگا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ نسل نو اپنی تہذیب سے بیگانہ ہوتی جا رہی ہے۔ اپنے سلف اور آبا و اجدا سے ناآشنائی کا عالم یہ ہے کہ ہم احساس ذمہ داری سے واضح طور پرغفلت برت رہے ہیں۔بدقسمتی سے غلط سلط اذہان کے حامل لوگ نام نہاد ترقی پسندیت کے قائل افراد اورانسان دشمن عناصر کے پیسوں پر پلنے والی این جی اوز ان تقریبات کو میڈیا کے ذریعے زیادہ سے زیادہ فروغ دے رہی ہیں۔ ان کے مقاصد یہی ہیں کہ لوگ اپنی دینی تعلیمات سے دور ہو کر ایسے معاملات میں الجھ جائیں جو انہیںاخلاق اور شرافت سے دور کر دیں۔
حیا ایک خاص فطری وصف ہے ۔جو انسان کے اندر بہت سی خو بیو ں کو پروان چڑھا تا ہے۔ عفت و پا کبا زی، گنا ہوں سے بچنا، خدا کی نافرمانیوں پر غیرت کھانا۔ کسی کے سا منے دست سوال دراز نہ کرنا اور سوال کر نے والے کو خالی ہاتھ نہ لوٹانا۔ احسان مندی کرنا، حق تلفی نہ کرنا۔ دوسروں کی کوتاہیوںپر چشم پو شی کر نا۔ سب اسی وصف کے مختلف مظا ہر ہیں۔حیا کے با رے میں ایک عام تصور ہے کہ یہ عورتوں کا وصف ہے اور اس کو بدرجہ اتم عورتوں کے اندر ہونا چاہیے۔ یہ بات اس حد تک تو درست ہے کہ عورت کے اندر خدا نے فطری طور پر شرم و حیا کا مادہ مرد سے زیا دہ رکھا ہے اور بہترین عورت یقینا وہی ہے جو حیا کے زیورسے آ راستہ ہے لیکن مردوں کے لیے حیا اتنی اہم ہے کہ معا شرتی اصلاح اور تطہیر کے لیے مردوں کا باحیا ہونا کبھی کبھی عورتوں سے بھی زیا دہ اہم بن جا تا ہے ۔غور کیا جا ئے تو حیا کی یہی صفات مسلما نوں مردوں میں بدرجہ اتم موجود ہونا ضروری ہیں۔ اعلی ظرفی، حق کے لیے جری و بے باک ہونا، بدکاریوں اور برائیوں کے سد باب کے لیے کمر بستہ ہونا۔
موجودہ دور میں امتِ مسلمہ میں جو فتنے پیدا ہورہے ہیں ،آج اگر ہم اپنے ارد گرد اور خصوصا مسلم معاشرے پر اک طائرانہ نظر ڈالیں توان بے شمار فتنوں کے واضح آثار اور اثرات ہمیں مسلم امہ کی صفوں میں نظر آئیں گے۔ ان میں دورِ حاضر کا ایک تیزی سے پھیلنے والا فتنہ جسے ’’ویلنٹاین ڈے نام ‘‘سے جانا جاتا ہے سرِفہرست ہے جس نے مسلمان نوجوان نسل کو اپنے شیطانی جال میں بری طرح جکڑ لیا ہے۔آج سے چند سال پیشتر مسلم ممالک کے عوام الناس کو اس فتنے کے بارے میں کچھ علم نہ تھا ، مگر موجودہ دور میں ایک مذموم سازش کے تحت باقاعدہ اس فتنے کو نہ صرف اجاگر کیا گیا بلکہ ایک منصوبہ بندی کے تحت اسے امتِ مسلمہ میں متعارف کروا کر مسلم مرد وخواتین کے اخلاق پر کاری ضرب لگائی گئی اور ہمارے مسلم نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اس سازش کا شکار بنے۔یو ں تو ویلنٹائن ڈے جیسی بے ہودگیوں سے آدم خورد تہذیب نے روایتی جنگ کی بجائے ثقافتی جنگ مسلمانوں پر مسلط کردی ہے اور اس کے لئے کروڑوں اربوں ڈالرمختص کرکے جدید وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی مادر پدر آزاد تہذیب وثقافت کو زیب وزینت کا لبادہ اوڑھا کر مسلم ممالک میں منتقل کر دیااور ذرائع ابلاغ،سیٹلائٹ چینلز اور انٹرنیٹ کے ذریعے مسلم معاشرے میں اپنی عریاں ثقافت کا طوفان کھڑا کردیا۔