’’ویلنٹائن ڈے ‘‘کے نام پر ہر سال کھلے عام اور بلا روک ٹوک سماج میں بےحیائی اور جنسی بھوک کا ننگا ناچ چلتا ہے ۔ یہ میلہ اخلاق سے عاری مغربی کلچر کا ایک جزولاینفک ہے۔ہمارے لئے اس بات کو جاننا بے حد ضروری ہے کہ آخر یہ ویلنٹائن ہے کون سی بلا ۔ مغربی تہذیب کے سنڈاس میں پیدا شدہ اس خباثت اور بےحیائی کی شروعات کہاں سے، کس وجہ سے اور کس کے ذریعے عام ہوئی ہے۔دراصل ’’ویلنٹائن‘‘ ایک یہودی پادری کا نام تھا جس نے انگلینڈ میں شادی سے پہلے لڑکے لڑکیوں کے بیچ ناجائز تعلقات اور بدکاری کو جائز قرار دے دیا تھا۔ا س وجہ سے انگلینڈ کی حکومت نے ویلنٹائن کو 14 فروری کو بد اخلاقی پھیلانے کے جرم میں پھانسی کی سزا دے دی۔ اس مردود کے مرنے کے بعد اس کے ہم خیال مریداور انگریزوں کی نئی نسل نے اسے اپنا ’’لَو گرو ‘‘مانتے ہوئے ا س کی خبیث یاد میںہر سال 14 فروری کو ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ یا ’’یو م محبت‘‘ منانا شروع کردیا ۔ اس خباثت کی دیکھا دیکھی میںآج بعض نادان مسلم نوجوان لڑکے لڑکیاں بھی بڑے جوش و خروش سے اس بےحیادن کو منا کر اپنا اخلاقی حلیہ بگاڑ تے جارہے ہیں ۔’’ویلنٹائن ڈ ے‘‘کے نام پر غیر مسلم نوجوان لڑکوں لڑکیوں میں بھی جس قدر بےحیائی عروج پر ہوتی ہے ،اس کو الفاظ کے جامے میں بیان کرنا از حدمشکل ہے۔ اس زمانے میںبے حیا ئی کاعالم یہ ہے کہ کمسن لڑکے لڑکیاں اورسمجھ دار نوجوان ہی نہیں بلکہ بعض بڑی عمر والے افراد بھی اس دن کو جشن ِ بہاراںکی طرح منانے میں کوئی شرم محسوس نہیںکر تے ہیں۔اس روز بازاروں میں سرخ و گلابی گلدستوں کی دُھوم مچ جاتی ہے کہ سارا بازار سرخ رنگ میں رنگ جاتا ہے، لڑکے لڑکیوں میں تحفے تحائف کے لین دین کی بھرمار ہو جاتی ہے، ہوٹل، ریزارٹس، پارکوں ، سنیماؤں اور دیگر پبلک مقامات ناچ نغمے اور شراب وشباب کی خباثت گاہیں بن جاتے ہیں۔ اس روز شرارتی لڑکے لڑکیوں کو کھلی آزادی دینے کے لئے کچھ لوگ دلا لی تک کرتے ہیں۔ دیکھا یہ جاتا ہے کہ کمسن اور ناسمجھ لڑکے لڑکیاں چودہ فروری کے انتظار میں دن دن گنتے ہیںاور بڑی بے تابی سے اس کی آمد کےمنتظر رہتے ہیں۔ اس دن نام نہاد’’ محبت ‘‘پروان چڑھانے کے لئے کئی کئی دن تیاریاں زور وشورسے چلتی رہتی ہیں۔اس کے لئے والدین کی جیبوں پرڈاکے بھی ڈالے جاتے ہیں تا کہ ویلنٹائن پارٹنر کو تحائف دینے کا چکر چلا یا جاسکے ۔اس کے لئے کبھی جھوٹ اور کبھی چوری چکاری تک بھی کی جاتی ہے ۔ ایک گناہ کی چاہت میں نہ جانے کتنے کبیرہ گناہ سرزدہو جاتے ہیں ۔ سنا تو یہ بھی جاتاہے کہ اس دن سرخ و سیاہ رنگ کے لباس کا بھی اہم کردار ہوتا ہے ،مثلاً جس لڑکے لڑکی نے سرخ یا سیاہ لباس پہنا ہو وہ خود کو اینگیج بتاتے ہیں، جنہوں نے پنک کلر کا پہنا وا زیب ِ تن کیاہو، اس کا مطلب دعوتِ عام ہوتی ہے کہ کوئی بھی آکر ان سے’’ اظہارِ محبت‘‘ کرسکتا ہے۔کہتے ہیں ویلنٹائن ڈے کی شروعا ت 7 فروری سے ہی کیاجاتا ہے اور ہر دن کو ایک الگ بے ہودہ نام دیا گیا ہے جیسے 7 فروری کو روز ڈے، 8 فروری کوپوز ڈے، 9 فروری کو چاکلیٹ ڈے، 10 فروری کو ٹیڈی ڈے، 11 فروری کومس ڈے، 12 فروری ہگ ڈے، 13 فروری کس ڈے اور آخر میں 14 فروری ویلینٹائن ڈے کو بےحیائی کی تمام حدیں پار کرتے ہوئے اپنے ساتھ ساتھ اپنے خاندان اور معاشرے کو سرِعام ذلیل کر شرمسار کیا جاتا ہے۔استغفراللہ !
