سرینگر// احتجاجی لہر کے121ویں دن وادی میں مزاحمتی لہر خاموش رہی جبکہ سرینگر میں خاتون کو گرفتار کرنے کی کوشش کے بعد احتجاجی مظاہرے ہوئے۔بانڈی پورہ میں فوجی کانوائے پر خشت باری ہوئی جبکہ کپوارہ میں طلاب نے احتجاجی جلوس برآمد کیا۔اس دوران اتوار کی وجہ سے دن بھر پٹری فروشوں کا بازار شباب پر رہا جبکہ ڈھیل کے دوران بازاروں میں تل دھرنے کی جگہ بھی نہیں رہی۔
سرینگر
سرینگر شہر کے حساس علاقوں میں سخت سیکورٹی بندوبست کے بیچ رعنا واری میں لوگوں نے گھروں سے باہر آکر پولیس کی مبینہ زیادتیوں کیخلاف صدائے احتجاج بلند کیا۔ احتجاجی مردوزن الزام لگارہے تھے کہ پولیس نے ایک خاتون شائستہ زوجہ مظفر احمد قصبہ ساکنہ میاں شاہ صاحب کی گرفتاری عمل میں لانے کیلئے انکے گھر میں چھاپہ ڈالا اور اس دوران افراد خانہ کو ہراساں کیا گیا۔ عینی شاہدین کے مطابق پولیس نے اتوار صبح میاں شاہ صاحب رعناواری میں مظفر احمد قصبہ کے گھر پر چھاپہ مارا اور مبینہ طور ہند مخالف احتجاجی مظاہروں میں پیش پیش رہنے والی انکی اہلیہ شائستہ کو گرفتار کرنے کی کوشش کی تاہم وہ وہاں پر موجود نہیں تھی۔مقامی لوگوں نے پولیس نے مظفر احمد کے گھروالوں کو دھمکی دیتے ہوئے شائستہ کو تھانے میں حاضر کرنے کیلئے کہا۔اس دوران مقامی لوگوں نے پولیس کی اس کاروائی کے خلاف سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے احتجاجی مظاہرہرے کئے۔مقامی لوگوں کے مطابق اس احتجاجی مظاہرے میں زیادہ تر خواتین موجود تھی جنہوں نے اسلام و آزادی کے حق میں نعرہ بازی کرتے ہوئے تھانہ کے باہر احتجاج کیا۔اس دوران گزشتہ دن مبینہ طور پر فورسز کی زہر کی وجہ سے جان بحق ہوئے شالیمار کے طالب علم کے اہل خانہ اور رشتہ داروں نے سرینگر کی پریس کالونی میں احتجاج کرتے ہوئے مظالبہ کیا کہ قیصر حمید کی موت میں ملوث اہلکاروں کو سزائیں دی جائیں۔انہوں نے ایک بار پھر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ انکے لخت جگر کو فورسز نے زہر دیکر مار ڈالا۔ادھر شام کے وقت شہرخاص کے کئی علاقوں میں سنگبازی کے واقعات رونما ہوئے جبکہ فورسز نے جوابی سنگبازی کے علاوہ ٹیر گیس گولوں کا استعمال بھی کیا۔ شہر کے آنچار اور ملحقہ علاقوں میں بندشین رہی جبکہ ان علاقوں میں تنائو کا ماحول نظر آی۔ادھر رواں ایجی ٹیشن کے 121ویں روز گر چہ کسی بھی علاقہ میں کرفیو نافذ نہیں رہا تاہم سنیچر کے روز عید گاہ علاقہ میں پر تشدد مظاہروں کے پیش نظر شہر کے حساس علاقوں میں پولیس اور فورسز کو چوکنا رکھا گیا تھا۔ اتوار کو صبح سے ہی ٹی آر سی،ریگل چوک،پولو ویو،لالچوک، بٹہ مالو ، جہانگیرچوک اور سیول لائنز کے علاوہ دیگر علاقوں میں سڑکوں پر چھاپڑی فروش بڑی تعداد میں نظر آئے ۔ اتوار کو صبح سرینگر سے مختلف علاقوں کی طرف چھوٹی مسافر بردار گاڑیاں بڑی تعداد میں روانہ ہوئیں جبکہ شمالی ، جنوبی اور وسطی کشمیر کے مختلف علاقوں سے بھی ایسی گاڑیاں سرینگر پہنچیں ۔ بٹہ مالو اڈے کے نزدیک شمالی کشمیر کی طرف جانے والی ٹاٹا سومو گاڑیوں کی ایک لمبی لائن کئی گھنٹوں تک صبح سے ہی دکھائی دی جبکہ اسی طرح کا منظر ڈلگیٹ کے نزدیک بھی تھا۔ تاہم 10بجے کے بعد سبھی شاہراہوں اور رابطہ سڑکوں پر چھوٹی مسافر بردار گاڑیاں بھی غائب رہیں اور اس طرح سے پورے دن نجی ٹرانسپورٹ کی کوئی سہولت دستیاب نہیں رہی۔ اتوار کو سہ پہر 4بجے سے کاروباری اور دیگر عوامی سرگرمیاں کئی گھنٹوں تک جاری رہیں کیونکہ مزاحمتی لیڈر شپ کی طرف سے جاری کئے جانے والے ہڑتالی کلینڈر میں اتوار کو بھی شام 4بجے سے ڈھیل رکھی گئی تھی۔ سرینگر شہر میں سیول لائنز کے تحت آنے والے بڑے بازاروں میں خریداروں کو خاصا رش دکھائی دیا جبکہ اس دوران لاتعداد گاڑیاں بھی سیول لائنز میں جگہ جگہ کھڑی دکھائی دیں ۔
