پیارا کتا
ٹیلی فون کی رِنگ سے ڈاکٹر وکاس جین کا گھر گونج اٹھا۔ اداس چہرا لیے ڈاکٹر صاحب نے فون ریسیو کیا تو دوسری جانب سے آواز آئی:
’’ہیلو ڈاکٹر صاحب! میں ’راشٹر ماتا رانی پدماوتی وردھ آشرم‘ سے بات کر رہا ہوں۔ اخبار میں اشتہار دیکھ کر معلوم ہوا کہ آپ کا پیارا کتا دو روز سے لاپتہ ہے۔ دراصل آپ کا کتا ہمارے آشرم آ گیا ہے۔ وہ آپ کی ’ماں‘ کے ساتھ کھانا کھاتا ہے اور سوتا ہے ۔ ان کے ساتھ دن بھر کھیلتا رہتا ہے!
آپ یہاں آئیں اور اپنا ’کتا‘ واپس لے جائیں۔ شکریہ!‘‘
باباسیٹھ کا چبوترا
باباسیٹھ کے چبوترے پر اکثر لوگ رات کو جمع ہوتے اور گپ شپ کیا کرتے تھے۔
کئی دنوں سے سیٹھ نے محسوس کیا کہ نعیم چاچا روز دیر رات تک خاموش بیٹھتے اور باقیوں کی باتیں سنتے رہتے۔ آج سیٹھ نے پوچھا:
’’نعیم میاں!تم روزکافی دیر تک بیٹھے رہتے ہو اورآخر میں گھر جاتے ہو۔۔ کیوں۔۔۔؟‘‘
نعیم چاچا نے اٹھتے ہوئے جواب دیا:
’’یہاں سے جو اٹھتا ہے، باقی اس کی برائی ضرور کرتے ہیں۔ کہیں میں اٹھ کر جاؤں اور میری برائی بھی شروع نہ ہو، اس لیے سب کے جانے کا انتظار کرتا ہوں۔‘‘
سوچھ بھارت ابھیان
آخری پکوڑا اٹھاتے ہی میری نظر اخبار کے ٹکڑے پر ٹک گئی جس پر پکوڑے پیش کئے گئے تھے۔ اس پر ایک سرخی درج تھی۔
’’موب لنچنگ میں ایک اور مسلم نوجوان کا قتلِ عام‘‘
اس ٹکڑے کو موڑ کر پھینکنے کے لیے مڑا تو ڈسٹ بن پر نظر گئی جس پر لکھا تھا۔۔۔
’’سوچھ بھارت ابھیان‘‘
اس ٹکڑے کو میں نے زمین پر ہی پھینک دیا۔
دکان دار کو یہ حرکت ناگوار گزری تو بول پڑا،
’’صاحب! ڈسٹ بن میں ڈالیں، آخر یہ کیا بات ہوئی؟‘‘
’’احتجاج! سرکار کے خلاف احتجاج!‘‘ میں نے اتنا کہا اور آگے بڑھ گیا۔