جن لوک پال
کافی عرصہ بعد ستیش کو سرکاری ہسپتال میں دیکھ کر مجھے سات سال پرانی اس سے ملاقات یاد آگئی۔
وہ اس روز ’میں انّا ہوں‘ لکھی ترچھی ٹوپی پہنے ہوئے چلا آرہا تھا۔ میرے پوچھنے پر گٹکا تھوک کر کہنے لگا،
”لوک پال کے لیے آندولن میں گیا تھا۔“
میں نے کہا، ”واہ!! بلیک میں ملنے والا گٹکا کھا کر کرپشن کے خلاف لڑائی! پتہ ہے نا؟؟؟ پابندی کے بعد بغیر رشوت خوری کے گٹکا نہیں بکتا۔“
وہ مسکرایا اور چل دیا۔
میں نے آج بھی پوچھا، ”ادھر کہاں؟ کیا ہوا تمھیں۔“
وہ بڑی مشکل سے بولا، ”منہ کا کینسر!“
لیڈیز ڈاکٹر
”بیٹا۔! بہو کی زچگی قریب ہے۔ کیا کوئی مسلم لیڈیز ڈاکٹر نہیں اس نئے شہر میں؟؟؟“ حاجی صاحب نے فکرانگیز سوال کیا۔
شہزاد، ”ابو رہنے دیں، جہاں سے علاج شروع ہوا ہے وہیں ڈیلوری کروا لیں گے۔“
ابو، ”کیسے شوہر ہو تم۔۔؟ کیا اب غیروں سے ڈیلوری کرواؤ گے؟“
شہزاد نے تلخ لہجے میں کہا، ”یہاں ایک ہی مسلم ڈاکٹر ہے۔۔۔!! ڈاکٹر شبانہ صدیقی۔“
ابو، ”کون شبانہ صدیقی؟“
شہزاد، ”میری کلاس فیلو۔۔۔ وہی جس کے ایم بی بی ایس میں داخلہ کے بعد اعلیٰ تعلیم کے خلاف احتجاجاً، آپ نے ہم دونوں کی منگنی توڑ دی تھی۔۔۔ وہی شبانہ صدیقی!“
چیپٹرسیون
”روہت! آپ نے چیپٹر سیون میں یہ سب کیا لکھا ہے۔۔۔؟؟“ روہت کے پی۔ایچ۔ڈی۔ گائیڈ نے تلخ لہجے میں کہا۔
”کہاں سر“ روہت نے گھبرا کر پوچھا۔
”یہی کہ۔۔۔ ہندوستانی مسلمان سیلف ایمپلائمنٹ میں سب سے آگے ہے۔ باقی مذہب کے مقابلے مرد اور عورت کا تناسب بہتر ہے۔ اولڈ ایج ہوم میں مسلم بزرگوں کی تعداد نہیں کے برابر ہے۔۔۔۔ کیا ہے یہ؟؟؟“
”سر یہ سب حقیقت پر مبنی ہے!“
”روہت!!! تم پی۔ایچ۔ڈی کرنے آئے ہو۔۔۔ حقیقت بیان کرنے نہیں! پھاڑ کر پھینک دو اسے۔۔۔“
اس طرح چیپٹر سیون پھاڑتے ہی روہت کو گائیڈ کے فائنل دستخط حاصل ہوگئے۔۔۔