سرینگر//’یوم شہدائے کشمیر‘‘کے موقعہ پر مشترکہ مزاحمتی قیادت کی طرف سے مزار شہداء نقشبند صاحبؒ چلو کال کو پولیس و انتظامیہ نے ناکام بنانے کیلئے شہر خاص کوسیل کیا اور کرفیو جیسی پابندیاں عائد کر کے پوری آبادی کو محصورکردیا ۔عام لوگوں کو مزار شہداء پر جانے سے روکنے کیلئے بیشتر راستوں کو خار دار تار وں سے بند کردیا گیا تھا اور چپے چپے پر پولیس وفورسز اہلکاروں کی تعیناتی عمل میں لائی گئی تھی،جس کے نتیجے میں دوسرے جمعہ بھی مسلسل جامع مسجد سرینگر کے ممبر و محراب خاموش رہے۔اس دوران حریت(ع) چیئرمین میر واعظ عمر فاروق نے خانہ نظر بندی توڑنے کی کوشش کی جس کے دوران موصوف کو حراست میں لیا گیا ۔ادھر بیروہ میں جاں بحق شہریوں کے حق میں غائبانہ نماز جنازہ ادا کیا گیا،جبکہ کولگام،شہر خاص اور بیروہ میں سنگبازی کے واقعات رونما ہوئے۔
پائین شہر سیل
پائین شہر جمعہ کو مکمل طور پر سیل رہا اور سرکاری تقریب کے سوا یہاں دوسری کوئی تقریب منعقد کرنے کی اجازت نہیں دی گئی ۔ مشترکہ مزاحمتی قیادت کے پروگرام کو ناکام بنانے کیلئے شہر خاص میں کرفیو جیسی پابندیاں عائد کی گئیں جس کے نتیجے میں یہاں ہر طرف ہو کا عالم دیکھنے کو مل رہا تھا اور پوری آبادی گھروںمیں محصور ہوکر رہ گئی تھی ۔ پولیس اسٹیشن ، رعناواری ، خانیار ، نوہٹہ ، ایم آر گنج ، صفا کدل کے حدود میں آنے والے علاقوں میںامن وقانون کی صورتحال کو برقرار رکھنے اور ممکنہ احتجاجی مظاہروں کو روکنے کی غرض سے سخت ترین پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔ مزار شہداء واقع نقشبند صاحبؒ کی طرف جانے والے تمام راستوں کو خار دار تاروں سے بند کردیا گیا تھا اور عام لوگوں کو مزار شہداء کی طرف جانے کی اجازت نہیں دی گئی ۔ شہر خاص میں غیر اعلانیہ کرفیو کی زد میں آنے والے علاقوں کے لوگوں نے بتایا کہ انہیں جمعہ کی صبح سے گھروں سے باہر آنے کی اجازت نہیں دی گئی ۔ سڑکوں ، گلی کوچوں اور نکڑوں پر تعینات پولیس اور سی آر پی ایف کے اہلکاروں نے انہیں سختی کے ساتھ گھروں سے باہر آنے سے منع کر دیا ۔ سیول لائنز سے مزار شہداء واقع نقشبند صاحبؒ خواجہ بازار کی طرف جانے والی سڑکوں پر جگہ جگہ پولیس اور فورسز کے خصوصی دستے تعینات کئے گئے تھے جبکہ بیشتر مقامات پر شہر خاص میں سڑکوں پر آواجاہی کو ناممکن بنانے کیلئے جگہ جگہ خار دار تاریں بچھا کر رکائوٹیں کھڑی کر دی گئی تھیں ۔جامع مسجد سرینگر کے ارد گرد بھی سخت پہرہ بٹھا دیا گیا،جبکہ کسی بھی شہری کو اس جانب جانے کی اجازت نہیں دی گئی،جس کی وجہ سے نماز جمعہ کے موقعہ پر جامع مسجد سرینگر میں اذان نہیں گونجی،اور مسلسل دوسرے جمعہ بھی نماز کی ادائیگی ممکن نہ ہوسکی۔
ہڑتال
۔13جولائی1931کے شہدائے کشمیر کی یاد میں مزاحمتی قیادت سید علی گیلانی ،میرواعظ عمر فاروق اور محمد یاسین ملک نے مکمل کشمیر بند کی کال دی تھی، جس کے پیش نظر وادی کے شمال وجنوب میں جمعرات کو مکمل ہڑتال رہی اور عام زندگی پٹری سے نیچے اتر گئی۔ سرینگر کے علاوہ وادی کے دیگر قصبہ جات اور علاقوں میں بھی مکمل بند رہا اور ہر طرف سکوت اور خاموشی چھائی رہی۔احتجاجی ہڑتال کی وجہ سے دکانیںاور کاروباری مراکز مکمل طور پر مقفل رہے ۔سرکاری تعطیل کے باعث سرکاری دفاتر و بنک بند رہے،جبکہ پبلک ٹرانسپورٹ سڑکوں سے غائب رہا جسکی وجہ سے ہر سو ہو کا عالم رہا۔