ایک وقت تھا جب محبت ایک پاکیزہ احساس ہوا کرتی تھی کہ شرم وحیا کی سرحد کبھی بھی پھلاندی نہ جاتی بلکہ پاک انداز میں محبت آنکھوں سے شروع ہوکر نکاح کے رشتے میں ڈھلتی اورپاکیزگی کے لباس میں تاحیات زوجین کوایک دوسرے سے وفاؤں کی مضبوط ڈور میں باندھ لیتی ۔ ا س پاک رشتے کا چمن ہر پل اظہارِ محبت سے سیراب ہوتا رہتا، یہ چیز مخصوص دن، وقت، جگہ یا تاریخ کی محتاج ہوتی اور نہ اپنے وجود سے ویلنٹائین ڈے کی طرح سماج یا خاندان میں کسی کا سر نیچا کر تی، بلکہ اس کے برعکس پاک محبت سےہر ایک کا سینہ فخر سے پھلا دیتی، اپنوں کا مان، شان اور غرور وتمکنت کا باعث بنتی، لیکن آج یہ کیسی خباثت نما محبت ہے جو عزت دار گھرانوں سے نکل کر کھلے عام سڑکوں، چوک چوراہوں، ریستورانوں سے ہوکر پارکس اور ہوٹلس کے کمروں کی تنہائی میں دم توڑ دیتی ہے،اورپل بھر کی خوشی اور چند جھوٹے و عدوں کے ساتھ معصوم لڑکی کو بالخصوص بربادی کی چوکھٹ پہ لاکے کھڑا کر دیتی ہے۔اس بربادی کی قیمت کم عمر اور ناسمجھ لڑ کیوں کو ہی نہیں بلکہ خاندان کے بزرگوں تک کو چکانی پڑتی ہے ، خاص کر ماں باپ اور گھر کے تمام افراد اس غلاظت کا بوجھ بدنامی کی صورت میں سر لے کر جیتے جی مرجاتے ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ آخر یہ ویلنٹائن ڈے کی ابلیسیت منانے میں رکھا کیاہے جو ہر ملک میں یہ بلا اتنی تیزی سے یہ رواج پا رہی ہے؟اس وبا کی زد میں ہر مذہب اور ثقافت سے جڑے نوجوان جوڑے بڑھ چڑھ کر کیوں حصہ لے رہے ہیں؟اخلاق باختہ اور ہوش وحواس سے فارغ لڑکے لڑکیاں اس دن خود کو رومیو جولیٹ، ہیر رانجھا، شیریں فرہاد اور لیلیٰ مجنوں سمجھ کر فلمی اسٹائل میں محبت جیسے نایاب احساس کی بے حرمتی کا جرم کیوںکر تے ہیں ؟یہ لوگ اپنی گندی ہوس کی خاطر اپنی ساری زندگی کیوں داغ د ار کر تے ہیں؟کیا محبت صرف اسی ہوس بھرے ایک دن کا نام ہے؟ کیا محبت کا پاک رشتہ اس ایک دن میں محدود ہوکے رہ گئی ہے جو یہ 14 فروری کے دن کی محتاج ہو ؟؟؟ بہر حال یاد رکھئے آج ویلنٹائن ڈے کے نام پر بے وقوف بچے اور بچیاں جو کچھ کر گرزتے ہیں، ان کو سیدھی راہ پر رکھنے کے لئے والدین کو ہمیشہ چوکنا رہنا چاہیے تاکہ آگے چل کر بچیوں کو دی گئی غیر ضروری’’ آزادی‘‘ اُن کو اتنی نہ بگاڑ کر رکھ دے کہ والدین کی لاڈلی پارکوں اور ہوٹلوں میں اپنی’’ محبت بھری‘‘( ہوس بھری) وقت گذاری کر کے اپنا سب کچھ نہ گنوا بیٹھے ۔وقت پر جاگ جائیں اور اپنی بیٹی یا بہن کو ویلنٹائن ڈےکے نام پر بےحیائی کی بھینٹ نہ چڑھنے دیں اور والدین اپنے سر ایسا قرض ہے۔ یہ خباثت وغلا ظت غیر قوموں کی لائی ہوئی آفت ہے جس کی تقلید اور مشابہت کر نےسے ہم مسلمانوں کو بچنے کی ہر ٹھوس کوشش کر نی چاہیے ۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ آقا ئےدو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے جو شخص جس قوم کی مشابہت کرے گا ، وہ انہیں میں سے ہوگا۔(ابوداؤد)