جمہوریت اور آئین کی توہین | پابندیاں تاریخ سے ناانصافی:ڈاکٹر فاروق
عظمیٰ نیوز سروس
سرینگر//نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے 13 جولائی کے موقع پر مزارِ شہداء جانے پر پابندی کو جمہوریت اور آئین کے منافی قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوامی نمائندہ جماعتوں کے قائدین اور کارکنوںکو مزار شہداء جانے سے روکنا ظلم و جبر کی علامت ہے اور اس عمل سے بنیادی جمہوری اقدار کو ٹھیس پہنچی ہے۔ڈاکٹر عبداللہ نے ایک بیان میں کہا کہ ہر سال 13 جولائی کو عوام، خاص طور پر عوامی نمائندوں کی جماعتیں 13جولائی کے شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے مزارِ شہداء پر حاضری دیتی رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 1931 کے شہداء نے شخصی راج کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تاکہ عزت نفس، وقار اور انسانیت کے اصولوں کی حفاظت کی جا سکے۔انہوں نے کہا کہ آج ان ہی شہداء کی یاد میں منعقدہ روایتی فاتحہ خوانی کو روکنا اور عوام کو گھروں میں محصور کرنا بنیادی انسانی حقوق اور جمہوری عمل کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ان کے مطابق ’’شہداء نے اپنے خون سے تاریخ رقم کی اور نیشنل کانفرنس نے ہمیشہ ان کے مشن کو زندہ رکھا ہے‘‘۔ڈاکٹر عبداللہ نے کہا کہ ملک کے آئین اور جمہوری نظام میں ظلم، جبر اور ناانصافی کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور حق کی آواز کو دبانا کسی بھی صورت میںقابل قبول نہیں ہو سکتا۔ان کے مطابق اس طرح کی پابندیاں نہ صرف تاریخ سے ناانصافی ہے بلکہ آئینی آزادیوں پر قدغن کے مترادف ہیں۔نیشنل کانفرنس کے جنرل سیکریٹری علی محمد ساگر نے حکومت کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ جو لوگ آئین اور جمہوریت کے تحت انتظامیہ چلانے کا دعویٰ کرتے ہیں، ان کے اقدامات ان کے بیانات کے سراسر برعکس ہیں۔
دل کی دوری یونہی ختم نہیں ہوتی | ہمارے ہیروز کو تسلیم کریں:محبوبہ
عظمیٰ نیوز سروس
سرینگر// پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی صدر محبوبہ مفتی نے 13 جولائی کے شہدا کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے حکومت کی تنقید کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک کشمیر کے ہیروز کو قومی سطح پر تسلیم نہیں کیا جاتا’دل کی دوری‘ ختم نہیں ہو سکتی۔ محبوبہ مفتی نے ایکس پر پوسٹ کیاکہ ایک دن آپ ہمارے ہیروز کو بھی اپنا مانیں گے، جیسے کشمیریوں نے مہاتما گاندھی اور بھگت سنگھ جیسے قومی ہیروز کو اپنایا، اْس دن واقعی، جیسا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا تھا، ‘دل کی دوری’ ختم ہو جائے گی‘‘۔انہوں نے الزام لگایا کہ سرینگر میں مزارِ شہدا کی طرف جانے والے راستوں کو بند کیا گیا اور لوگوں کو گھروں میں محصور کر کے مزار شہداجانے سے روکا گیا‘‘۔محبوبہ مفتی نے 13 جولائی کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا’’یہ دن اْن شہدا کی یاد میں منایا جاتا ہے جنہوں نے ظلم و جبر کے خلاف آواز بلند کی، جیسے کہ ملک کے دیگر حصوں میں ہزاروں لوگوں نے کیا۔ وہ ہمارے ہیرو تھے اور ہمیشہ رہیں گے‘‘۔
شہداءہمارا سرمایہ | یادداشت سے مٹایا نہیں جاسکتا:میرواعظ
عظمیٰ نیوز سروس
سرینگر//میرواعظ محمد عمر فاروق نے 13جولائی 1931کے شہدا ء کو ان کی برسی پر شاندار خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کشمیری عوام کے اجتماعی حقوق، انصاف اور وقار کیلئے جو قربانیاں دیں، وہ ناقابلِ فراموش ہے۔میرواعظ نے کہا’’ ان عظیم قربانیوں کو ہماری یادداشت سے کبھی مٹایا نہیں جا سکتا‘‘۔انہوں نے کہا کہ یہ شہدا ہمارے دلوں میں زندہ ہیں، ہماری تاریخ کا حصہ ہیں اور ہماری جاری جدوجہد کا سرمایہ ہیں‘۔میرواعظ نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ شہدا کی یاد میں پرامن تقریبات کی اجازت نہ دینا، کسی بھی جمہوری سماج کے لیے افسوسناک اور ناقابلِ قبول رویہ ہے۔
وزیراعلیٰ کو کون روک سکتا تھا؟ | جان بوجھ کر دلی چلے گئے
عظمیٰ نیوز سروس