بڈگام اور گاندربل میں بھی مکمل ہڑتال رہی۔جنوبی کشمیر میں دکانیں اور تجارتی مراکز بند رہے جبکہ سڑکوں پر گاڑیوں کی آمدورفت معطل رہی۔ ایسی ہی رپورٹیں وسطی کشمیر کے ضلع بڈگام اور گاندربل سے بھی موصول ہوئیں۔ وادی کے جنوبی اضلاع میں سخت ترین ہڑتال اور غیر اعلانیہ کرفیو کی وجہ سے زندگی کی رفتار تھم گئی ۔ نامہ نگار ملک عبدالسلام کے مطابق اننت ناگ قصبہ کے ساتھ ساتھ اچھ بل ،دیالگام ،مٹن اور عارف بلوچ کے مطابق کوکرناگ ،ڈورو ،ویری ناگ اور قاضی گنڈ علاقوں میں پولیس ،سی آر پی ایف و فوجی اہلکاروں کی تعیناتی عمل میں لائی گئی تھی ۔پلوامہ میں بھی سخت ترین ہڑتال کی وجہ سے سناٹاچھایا رہا ۔اس دوران شوپیان میں مکمل ہڑتال سے عام زندگی کا کاروبار مفلوج ہوکر رہ گیا جبکہ کولگام میں بھی ہڑتال کے دوران عام زندگی معطل ہوکر رہ گئی۔ شمالی کشمیر کے سوپور،پٹن اور دیگر قصبوں و تحصیل ہیڈکوارٹروں میں بھی علیحدگی پسند رہنماؤں کی اپیل پر مکمل ہڑتال کی گئی۔ بارہمولہ سے بھی مکمل ہڑتال کی اطلاعات موصول ہوئیں جہاں تمام تجارتی اور دیگر سرگرمیاں معطل رہیں۔ قصبے میں اولڈ ٹاون کو سیول لائنز کے ساتھ جوڑنے والے پلوں پر سیکورٹی فورسز کی اضافی نفری تعینات کردی گئی ہے۔بانڈی پورہ ،حاجن اور نائد کھے سمیت دیگر علاقوںمیں بھی مکمل ہڑتال کے دوران بازار صحرائیں مناظر پیش کر رہے تھے۔کپوارہ میں مکمل ہڑتال سے زندگی کی رفتار تھم گئی۔لنگیٹ ہندوارہ،کرالہ گنڈ ،کرالہ پورہ،ترہگام اور دیگر علاقوں میں تمام کارواباری ادارے بند رہیں،جبکہ ترہگام اور کپوارہ میں بندشیں عائد کی گئی تھی۔
احتجاج،جلوس
حریت(ع) چیئرمین میرواعظ عمر فاروق نے جمعہ کواپنی خانہ نظر بندی توڑتے ہوئے مزار شہداء کی طرف پیش قدمی کرنے کی کوشش کی جس دوران پولیس نے اُن کی گرفتاری عمل میںلائی ۔اس موقعہ پر انکے کارکنوں اور حامیوں نے نعرہ بازی بھی کی۔13جولائی کو ممکنہ احتجاجی مظاہروں کے پیش نظر مزاحمتی قیادت کو خانہ وتھانہ نظر بند رکھا گیا۔سید علی گیلانی اور محمد اشرف صحرائی،بدستوخانہ وتھانہ نظر بند رہے جبکہ محمد یاسین ملک گزشتہ کئی دنوں سے مقید ہیں۔ دیگر مزاحمتی لیڈر اور کارکن بھی تھانہ و خانہ نظر بند رہے۔اس دوران بیروہ بڈگام میں رواں ہفتہ کے دوران جاں بحق ہونے والے نوجوانوں کے حق میں غائبانہ نماز جنازہ ادا کیا گیا،جس کے بعد لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے جامع مسجد سے جلوس برآمد کیا،جس کے دوران اسلام و آزادی کے حق میں نعرہ بازی ہوئی۔عینی شاہدین کے مطابق اس دوران کچھ نوجوان مقامی ہائر سکینڈری تک پہنچ گئے اور فورسز پر سنگبازی کی،جبکہ فورسز نے انکا تعاقب کیا،جس کے دوران2نوجوانوں کو حراست میں لیا گیا۔اس سے قبل جمعہ کی صبح نوجوانوں نے پولیس کی ایک گاڑی کونشانہ بنایا تاہم پولیس نے کوئی بھی جوابی کارروائی عمل میں نہیں لائی۔ شہر خاص کے کئی علاقوں میں شام کے وقت سنگبازی کے واقعات رونما ہوئے۔ اندرونی کائو ڈارہ اور ریلوے برج راولپورہ میں گاڑیوں اور فورسز پر پتھرائو کیا گیا۔ نامہ نگار خالد جاوید کے مطابق کولگام کے او کے علاقے میں فوجی گاڑیوں پر سنگباری کی گئی،جبکہ مقامی لوگوں نے الزام عائد کیا کہ بعد میں فوج علاقے میں داخل ہوئی اور ایک درجن کے قریب مکانات کی توڑ پھوڑ کی۔