ہندوستان کی تحریک آزادی میں ہندوستان کی تمام قومیتوں ، تمام طبقوں اورتمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے عوام نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیاہے اور قربانیاںدی ہیں لیکن ’’بھگوا بریگیڈ‘‘ کے مورخ اِس تاریخ حقیقت کو پس پشت ڈال کر ایسی تاریخ مرتب کررہے ہیں جس سے ظاہر ہو کہ اہل اسلام کا تحریک آزادی میں حصہ مفقود ہے۔ حالانکہ تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ مسلمان ہندوستان کے دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے عوام کے شانہ بشانہ تحریک آزادی کے دوران صف اول میں شامل رہے۔ ایسے تاریخی واقعات سے تاریخ بند بھری پڑی ہے۔ 10 ؍مئی جب ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی جسے انگریزوں نے غدر 1857کا نام دیاہے، انہیں نہ صرف قلم عوام بلکہ علمائے اسلام کی اُس بغاوت میں نمایاں کردار کو واضح کرتے ہیں اور ’’بھگوا بریگیڈ‘‘ کے دانشوروں کو مفروضات کو قطع کرتے ہیں۔دس مئی1857میں انگریزوں کے اقتدارکے خلاف ہندوستانیوں کی ولولہ انگیز جدوجہد تاریخ میں ’انقلاب عظیم‘ کے نام سے درج ہے لیکن انگریز مورخوں نے اسے’ غدر‘ کا نام دیاہے۔ حالانکہ یہ فرنگی اقتدارکے خلاف سرفروشانہ جدوجہد تھی جس سے خرد مندان مغرب تھرااٹھے ۔ ان کی برتری و فوقیت کاسارا غرورخاک میںمل گیا وار دیکھتے ہی دیکھتے مغلیہ شہنشانیت کی رگوںمیں تازہ خون دوڑنے لگا۔ بہادر شاہ ظفر نے انتظام حکومت سنبھال کر انگریزوں کے اقتدار کا خاتمہ کردیا ور خود انقلاب کے قائدبن گئے۔ ملک کا بیشتر حصہ دہلی، آگرہ، الہ آباد، کانپور، لکھنئو، بنارس، جھانسی، روہیل کھنڈ اور بہار انگریزوں کے قبضہ سے نکل گئے۔ معزول راجے، نواب ، رئیس، جاگیردار، زمیند ار دوبارہ اپنی گدی سنبھالنے لگے۔ پوری ایک صدی غیر ملکی حاکموں کی عمل داری میں گزارنے کے بعد ہندوستانی عوام کی یہ پہلی متحدہ کوشش تھی ملک کو اغیار کے ہاتھوں سے نکال کر حریت کا پرچم لہرانے کی۔
اس انقلاب کے لئے فضا عرصہ سے تیار ہورہی تھی جس میں نواب سراج الدولہ کی قربانی، سلطان ٹیپو کی شہادت، علماء کے فتوے، انگریزحکمرانوں کے حدسے بڑھے مظالم اور مذہبی عقائد ، تہذیبی و ثقافتی اقدار پرحملے سب اپنا اثر دکھارہے تھے۔ عام ہندوستانیوں کی طرح علماء حق بھی اس کی سنگینی وسفاکی کا احساس کرکے اپنے مدارس اور خانقاہوں سے نکل پڑے تھے اور عام لوگوں میں آزادی کا صور پھونکنے میں مصروف ہوگئے۔ خاص طورپر حضرت سید احمد شہید اور حضرت اسماعیل شہید نے انگریزوں کا تسلط ختم کرنے اور مسلمانوںمیں آگہی و بیداری کاچراغ روشن کرنے کے لئے اپنے ہم وطنوں کو ایسا جگایا اور اس جوش وخروش سے جہاد کی دعوت دی کہ ہمالیہ کی چوٹیوں سے لے کر بنگال کے میدانوں تک یہ تحریک پھیل گئی۔ شب وروز کی اس جدوجہد سے علماء و مشائخ اپنے حجروں سے نکل کر میدان عمل میں آکھڑے ہوئے۔ اس تحریک میںانقلاب کی ضرورت و اہمیت کا احساس ، شوق شہادت، جوش جہاد، جذبہ حریت ، احساس ذلت کا انسداد اور تدبیر و تنظیم کا مظاہرہ سبھی کچھ شامل تھے۔اس لئے پورے اعتماد کے ساتھ یہ دعویٰ کیا جاسکتاہے کہ 1857کی تحریک آزادی کا پودا علماء کرام کے خون سے سینچاگیا۔ ان کی سرفروشی کا جذبہ، وطن سے محبت، عزت نفس کا تحفظ، غیر ملکی اقتدار سے نفرت، مشنریوں کی ریشہ دوانیوں کے خلاف یہ شدید ردعمل تھا۔ علماء نے عام ہندوستانیوں میںبیداری و بے چینی کو تحریک میں ڈھال دیا جس کے ردعمل میں مئی انقلاب کا آغاز ہو ا۔ حالانکہ یہ علماء نہ پیشہ وارانہ سپاہی تھے نہ تنخواہ دار فوجی ، نہ انہوںنے کبھی تلوار اٹھائی تھی ، نہ فوجہ مشق میںحصہ لیاتھا، صرف اپنے عقیدہ و مذہب اور وطن کے دفاع کے لئے وہ جہاد پرکمر بستہ تھے ۔ ان کی تحریک نے تمام ہندوستانیوں کو اپنی ذلت ورسوائی کاانتقام لینے کے لئے کھڑا کردیا۔ ہندوستان وہ ملک ہے جہاںعلماء کرام نے انقلاب اور حصول آزادی کے لئے ہراول دستہ کے طور پر کام کیا جس سے وحشت زدہ ہوکر لارڈ میکالے یہ کہہ اٹھا کہ ہمیںہندوستان میں اقتدار مستحکم کرناہے تو اس کے لئے ایک ایسی نسل تیار کرناہوگی جو جوش جہاد سے عاری بظاہر ہندوستانی ہولیکن عقل ودماغ کے لحاظ سے فرنگی۔
1857ء کے انقلاب کے لئے دیوانہ وار جدوجہد کا آغاز 34؍ویں پیدل فوج کے ایک سپاہی منگل پانڈے کی انگریز حاکموں کے خلاف کھلی بغاوت سے بنگال میںہوا جس کو گرفتار کرکے سزائے موت دے دی گئی۔ اسی کے ساتھ اس جمعدار کو پھانسی پر چڑھادیاگیا جس نے منگل پانڈے کی بغاوت پر انگریزوں کے حق میں وفادارانہ رد عمل ظاہرکرنے کے بجائے ضمیر کی آواز پر خاموش رہنے کوترجیح دی تھی۔ پھربنگال کی یہ آگ پورے ملک میں پھیل گئی اور اس نے چوبیس اپریل 1857ء کو میرٹھ چھائونی کوبھی اپنی لپیٹ میں لے لیا، جہاں سب سے پہلے گھڑ سواروں کے تیسرے رسالہ میں شامل نوے میںسے 85سپاہیوں نے ان کا رتوسوں کو چھونے سے انکار کردیاجن کے بارے میں افواہ گرم تھی کہ ان میںگائے یا سور کی چربی لگائی گئی ہے۔ ان سپاہیوں کاکورٹ مارشل ہوا اور دس دس سال کی سزاپریڈ گرائونڈمیںلے جاکر سنائی گئی اور ذلیل کرکے ان کی وردیاں اُتاردی گئیں۔ اس ذلت آمیز سلوک کے رد عمل میں دس مئی کو تیسرے سوار دستہ کے تمام سپاہیوں نے قید خانے پر حملہ کرکے پہلے اپنے قیدی ساتھیوں کو آزاد کرایا۔ اس کے بعد ایک نئے جوش وجذبے کے ساتھ وہ انگریزوں سے ملک کو آزاد کرانے کے لئے میرٹھ سے دہلی کی جانب کوچ کرگئے۔ گیارہ مئی کی صبح یہ سپاہی دہلی کے لال قلعہ کے سامنے جمع تھے اور بہادر شاہ ظفر کو انقلاب کی قیادت کے لئے آمادہ کررہے تھے۔ جنگل کی آگ کی طرح بغاوت کی یہ آگ دوسرے شہروں میںبھی پھیلنے لگی۔ دیکھتے ہی دیکھتے پنجاب، مظفر نگر، علی گڑھ، اٹاوہ، مین پوری ،رڑکی ، ایٹہ، متھرا، لکھنئو، بریلی، شاہ جہاں پور، مراد آباد، بدایوں، اعظم گڑھ، سیتا پور، جہاں بہادر شاہ کا حکم چلتا رہا لیکن انگریز شاطروں نے آزادی کے اس مرکز کو توڑنے کے لئے پورا زور لگادیا۔ انہوں نے عوام کے جذبہ آزادی کو کچلنے کے لئے مکاری وعیاری دونوںسے کام لیا۔ لہٰذا بیس ستمبرکو انہیں اپنے ناپاک مقاصد میںکامیابی ملی اور دہلی پر پھر ان کا قبضہ بحال ہوگیا۔ جس کے بعد شہرمیں قتل عام شروع ہوا ۔ امراء درئوساء کی حویلیوں کو لوٹاجانے لگا۔ بہادر شاہ ظفر کے دو بیٹوں اور ایک پوتے کو ہڈسن نے گولی کا نشانہ بنادیا اور ان کی لاشیں کئی دن تک دہلی دروازے پر لٹکی رہیں تاکہ انگریزوں کا دبدبہ قائم رہے۔ جن ہندوستانیوں نے اس انقلاب میں حصہ لیاانہیں چن چن کر سولی پر چڑھادیا اور ان کے مکان مسمار کردئے گئے۔ دہلی میں جامع مسجد اور لال قلعہ کے درمیان جتنے امام باڑے ، مساجد اور مکانات تھے، ان سب کو ڈھا دیاگیا۔ صرف محلہ کو چہ چیلاں میں چودہ سو لوگوں کے سرکاٹ کر پھینک دئیے گئے۔ایک انگریز ولیم باروڑرسل لکھتاہے کہ میں نے دہلی میں انسانی خون کی جوار زانی دیکھی، اس کے بعد میری دعا ہے کہ ایسا دوسرا منظر اپنی زندگی میں نہ دیکھوں۔
حقیقت یہ ہے کہ اس ہولناک شکست کا وہ رد عمل سامنے آیا جو آبادی کو خس وخاشاک کے ڈھیروں اور انسانی بستیوں کو لاشوں کے انبار میںتبدیل کردیتاہے ۔ ایک مشت خاک کی بھی کوئی قیمت تھی لیکن انسانی سروں کی اتنی بھی نہیں، شریف اور پردہ نشین عورتوں پر بھنگیوں نے چڑھائی کرکے ان کے زیورات تک نوچ لئے اور پورا شمالی ہندمیدان حشر کا نقشہ پیش کررہاتھا۔ مرزا غالب کے الفاظ میں چوک مقتل اور گھر زنداں کے نمونے بن گئے تھے۔ 1857ء کی اس جنگ آزادی میںمسلمانوں اور علماء کرام نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس تحریک کے پرچم تلے ہزاروں مسلمان اور مدارس کے طلباء اساتذہ جمع تھے۔ لہٰذا شکست کے بعد ایک ایک کرکے ان کوہی موت کے گھاٹ اتار اجارہاتھا۔ ایک اندازہ کے مطابق اس جنگ میںدو لاکھ مسلمان اور اکاون ہزار علماء کرام شہید ہوئے۔ انگریزوں نے ایسی درندگی کا مظاہر ہ کیا جس کی نظیر تاریخ میں تلاش کرنے سے نہیںملتی۔ انگریز مورخ ایڈورڈ ٹالسن اپنی یاداشت میں رقم طراز ہیں کہ انگریزوں نے علماء اکرام کو ختم کرنے کے لئے جو منصوبہ بنایاتھااس کوعملی جامہ پہنانے میںانہوںنے نہ صرف تین سالوں میں چودہ ہزار علماء کو تختہ ٔدار پر چڑھادیا ۔ ان کے جسموں کو تانبے سے داغاگیا اور سورکی کھالوں میںبند کرکے تندور میںڈالاگیا۔ وہ مزید کہتاہے کہ مجھے اپنے پیداکرنے والے کی قسم ہے کہ ان میںایسا کوئی عالم نہ تھا جس نے انگریزوں کے آگے سرجھکایا ہو یا معافی مانگی ہو ۔ سارے کے سارے صبر وبرداشت کا بے مثال مظاہرہ کرکے آگ میں پک گئے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ دلی کے چاندنی چوک سے لے کر پٹنہ تک کوئی ایسا درخت نہ تھا جس پر علماء کی گردنیں نہ لٹکی ہوں۔اس جنگ آزادی کا ایک روشن پہلو ہندو مسلمانوں کا اتحاد بھی تھا۔ دونوںفرقے کیونکہ انگریزحکومت میں اپنے مذہبی اور تہذیبی تشخص کو لے کر فکرمند تھے۔ ان کاماننا تھا کہ حکومت میںا ن کا جان ومال ، عزت و ناموں کچھ محفوظ نہیں ہے۔ یہ کسی سیاسی مصلحت سے نہیںبلکہ صدیوں کے باہمی روابط اور رہن سہن کا فطری نتیجہ تھا۔ لہٰذا انگریزوں کے جبر واستبداد اور سیاسی استحصال کے خلاف مشترکہ اقدام کا و سیلہ بنا جس کانقطہ عروج 1947میںملک کی مکمل آزادی کی صورت میں سامنے آیااور آج بھی ہندو مسلم اتحاد کا یہ باب قوم کو اتحاد عمل کا درس دے رہاہے۔