رہی سہی کسرکئی مسلم ممالک کے ٹی وی چینلز نے اس طرح پوری کردی کہ ان تہذیب دشمن ممالک کے پرگرام اپنے ممالک میں عام کرکے ہرناظر کی ان تک رسائی کو آسان کردیا۔ ویلنٹائن ڈے کی مناسبت سے خصوصی پروگرام تیار کئے گئے۔ تجارتی کمپنیوں نے اپنا منافع بڑھانے کی غرض سے ان چینلز پر اس مناسبت سے اشتہارات کی بھر مار کردی اور ویلنٹاین ڈے کو یومِ محبت کے طور پرفروغ دیا۔نوجوانوں کویہ پیغام دیا گیا کہ یہ محبت کرنے والوں کے لئے ایک ایسا دن ہے جس میں وہ اس ہستی کو تحفے، کارڈز اور گلاب کے پھول پیش کرکے اپنے محبت اور چاہت کا اظہار کر سکتے ہیں جس سے وہ محبت کرتے ہیں۔
یہود و نصاریٰ اوراغیارکے تہوار وں کی بنیاد شرک اور بدعات پر مبنی ہوتی ہے۔اس لئے مسلمانوں کو غیر مسلموں کی رسومات،تہوار اوران کی روایات اپنانے سے منع کیا گیا ہے۔ویلنٹاین ڈے کو محبت کا دن قرار دے کرنوجوان نسل کویہ غیر اخلاقی پیغام دیا گیا ہے کہ اس دن غیراخلاقی طریقے سے محبت کی تقسیم کے اس عمل میں ہر رکاوٹ کو عبور کر جا پھر سال کے بقیہ دنوں میں چاہے ایک دوسرے کا خون پیتے رہو، ظلم و بربریت کی تمام حدوں کو پامال کرومگر اس ایک دن کو صرف محبت کے بٹوارے کے لئے مختص کردو، جب کہ ہمارا پیارا دین مسلمانوں کو آپس میں شرعی قیود و حدود میں رہتے ہوئے سارا سال پیار و محبت، امن وآشتی اور مذہبی ہم آہنگی کے ساتھ رہنے کی تعلیم دیتا ہے۔جنسی بے راہ روی کے شکار لڑکے اور لڑکیاں، مرد و خواتین اس تہوار کو مناتے ہوئے اپنے اسلامی تشخص اورشناخت کو یکسر فراموش کردیتے ہیں۔ویلنٹاین ڈے کی حقیقت اوراسکا تاریخی پس منظر کیا ہے اور کس طرح یہ طویل سفر طے کرتا ہوا مسلمانوں کے گھروں میں داخل ہوا، اس کا اندازہ قارئین کو زیرِ نظر سطور کے مطالعے سے بخوبی ہوجائے گا۔گزشتہ چند سالوں میں اس فتنے نے مسلم معاشرے میں جس انداز میں شبِ خون مارا ہے اس نے مسلم مفکرین ، دانشوروں،علما کرام کی ذمہ داریوں کو بڑھا دیا ہے اور انہیں یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ کس طرح وہ خالص دین کی روشنی میں اس کا سدباب کرتے ہوئے متاثرہ جوان نسل کو خبردار کریں تاکہ دین کا صحیح تصور ان کے اذہان میں قائم ہو۔
اسلام میں حیا کا کیا تصور ہے؟ کیا حیا صرف جنسی معاملات تک ہی محدود ہے یا اس کا دائرہ اس سے وسیع ہے ، اگر وسیع ہے تو اور کون کون سی چیزیں اس کے دائرے میں آتی ہیں؟ حیا انسان کے اندر پائی جانے والی وہ خوبی یا صفت ہے جس کی وجہ سے وہ غیر معروف اعمال سرانجام دینے میںانقباض(گھٹن) محسوس کرتا ہے۔