بلال فرقانی
سرینگر// 2014 کے تباہ کن سیلاب کے دس برس گزرنے کے باوجود دریائے جہلم اور اس کے فلڈ چینلوں کی حالت میں کوئی بنیادی بہتری نہیں آ سکی اور ڈریجنگ کا سلسلہ بھی5برسوں سے ہنوز بند ہے۔ مرکز اور یو ٹی حکومت نے جو وعدے کیے تھے، وہ آج بھی یا تو فائلوں میں دفن ہیں یا آدھے ادھورے منصوبوں کی صورت میں زمین پر بکھرے پڑے ہیں۔ نہ ڈریجنگ مکمل ہوئی، نہ نیا منصوبہ تیار ہوا، نہ ہی کوئی نئی رپورٹ مرکز کو بھیجی گئی، اور یوں وادی آج بھی شدید خطرے کی زد میں ہے۔محکمہ آبپاشی و سیلاب کنٹرول کے مطابق دریائے جہلم کی ڈریجنگ کا عمل مارچ 2020 سے لے کر مارچ 2025 تک مکمل طور پر بند رہا ہے، حالانکہ ابتدائی کام کلکتہ کی کمپنی ’ریچ ڈریجرز‘کو سونپ کر مکمل ظاہر کیا گیا تھا۔ 2018 میں سینٹرل واٹر اینڈ پاور ریسرچ اسٹیشن کی رپورٹ میں سنگم سے عشم تک کے حصے میں ڈریجنگ کی مخالفت کی گئی، جس کے بعد پورے منصوبے کو عملی طور پر روک دیا گیا۔ یہی وہ وقت تھا جب جہلم کے اندر گاد دوبارہ جمنے لگی، اور آج اس کی گہرائی پہلے سے بھی کم ہو چکی ہے۔ دستاویزات کے مطابق ڈریجنگ کا کام پہلے’’ریچ ڈریجرز، کلکتہ‘‘ کو سونپا گیا تھا۔یہ بھی حیران کن انکشاف ہے کہ تاحال حکومت کو سیلابی خطرات کی روک تھام کیلئے کوئی تازہ پروجیکٹ رپورٹ پیش نہیں کی گئی۔ اگرچہ جہلم،توی فلڈ ریکوری پروجیکٹ نے ایک سٹڈی مکمل کی ہے، لیکن تفصیلی پروجیکٹ رپورٹ اب تک نہ تیار ہوئی ہے اور نہ مرکز کو بھیجی گئی ہے۔محکمہ کے مطابق مالی سال 2023-24کے دوران 670 کلومیٹر لمبے نہری نظام سے 2.90 لاکھ مکعب میٹر کیچڑ صاف کیا گیا۔ البتہ مالی سال 2024-25کے اعداد و شمار اب تک مرتب نہیں کیے گئے ہیں۔ وزیر اعظم ترقیاتی پیکیج کے تحت دریائے جہلم کے لیے ’’جامع فلڈ مینجمنٹ‘‘ منصوبہ 2015 میں منظور کیا گیا تھا، جسے دو مرحلوں میں نافذ کیا جانا تھا۔ پہلا مرحلہ، جس کی منظوری 399 کروڑ میں ہوئی تھی، مکمل ظاہر کیا گیا ہے۔ دونوں مرحلوں میں مجموعی طور پر 31 ترقیاتی کاموں کے ٹینڈر جاری کیے گئے، جن میں سے صرف 16 مکمل ہو سکے ہیں۔ تاہم اگرچہ یہ سب رقوم خرچ ہو چکی ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ فیز ون کے تحت جو 31 ترقیاتی کام منظور کیے گئے تھے ان میں سے صرف 16 مکمل ہوئے، باقی تاحال مختلف مراحل میں ہیں، اور مجموعی پیش رفت کو محض 80 فیصد قرار دیا جا رہا ہے۔جہلم کی بہاو گنجائش بڑھانے کیلئے جو کام کیے گئے ان کے نتائج اعداد و شمار میں نظر آتے ہیں۔محکمہ آبپاشی و فلڈ کنٹرول نے دعویٰ کیا ہے کہ ستمبر 2014 سے پہلے سنگم سے پادشاہی باغ تک دریا کی گنجائش 31,800 کیوسک تھی، جو اب 41,000 کیوسک ہو گئی ہے۔ رام منشی باغ میں 27,000 کیوسک سے بڑھ کر 32,000 کیوسک، پادشاہی باغ کے آوٹ فلو میں 4,000 کیوسک سے 8,700 کیوسک، وولر کے نگلی آوٹ لیٹ پر 20,000 کیوسک سے 22,700 کیوسک اور سوپور کے مقام پر 31,000 کیوسک سے 35,000 کیوسک تک کی بہتری آئی ہے۔اگرچہ ان اعداد و شمار سے کچھ بہتری دکھائی دیتی ہے، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ گنجائش ابھی بھی 2014 جیسے سیلابی خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ اس وقت صرف رام منشی باغ میں پانی کا بہاؤ 60,000 کیوسک سے زائد ریکارڈ کیا گیا تھا۔مالیاتی اعتبار سے کاغذوں پر مکمل ادائیگی ظاہر کی گئی ہے۔ وزیر اعظم ترقیاتی پیکیج فیز اول کے تحت 328.02 کروڑ واگزار ہوئے، جن میں سے 327.04 کروڑ خرچ ہو چکے ہیں۔ دوسرے مرحلے کیلئے 160.56 کروڑ کی رقم جاری و خرچ ہوئی ہے۔ اس طرح کل 488.58 کروڑ میں سے 487.60 کروڑ خرچ ہونے کی اطلاع دی گئی ہے۔ مزید یہ کہ مرکز سے حاصل شدہ 114.293 کروڑ کی امدادی رقم بھی پوری طرح استعمال ہو چکی ہے۔ماہرین کا ماننا ہے کہ ایسے میں جب بارشوں کی شدت، گلیشیئر پگھلنے اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے خطرات مزید بڑھ رہے ہیں، کشمیر میں دریائے جہلم اور اس کے سیلابی چینلوں کی موجودہ حالت خطرناک غفلت کی عکاسی کرتی ہے۔ ہزاروں کروڑ خرچ ہونے کے باوجود، جب نہ ڈریجنگ ہو رہی ہے، نہ مکمل منصوبہ بندی موجود ہے، نہ سبھی کام مکمل ہوئے ہیں — تو ایسے میں وادی کے لاکھوں مکین یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ کیا ہم پھر ایک اور تباہ کن سیلاب کے منتظر ہیں؟