کولکتہ کی فرم کو دیئے گئے 399کروڑ روپے کے منصوبے کا کیا ہوا؟جہلم اور فلڈ چینل کی ڈریجنگ پر سوالیہ
اشفاق سعید
سرینگر //شہر سرینگر سمیت جنوبی کشمیر کے بیشتر علاقے ایک بار پھر تباہ کن سیلاب سے بچ گئے ہیں۔لیکن جموں کشمیر انتظامیہ پچھلے 10برسوں سے بھی ٹس سے مس نہیں ہوئے ہیں، جب 2014میں شہر سرینگر اور جنوبی کشمیر کی 70فیصد آبادی پانی میں ڈوب گئی تھی۔وادی کشمیر جنوب اور جنوب مغرب میں پیر پنجال کے سلسلے، شمال میں کشمیر ہمالیہ اور شمال اور شمال مشرق میںگریٹر ہمالیائی سلسلے سے گھری ہوئی ہے۔جہلم طاس 24 کیچمنٹ پر مشتمل ہے جن میں معاون ندیاں پیر پنجال کے سلسلے کی ڈھلوان سے نکلتی ہیں اور بائیں کنارے پر دریا میں شامل ہوتی ہیں اور جو دیگر ہمالیائی سلسلے سے بہتی ہیںوہ دائیں کنارے پر دریا میں شامل ہوتی ہیں۔وادی کے ارد گرد کے پہاڑ، جو ہمیشہ برف سے ڈھکے رہتے ہیں، سطح سمندر سے 3000 سے 4000 میٹر تک بلند ہوتے ہیں۔ لیکن یہاں موسمی حالات غیر متوقع ہیں۔ وادی کشمیر کے جنوبی اور شمال مغربی حصے میں واقع 8نالے سندھ، لدر، برنگی، کتھر، ساندرن، ویشو، رمبی آرا ،رومشی اور آرہ پل ہیں۔ جہلم طاس کے جنوبی اور وسطی حصے میں واقع اننت ناگ، کولگام، شوپیان، سرینگر اور پلوامہ جیسے اضلاع میں شدید سے بہت زیادہ بارشیں ہونے کی پرانی تاریخ ہے۔جنوبی حصہ چونکہ ہمالیہ اور پیر پنچال کے بیت نزدیک ہے لہٰذا یہاں بارشیں لگاتار ہونا غیر متوقع نہیں ہے۔بھارتی محکمہ موسمیات کے مشاہدات میں کہا گیا ہے کہ جموں و کشمیر میں زیادہ تر سیلاب ستمبر کے مہینوں میں ہی آئے ہیں ۔لندن کی لیڈس یونیورسٹی اور جیوگرافیکل سروے آف انڈیا کی طرف سے ایک مطالعہ میں کہا گیا ہے کہ وادی کشمیر میں کسی بھی موسم میں سیلاب آنے کا امکان ہے۔2014کے بعد انہوں نے اپنے تجزیہ میں کہا ہے کہ جنوبی کشمیر کے نالہ ویشو،نالہ برنگی، نالہ لدر اور نالہ رمبی آرہ کے علاوہ نالہ رومشی اور آری پل میں بڑے پیمانے پر طغیانی آئی جس کی وجہ سے شہر سرینگر کی 70فیصد آبادی پانی میں ڈوب گئی،اور اس صدی کا سب سے بڑی ناگہانی آفت نے جموں کشمیر کی معیشت کو تباہ کردیا۔اس مطالعہ کا مقصد کشمیر کے طاس میں دریائے جہلم کے فلڈ فریکوئنسی تجزیہ کو انجام دینا تھا۔ دریائے جہلم کے تین گیجنگ اسٹیشنوں سے سالانہ چوٹی کے بہا ئوکے اعداد و شمار جمع کئے گئے۔ نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ تمام ادوار کا تخمینہ شدہ اخراج دریا کی موجودہ اوسط لے جانے کی صلاحیت 35000 کیوسک سے زیادہ ہے۔ اس طرح یہ امکان ہے کہ پانچ سال یا اس سے زیادہ کی مدت کے ساتھ کوئی بھی سیلاب دریائے جہلم کے کناروں سے بہہ جائے گا۔ اس مطالعہ میں بتایا گیا ہے کہ 2014میں دریائے جہلم میں پانی کے بہائو کی وسعت26000کیوسک تھی۔ اسی طرح 1902میں بنائی گئی رام باغ فلڈ چینل کی صلاحیت4000تھی، حالانکہ اس کی بنیادی وسعت کو 10000کیوسک تک بڑھایا جاسکتا ہے۔ اُس وقت کی ریاستی حکومت نے سیلاب کے ممکنہ خطرات کو دور کرنے کیلئے جہلم کیلئے ایک جامع منصوبہ ترتیب دیا اور 2016میںکلکتہ کی ایک فرم کو ایک کا ٹھیکہ دیا گیا۔ اس منصوبے کو وزیر اعظم کے ترقیاتی پیکیج کے تحت فنڈ کیا گیا ۔ دریائے جہلم کے فلڈ مینجمنٹ پلان کو دو مرحلوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ جہلم کے اخراج کی صلاحیت کو 60,000 کیوسک کرنے کیلئے پہلے مرحلے کے تحت 399 کروڑ روپے کی منظوری دی گئی۔پہلے دو تین برسوں میں اس پر کام کیا گیا لیکن 2028کے بعد یہ منصوبہ کہاں گیا اسکے بارے میں کوئی نہیں جانتا۔اس منصوبے کے مطابق دریائے جہلم میں پانی کی وسعت کو بڑھانے کیلئے اس کی ڈریجنگ، کناروں کو مضبوط بنانا، فلڈ چینل کو بھی صاف کرکے اس میں بھی پانی کی وسعت بڑھانا، نیز پالی تھین اور پلاسٹک کو جہلم میں پھینکنے سے گریز کرنے کی حکمت عملی مرتب کرنے جیسے اقدامات شامل تھے۔لیکن 2014سے ابتک پچھلے 10برسوں میں جہلم اور فلڈ چینل اورمیں پانی کے بہائو کی وسعت صرف 10,000کیوسک بڑھائی جاسکی ہے۔جہلم میں موجودہ صلاحیت33,000کیوسک اور فلڈ چینل میں 7000کیوسک ہے۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ جب 2014میں سیلاب آیا تھا تب جنوبی کشمیر سے پانی کا اخراج سنگم کے مقام پر 1,15,218 کیوسک اور سری نگر شہر کے رام منشی باغ میں 72,585کیوسک تھی۔یہی وجہ سے ہے کہ پانی جہلم کے کناروں سے بہنے ، بندھ ٹوٹ گئے اور وادی مکمل طور پر ڈوب گئی۔کشمیر یونیورسٹی کے محکمہ ارضیات نے 2016میں معروف سائنسدان ڈاکٹر شکیل رومشو کی سربراہی میں جو تحقیق کی تھی اس میں بتایا گیا تھا کہ وادی میں کسی بھی وقت سیلاب آسکتا ہے کیونکہ عالمی تحقیق کے مطابق سیلاب عالمی سطح پر لوگوں کو متاثر کرنے والا سب سے عام ماحولیاتی خطرہ ہے۔ انہوں نے یہ بھی مشاہدات کیا تھا کہ کشمیر ، چونکہ ہمالیائی سلسلے میں واقع ہے لہٰذا یہاں غیر متوقع طور پر بارشیں بھی ہوسکتی ہیں برفباری بھی ہوسکتی ہے اور گرمی کے ایام بھی برح سکتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا ہے کہ غیر مناسب طور پر، آبادی میں اضافے، اقتصادی ترقی اور موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے سیلاب کے اثرات میں اضافہ متوقع ہے ۔ساختی اقدامات سیلاب کے خطرے سے وابستہ نقصانات کو کم کرنے کے لیے سب سے زیادہ وسیع پیمانے پر اختیار کی جانے والی حکمت عملی ہے۔ تاہم، ہائیڈرولک ڈھانچے کی ڈیزائننگ بڑی حد تک دریا کے بہا کے رویے پر منحصر ہے۔ تاریخی رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ دریائے جہلم نے کئی سالوں سے سیلابوں کا سلسلہ دیکھا اور ان میں سے بہت سے بڑے پیمانے پر تباہی کا باعث بنے۔ جدید دور میں بھی جہلم میں سیلاب ایک متواتر رجحان رہا ہے اور ماضی قریب کے چند قابل ذکر سیلاب کے واقعات بھی ہوئے ہیں۔ گلوبل پوزیشننگ سسٹم (GPS) کا استعمال کرتے ہوئے سیلاب کے بعد کے سروے سے حاصل کردہ بلند ترین فلڈ لیول (HFL) کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ سیلاب کے دوران کشمیر کے مختلف علاقوں میں سیلاب کے پانی کی گہرائی 16 فٹ اور طویل عرصے سے 25 دن تک ڈوبنے کی مدت ہے ۔
چیف انجینئر
چیف انجینئر فلڈ کنٹرول کشمیر نریش کمار نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ ہمیں اپنے نظریہ کو بدلنا ہو گا کیونکہ ہم صرف بارشوں کے دوران رام منشی باغ تک پہنچ کر وہاں سے یہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ کشمیر میں سیلاب کا خطرہ بڑھ گیا ہے، لیکن یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ ہم نے 2014کے سیلاب کے بعد کتنا کام کیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ جہلم میں پانی کی صلاحیت 2014میں30ہزار کیوسک تھی جو اب بڑھ گر 40ہزار کیوسک ہو چکی ہے ۔انہوں نے کہا کہ اس میں 50ہزار کیوسک پانی بھی جمع رہ سکتا ہے ۔کمار نے کہا کہ ہر کوئی 2014کے سیلاب کے ساتھ اس کی مشابہت کرتا ہے لیکن یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ جہلم میں پہلے مرحلے کے تحت جہلم کے کناروں پر بنڈ بنائے گئے۔انہوں نے کہا کہ شریف آباد اور نائدکھائی میں پلوں کی تعمیر ہوئی اور وہاں جہلم کو چوڑا کیا گیا، تاکہ آسانی سے وہاں سے پانی نکل سکے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے پہلے مرحلے کے تحت واٹر چینل کی مرمت کی ۔ فلڈچینلوں کی ڈریجنگ کی اور اب دوسرے مرحلے میں ہم جگہ جگہ پروٹیکشن بنڈ تعمیر کررہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ جہلم میں جہاں کہیں بھی انہیں پریشانی لگتی ہے کہ یہاں خطرہ ہے وہاں زیادہ سے زیادہ کام کیا جاتا ہے ۔