سرینگر//اپنی پارٹی کے سربراہ الطاف بخاری نے شہداء کو خراج عقیدت ادا کرنے کیلئے مزار شہدا نہ جانے پر حکمران نیشنل کانفرنس کو شدید الفاظ میں ہدفِ تنقید بنایا۔اپنے ایک بیان میں بخاری نے کہا’’ یہ ستم ظریفی ہے کہ ایک جانب حکمران نیشنل کانفرنس کا دعویٰ ہے کہ وہ 13 جولائی 1931کے شہدا کو خراج عقیدت ادا کرتی ہے اور دوسری جانب اس جماعت کے لیڈران نے مزار شہداء جاکر ان شہیدوں کو خراج عقیدت ادا کرنے کی کوشش بھی نہیں کی‘‘۔انہوں نے کہا’’یہ بات قابل فہم ہے کہ حکومت اپنی خواہش نہ ہونے وجہ سے 13جولائی کو سرکاری تعطیل کا اعلان کرنے میں ناکام رہی لیکن وزیر اعلیٰ اور ان کی کابینہ کے ساتھیوں کو آج کے دن مزاز شہدا جانے سے کون روک سکتا تھا؟ ان کا مزار شہدا جانا نہ ہی کوئی جرم ہوتا اور نہ ہی کسی قانون کی خلاف ورزی۔اپنی پارٹی کے رہنما نے کہا کہ کیا اب حکمران جماعت کہے کہ کہ وزیر اعلیٰ اور ان کی کابینہ کے ساتھیوں کو مزار شہدا جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اگر ایسا ہے تو اس سے اس حکومت کے اختیار اور اس کی اہمیت پر سوالیہ نشان کھڑا ہوتا ہے۔ پھر لوگ ایسی حکومت سے کس چیز کی توقع رکھ سکتے ہیں؟ دریں اثناء بخاری نے انتظامیہ کی طرف سے پارٹی قیادت کو مزار شہدا جانے سے اور پارٹی صدر دفتر پر دعائیہ مجلس منعقد کرنے سے روکنے کیلئے کئے گئے اقدامات پر اپنی مایوسی کا اظہار کیا۔ بخاری نے ایکس پر لکھا’’ مزار شہدا نقشبند صاحبؒ سرینگر جانے کی اجازت نہ دینے کے بعد اب انتظامیہ نے ہمارے پارٹی آفس کو بھی مقفل کردیا ہے، جہاں ہم آج 1931کے شہدا کی یاد میں دعائیہ مجلس کا انعقاد کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ شیخ باغ میں میری رہائش گاہ کے گرد نواح میں پولیس کی بھاری نفری تعینات کردی گئی ہے تاکہ میں اپنے ساتھیوں سے مل نہ سکوں اور پارٹی آفس میں مجوزہ دعائیہ تقریب میں شرکت نہ کرسکوں۔ یہ اقدامات انتظامیہ کی ہٹ دھرمی اور آمرانہ رویے کی واضح مثالیں ہیں‘‘۔
جمہوری اقدار کے منافی | اصول روندے جا رہے ہیں:سجاد لون
عظمیٰ نیوز سروس
سرینگر// پیپلز کانفرنس کے صدر اور رکن اسمبلی ہندوارہ سجاد غنی لون کو سرینگر میں ان کی رہائش گاہ پر نظر بند کر دیا گیا۔ انہوں نے ایکس پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اس اقدام کو جمہوری اقدار کے منافی قرار دیا۔سجاد لون نے ایکس پر اپنی پوسٹ میں لکھا’’شہدا کے دن پر مزارِ شہدا جانا چاہتا تھا لیکن مجھے نظر بند کر دیا گیا ہے۔ گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ یہ کیسی جمہوریت ہے؟انہوں نے مزید کہا کہ یومِ شہدا صرف کشمیر ہی نہیں بلکہ پورے برصغیر کی اس مشترکہ تاریخ کی علامت ہے، جس میں لوگوں نے ظلم و جبر کے خلاف اپنی جانیں قربان کیں۔پیپلز کانفرنس کے ترجمان نے بھی اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا ’’کشمیر ی عوام کو اپنے تاریخی ورثے اور شہدا کی یاد منانے سے روکنا ناقابلِ قبول ہے‘‘۔سینئر کانگریس لیڈر سیف الدین سوزنے شہداء کوخراج عقیدت پیش کرتے ہوئے نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن سے اپیل کی کہ’ وہ میرے خلاف نظربندی کا نوٹس لے۔میں یہ بھی توقع کرتا ہوں کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کشمیر میں جاری ظلم و ستم کا نوٹس لے‘۔
شہداء کا ہمارے دلوں پرراج:تاریگامی
عظمیٰ نیوز سروس
سرینگر//سی پی آئی ایم لیڈرمحمد یوسف تاریگامی نے انتظامیہ کی پابندیوں پر سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’ آپ میں بند رکھ سکتے ہیں لیکن ہمارے دلوں سے 13جولائی کے شہدا کی یاد کیسے مٹائیں گے؟‘‘۔تاریگامی نے کہا کہ 13جولائی جموں و کشمیر کی تاریخ کا ایک اٹوٹ حصہ ہے۔ یہ تاریخ ان شہدا کی وجہ سے ہماری یاد میں نقش ہو گئی ہے جنہوں نے جموں و کشمیر میں جمہوریت کی خوشحالی، خود ارادیت اور ایک نئی شروعات کیلئے اپنی جانیں قربان کیں۔تاریگامی نے کہا کہ یہاں تک کہ پریم ناتھ بزاز جیسے مصنفین نے بھی اس دن کی اہمیت کو دستاویزی شکل دی ہے۔ ایسی قربانیاں شاید ہی کسی تحریک میں دیکھی گئی ہوں، ہاں، تاریخ میں غلطیاں ہوئی ہیں اور اصلاح کی ضرورت ہے، لیکن 13 جولائی اس وقت کے حکمرانوں کے لیے ایک واضح پیغام تھا، جو تانا شاہی، جاگیرداری اور استحصال کے راستے پر چل پڑے تھے۔