اسلام دین فطرت ہے، خدا نے مرد عورت دونوں کو پیدا کرکے معاشرے میں ان کو الگ الگ دائرہ کار دیا ہے کہ جس میں وہ اپنی ذمہ داریاں کماحقہ انجام دے کر خدا کے یہاں اجر و ثواب پا سکیں لیکن اس کے علی الرغم مو جو دہ دور میں ماڈرن ازم کے نام پر کثرت سے ایسے پہناوے نظر آرہے ہیں کہ جو اپنی صنف اور حکمِ الہی سے بغاوت کرتے ہیں۔ مردوں کے بدن پر ریشمی کڑھے ہو ئے لباس، کانوںمیں بالے، گلے میں چین، ہاتھوں میں کڑی، لمبے بال، غرض مرد عورت کے بھیس میں ملبوس ہیں اور عورتوں نے جینز، ٹی شرٹ، بوائے کٹ اسٹائل بال رکھ کر مردوں کاروپ دھارا ہوا ہے اورمخلوط محافل پر مشتمل مو جودہ معاشرہ شرم و حیا سے عاری ہے۔آج آزادی ٔنسواں کے نام پر عورت کوچراغ خانہ کے بجائے شمعِ محفل بنا کر فحش ڈراموں، مخلوط محافلوں اور اشتہارات کے ذریعے عورت کو غیر ساترلباس میں پیش کر کے اس کی نسوانیت کو برسرعام رسوا کیا جارہا ہے۔ تجارتی منڈیوں میں عورت کا استعمال اخلاقی پستی و گراوٹ کی انتہا ہے۔ عورت کو ترقی کے نام پر بے حجاب کرنا شیطانی قوتوں کا شاخسانہ ہے۔ اسلام نے حجاب کے ذریعے مسلم عورت کی عزت و وقار کو سر بلند کیا ہے اور اس حجاب کا اصل مفہوم عورتوں کو مرد کی ہوس ناکی سے اور مردوں کو عورت کے فتنے سے بچانا ہے۔مسلم معاشرے میں کبھی بھی مرد و زن کے اختلاط کی گنجائش نہیں ہے۔ صالح و پا کیزہ معاشرے کے قیام کے لیے ضروری امر ہے کہ اسلامی انقلاب و فطری حجاب کے ذریعے صالح معاشرے کی تشکیل کی جائے۔بعض خواتین بنا سنگار کرکے حسن و جمال کر مزید رنگ و روغن سے آراستہ دوسروں کو خوش کرنے کے لئے گھروں سے باہر نکلتی ہیں جو ایسا کرتی ہیں وہ پاکدامن و باحیا نہیں ہوسکتی ۔ پاک دامن و باحیا خدا سے ڈرنے والیاں کبھی غیر مردوں کے سامنے اپنے حسن وجمال کو ظاہر نہیں کرتیں۔ اسی طرح پاک دامن باحیا و باکردار خدا سے ڈرنے والے مرد کبھی غیر عورتوں کی طرف نگاہ اٹھاکر بھی نہیں دیکھتے۔ آرائش و زیبائش کرکے بعض خواتین مخلوط محافل میں شمع حسن بن کر بے حیائی پھیلاتی ہیں۔ اسی طرح بد معاش ،و بے حیا دیوث مرد مختلف فریب کاریوں سے عورتوں کو گناہ کی طرف مائل کرتے ہیں۔اس طرح بعض عیار و مکار خدا سے باغی بدکار مردوں نے اپنی سفلی جذبات کی تسکین کے لئے عورتوں کو بے پردگی کی جانب راغب کیا اور کر رہے ہیں۔ عورت کی سادہ لوحی سے فائدہ حاصل کرتے ہوئے اسے زیادہ سے زیادہ عریاں کیا تاکہ وہ شمع محفل بن کر مردوں کا دل لبھاتی رہے تاکہ اسے ہر جائز حقوق سے محروم کردیاجائے۔ اس سے خاندانی نظام درہم برہم ہوکر رہ گیا۔دشمن عفت وحیا استعمار اور اغیار کی پوری فکر و کوشش ہے کہ پوری دنیا میں عورت کونام نہاد آزادی دلائی جائے۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے مختلف ناموں سے خواتین کی۔ انجمنیں اور سوسائٹیاں قائم کروائی ہیں ،کثیر رقوم خرچ کر رہے ہیں تاکہ مسلم معاشرہ اپنی میراثِ شرم و حیا سے کوسوں دور ہوجائے۔
(بقیہ جمعرات کے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں)