تاریخ کا رُخ موڑ نے کے لیے قوت و صلا حیت ،انتہا ئی نا گزیرہے اور یہ قوت و صلاحیت خالق کا ئنات نے دور شباب میں رکھا ہے۔نوجوان طبقہ ہر قوم و ملت اور تحریک کے لیے ایک قیمتی سر مایہ ہو تا ہے۔یہی وہ طبقہ ہے جو ہر قوم و ملت کے لیے نہ صرف عظیم سر ما یہ بلکہ واحد امید کی کر ن بھی ہو تی ہے۔ نو جوان بلند عزائم کے مالک ہو تے ہیںاور کسی بھی قوم و ملت کی کامیابی و ناکامی ،فتح و شکست،تر قی و تنزل اور عروج و زوال میں اہم کردار ادا کر تا ہے ۔ہر انقلاب چاہے وہ سیاسی ہو یا اقتصادی،معاشرتی سطح کا ہو یا ملکی سطح کا ، سائنسی میدان ہو یا اطلاعاتی و نشریاتی میدان، غرض سبھی میدانوں میں نوجوانوں کا کردار نہایت ہی اہم اور کلیدی ہو تا ہے۔روس کا انقلاب ہو یا فر انس کا ،عرب بہا ہو یا مارٹن لوتھر کنگ کا بر پا کر دہ انقلاب ،ہر انقلاب کو بر پا کر نے کے پیچھے نو جوانوں کا اہم حصہ کار فر ما رہا ہے۔ماضی میں بھی جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہے ہر چھوٹی بڑی تبدیلی نو جوانوں ہی کے ذریعے آئی ہے۔زمانہ حال میں بھی ہر چھوٹی بڑی تنظیم یا تحریک چاہے سیاسی ہو یا مذہبی،سماجی ہو یا عسکری،ان میں نو جوان ہی پیش پیش ہیں۔ مستقبل میں بھی ہر قوم و ملک اور تنظیم انھی پر اپنی نگاہیں اور تو جہ مر کوز کیے ہو ئے ہے۔ اس وقت دنیا کی کل آبادی میں( World Population statistics) کے مطابق 50 فیصد آبادی پچیس سال کے نیچے کی عمر پر مشتمل ہے اس کا مطلب ہے کہ دنیا کے ہرکو نے میں نوجوانوں کی آبادی بڑھتی ہی جا رہی ہے۔لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ نو جوانوں کی صلاحیتوں اور اُن کی سرگرمیوں (Activism) کا صحیح رُخ دیا جائے۔ہر دور میں نو جو انوں کی صلاحیتوں اور اُن کی جہد و سعی سے بھرپور استفادہ کیا گیا۔آج بھی ہر قوم وملک اور تحر یک نو جو انوں کی بے پناہ صلاحیتوں کو برو ئے کار لانے میں لا پر واہی نہیں کر تا ہے۔آج نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی نو جو ان تو جہ کا مر کز بنا ہو اہے۔ دور حاضر میں نوجوان طبقہ بے شمار مسائل اور الجھنوں میں گھر اہوا ہے ۔ ایک طرف غیر متوازن نظام تعلیم کے مسائل کا سامنا کر رہا ہے تودوسری طرف اقتصادی مسائل سے دوچار ہے ۔ ایک طرف اگر وقت پر نکاح نہ ہونے کے مسائل سے دو چار ہے تو دوسری طرف بے روز گاری کے مسائل نے پر یشا نیوں میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ایک طر ف ناقص تعلیم و تر بیت اور حیا سوز مغربی فکر و تہذیب کے پیدا کر دہ مسا ئل نے اس کو پریشان کر رکھا ہے تو دوسری طرف نت نئے افکار کے پیدا کرد ہ مسائل اور لجھنوں کا انبار لگا ہو ا ہے ۔ جن سے سماج کا یہ اہم طبقہ تذبذب اور شکوک و شبہات میں مبتلا ہے ۔یہ بات واضح رہے کہ نوجوان طبقہ مسائل کا سامنا کرنے سے کتراتا بھی ہے ۔ کیونکہ ان کو اس سلسلے میں مطلوبہ رہنمائی نہیں مل پارہی ہے تاکہ وہ ان مسائل سے باآسانی نبرد آزما ہو سکے ۔اس سلسلے میں ماں باپ ،علما ء اور دانشوروں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مربیانہ رول اداکریں تاکہ نوجوان طبقہ مستقبل میں قوم وملت اور سماج کی تعمیر اور اصلاح کے لئے مؤثررول ادا کر سکے۔
اقوامِ متحدہ نے بھی اس حوالے سے دلچسپی دکھانا شروع کیا ہے۔1998ء میں8 سے12 اگست تک چلنے والی ایک کانفرنس World Confrence Of Ministers Responsible For Youth) ) میں ایک قرار داد پاس کی گئی جس میں جنرل اسمبلی نے ہر سال 12اگست کو نوجوانوں کا عالمی دن (International Youth Day)منانے کا فیصلہ کیا اور اس کا نفوذ 2000ء میں ہوا۔تب سے لے کر آج تک اقوامِ متحدہ ہر سال 12اگست کے دن کو نو جوانوں کے حوالے سے کو ئی نہ کو ئی عنوان مقرر کر تا ہے۔اور اُس دن نوجوانوں کے تئیں مختلف مسائل اور ایشوز کوAdress کیا جاتا ہے۔
اسلام کیر ئیر اور مستقبل کو خوب سے خو ب تر بنانے اور نکھارنے سے منع نہیں کر تا ہے۔اسلام تو قاعدے اور سلیقے کے ساتھ منظم اور اچھے طر یقے سے کیر ئیر بنانے پر زور دیتا ہے اور اس بات کی بھی تلقین کر تا ہے حُسن ِعمل (Excellence) کسی بھی لمحے آنکھوں سے اوجھل نہ ہو جائے،اور اسلام اس بات کی بھی ترغیب دیتا ہے کہ کسی بھی کام کو انجام دینے کے لئے خوب سے خوب ترطریقہ اختیا ر کیا جائے البتہ اسلام جس چیز سے منع کر تا ہے وہ یہ ہے کہ دوسرے لوگوں سے منہ پھیر کر زند گی گزارے۔ اندھی کیر ئیر پر ستی ایک نو جوان کو سماج سے لگ تھلگ کر دیتی ہے۔ اس سے قرآن مجید نے صراحت کے ساتھ منع کیا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس حوالے سے حضرت لقمان کا قول نقل کیا ہے کہ انھوں نے اپنے بیٹے کو نصیحت کر تے ہو ئے فرمایا’’ اور تم لوگوں سے منہ پھیر کر بات نہ کر و‘‘۔ ( لقمان ۳۱: ۱۸)۔ صعر اصل میں ایک بیماری کا نام ہے جو عرب میں اُونٹوں کی گردن میں پائی جاتی ہے۔یہ بیماری جب اونٹ کو لگ جاتی ہے تو وہ اپنی گر دن کو دائیں بائیں گھما نہیں سکتا۔ بالکل اسی طر ح کیر ئیر پر ستی کے شکار نوجوانوں کا رویہ ہو تا ہے۔لہذا اس کیر ئیر پر ستی سے اجتناب کر نا چاہیے۔ نوجوانوں کے عالمی دن کے تئیں اقوام متحدہ نے 2016 کے لئے " Eradicating poverty and Achiving Sustainable Consumtion and Production " کے لئے عنوان مقرر کیا تھا تاکہ نوجوان طبقہ غربت کے خاتمہ کے لئے اور ترقی کے حصول کے لئے بیدار ہوجائیں ۔ 2017 کے لئے بڑے اہم موضوع کا انتخاب کیا گیا ہے جس کا عنوان "Youth Building Peace " ہے ۔یہ موضوع کافی اہمت کا حامل ہے کیوںکہ دور حاضر میں ہر جگہ قتل و غارت گری ، ظلم و دہشت ، جنگ و جدل ، ڈکیتی اور اغوا کاری بڑے پیمانے پر بڑھ رہی ہے ۔ ہر طرف خوف دہشت کاماحول برپا ہے کہ گھر سے نکلنے والے کسی شخص کو یہ امید نہیں رہتی کہ کہ وہ خیریت سے گھر واپس آئے گا ۔خون کی ندیاں ہر جگہ بہ رہی ہیں اور ایسے ایسے جرائم ہورہے ہیں کہ زمین کانپ رہی ہے اور اور آسمان لرز اٹھ رہے ہیں ۔ امن امان ، صلح و آاشتی ، پیار و محبت کا فقدان ہر دنیا کے کونے میں نظر آہا ہے۔ ان حالات میں ایک انسان جائے تو کہاں جائے گویا :پائے رفتن نہ جائے ماندن ظلم و جبر اور جرائم کو انجام دینے میں نوجوانوں کا کلیدی رول ہوتا ہے وہ کسی بھی وقت پرامن ماحول کو بگاڑ سکتے ہیں وہ قوم و ملت کی شانتی اور سلامتی کے راستے کا روڑا بنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں ۔یہ بات بھی قابل غور ہے کہ نوجوان ہمت و حوصلے اور جزبات سے لبریز ہوتے ہیں اور اگر ان کے گرم خون اور ان کے جزبات کے ساتھ کھیلا جائے ۔تو امن و امان قیامت تک قائم نہیں ہوسکتا۔ نوجوان طبقہ اگر بیدار ہوجائے اور اپنی حساسیت ، سنجیدگی اور اور اپنی ذمہ داریوں کو انجام دینے لگے، تو امن کے نقیب اور اس کے داعی بنے میں کوئی انہیں کوئی نہیں روک سکتا ۔ان کے بیدار ہونے اور مثبت رول ادا کرنے سے قوم ملت صحیح سمت اختیا ر کر سکتا ہے اور وہ دن دور نہیں جب یہ دنیا امن امان کا گہوارا بن جائے گا ۔لیکن یہ بات واضح رہے کی نوجوانوں کو امن و امان قائم کرنے کا صحیح شعور صرف اسلام دے سکتا ہے ۔ اسلام امن و امان کو قائم کرنے کی بے حد تلقین کرتا ہے اور اسلام کا لفظ سلم سے نکلا ہے جس کے معنی امن کے ہوتے ہیں ۔ایک حدیث میں یہ الفاظ وارد ہیں کہ: سلامتی اسلام کا جزء ہے(بخاری، کتاب الایمان )۔ اسی طرح حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ : مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور جس کے ہاتھ سے لوگ امن میں رہیں (سنن النسائی )۔اللہ تعالیٰ خود سلام ہے اور وہ سلامتی کو پسند کرتا ہے اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ہے : اللہ تعالیٰ کود سلامتی ہے ( بخاری ،کتاب الاذان) ۔
9045105059