وادی
بانڈی پورہ میں مجموعی طور پر صورتحال خوشگوار رہی تاہم کئی ایک جگہوں پر سنگبازی کے واقعات بھی پیش آئے۔نامہ نگار عازم جان کے مطابق قصبے میں اسٹیٹ بنک کے نزدیک اتوار صبح کو فوجی گاڑیوں پر خژت باری ہوئی جس کی وجہ سے وہاں کھلبلی مچ گئی۔عینی شاہدین کے مطابق اس دوران فورسز اور پولیس بھی جائے وقوع پر پہنچے جنہوں نے مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے انکا تعاقب کیا،مگر ان پر بھی سنگبازی ہوئی۔کچھ دیرر تک طرفین میں کشت باری وجوابی خشت باری ہوئی جبکہ بعد میں مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے ٹیر گیس کے گولے داغے گئے۔ادھر شولیمار میں میں نوجوان کی ہلاکت کے خلاف ضلع کے نسو علاقے میں لوگوں نے احتجاج کیا اور جلوس برآمد کر کے دھرنا دیا۔ذرائع کے مطابق اس موقعہ پر مظاہرین نے سڑک کو بھی بند کیا۔بانڈی پورہ کے وٹہ پورہ قاضی آباد میں بھی نوجوانوں نے سڑک کو بند کیا تھا اور کسی بھی گاڑی کو وہاں سے گزرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی تھی۔نامہ نگار کے مطابق نذیر احمد راتھر نامی تحریک حریت کے کارکن پر پی ایس ائے عائد کر کے انہیں کھٹوعہ جیل منتقل کیا گیا۔اس دوران آلوسہ میں فوج کی27آر آر کے بٹالین ہیڈ کوٹر میں آگ نمودار ہوئی جس کی وجہ سے ایک عمارت جل کر خاکستر ہوئی۔ادھروادی میں اسکولوں کو نذر آتش کرنے پر کپوارہ میں طالبعلموں نے احتجاج کیا ۔نامہ نگار اشرف چراغ کے مطابق کپوارہ کے آرمپورہ درگمولہ میں اتوار کی صبح طلبہ کی ایک بڑی تعداد نے سوپور کپوارہ سڑک پر آکر احتجاج کیا ۔ احتجاج میں شامل طلبہ نے اسکولوں کو نذر آتش کرنے والے عناصر کو فوری طور گرفتار کرکے انہیں کڑی سے کڑی سزا کی مانگ کی۔ احتجاجی طلبہ نے سرکار سے مطالبہ کیا وہ گرفتارشدہ طلبہ کی رہائی فوری طور عمل میں لائیں تاکہ ان کا مستقبل تاریخ ہونے سے بچ جائے ۔ شمالی کشمیر کے ضلع بارہمولہ میں بھی مجموعی طور پر صورتحال پرامن رہی اور اس دوران حساس علاقوں میں فوج اور پولیس کا گشت جاری رہا۔نمائندوں کے مطابق جنوبی کشمیر میں دن بھر صورتحال پرامن رہی۔شوپیاں کے کیلر علاقے میں گزشتہ دن جان بحق جنگجوئوں کو اسلام و آزادی کے نعروں کے بیچ سپرد خاک کیا گیا جبکہ اس دوران پورے علاقے اور نواحی بستیوں مین تنائو اور کشیدگی کا ماحول دیکھنے کو ملا۔انتظامیہ نے ممکنہ احتجاجی مظاہرون اور کسی بھی قسم کے نا خوشگوار واقعوں کو روکنے کیلئے اضافی فورسز اور پولیس اہلکاروں کو تعینات کیا تھا جبکہ انہیں کسی بھی صورتحال سے نپٹنے کی ہدایت دی گئی تھی۔پلوامہ،اننت ناگ اور کولگام میں بھی دن بھر کی کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا،تاہم اس دوران حساس علاقوں میں فوج،فورسز اور پولیس کا گشت جاری رہا۔ مزاحمتی جماعتوں کی طرف سے اتوار کی شام4بجے سے ہڑتال میں ڈھیل کی وجہ سے با رہمولہ ، سوپور ، ہندوارہ ، کپوارہ ، بانڈی پورہ ، گاندربل ، پلوامہ ، ترال ، اونتی پورہ ، پانپور ، شوپیان ، بڈگام ، چاڈورہ ، کنگن ، کولگام ، قاضی گنڈ ، شوپیان ، اسلام آباد ، کھنہ بل ، بجبہاڑہ اور شمال و جنوب کے دیگر قصبوں میں بھی ہڑتال میں ڈھیل کے دوران اتوار کو شام دیر گئے تھے بازاروں میں خاصا رش رہا جبکہ اس دوران بڑی تعداد میں گاڑیاں بھی سڑکوں پر دوڑتی نظر آئیں۔